نازکی اس کے لب کی کیا کہیے
پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے
اردو شاعری سے ذرا سی بھی شد بد رکھنے والے کسی شخص نے میر کا یہ شعر نہ سنا ہو،میرے خیال میں یہ ممکن نہیں ہے۔میرا تجربہ تو یہ ہے کہ جب بھی یہ شعر پڑھا سننے والے نے آگے پڑھ دیا۔مجھے علامہ احمد جاوید صاحب کی یہ بات یاد آ رہی ہے کہ جمالیات کو سمجھ کی احتیاج نہیں ہوتی۔اچھا شعر بغیر سمجھے بھی اچھا لگتا ہے۔علامہ کی بات میں نے اپنے لفظوں میں ادا کی ہے۔میر کا شعر جمالیاتی سطح پر خوبصورت ہے لہٰذا سمجھے جانے سے زیادہ یہ محسوس کیا گیا ہے۔کسی قاری سے اس کے معنی دریافت کر کے دیکھئے تو اس بات کا اندازہ ہو جائے گا کہ تفہیم کی سطح پر اس شعر کو زیادہ جگہ نہیں ملی ہے۔عام طور پرا س طرح کی باتیں سننے کو ملتی ہیں کہ محبوب کا حسن بیان کیا گیا ہے،لبوں کی نازکی کی مثال گلاب کی پنکھڑی سے دی ہے۔لبوں کی نزاکت کو مجاز مرسل کے زاویے سے دیکھئے تو یہ محبوب کی نازکی اور حسن کا بیان بن جاتا ہے۔اسی طرح کی کچھ اور باتیں قاری سے سننے کو مل جاتی ہیں۔میں چاہتا ہوں کہ احساس سے بلند ہو کر شعور کی سطح پر اس شعر کی تفہیم کی جائے۔
سمجھنے اور تفہیم کی بات کرنے کا پہلا مطلب تو یہ ہے کہ روایت،زبان اورشعریات سے واقفیت کا اعتراف کیا جا رہا ہے اور اردو شاعری اور غزل کی روایت و شعریات سے آگاہی کے ساتھ اردو زبان سے آشنائی بھی قبول کی جارہی ہے۔ان ادعا کو تعلی پر محمول نہیں کیا جانا چاہیے بلکہ شعر پر گفتگو کا جواز سمجھنا چاہیے۔
شاعر بھی روایت،شعریات اور زبان پر دست رس رکھتا ہے۔اس کے علاوہ خدا داد صلاحیت کے ساتھ شاعر کی انفرادی،سماجی،اجتماعی،گروہی زندگی ہوتی ہے۔اس کی اپنی خواہشیں،تمنائیں اور آرزوئیں ہوتی ہیں۔انسان،کائنات اور خدا کی ذات کو دیکھنے،سمجھنے اور محسوس کرنے کا اس کا اپناطریقہ ہوتا ہے۔اپنی ذات کے تقابل میں وہ انسان،سماج،کائنات اور خالق کائنات کے رشتوں کا بھی احساس رکھتا ہے۔اس کے اپنے تصورات،نظریات اور تخیلات ہوتے ہیں۔اس کی اپنی سماعت،بصارت اور دل ہوتا ہے۔اس کا اپنا تفکر،تعقل اور تلازماتی نظام ہوتا ہے۔یہ سلسلہ یہیں پر ختم نہیں ہوتا ابھی اور بھی چیزوں ہیں جن کو تفہیم میں شامل کیا جا سکتا ہے۔فی الحال انھیں زاویوں سے شعر پر غور کرتے ہیں۔
پڑھنے کی صورت میں شعر پر سب سے پہلے نظر پڑتی ہے۔آنکھ فقط Reading Mechanismکے تحت شعر کو پڑھے گی تو لفظوں کو لفظ ہی کی شکل میں دیکھے گی۔اس کے علی الرغم روایت اور شعریات کو پیش نظر رکھ کر شعر کو پڑھا جائے گا تو لفظ کو فقط مجموعی طور ہی پر نہیں توڑ توڑ کر بھی پڑھا جائے گا۔شعر کے پہلے ہی لفظ کو لیجئے’نازکی‘اس کو پڑھنے میں جز پر بھی نظر رہے تو’نازکی‘میں ’ناز‘کی موجودگی مل جائے گی اور غزل کی روایت میں ’ناز‘اپنی معنویت رکھتا ہے۔اس عمل سے قاری کے ذہن میں ناز و ادا والے محبوب کی تصویر ابھر آئے گی۔اسی طرح مصرعہئ ثانی کے پہلے لفظ ’پنکھڑی‘میں سے ’پنکھ‘کو محسوس کر کے ایک پری کا پیکر بنایا جا سکتا ہے۔سماعت کی طرف دھیان دیجئے،اس شعر میں ’ی‘کی آواز یں بہت اہم ہیں۔’نازکی‘، ’لب کی‘،’پنکھڑی اور’کی سی‘پر قاری زور دیتا ہے اور ہلکا سا ٹھہرتا بھی ہے۔یہ آوازیں نگاہوں کو زمین کی طرف یعنی نیچے کی طرف کردیتی ہیں۔یہ آوازیں چاہتی ہیں کہ قاری کی نگاہیں نیچی رہیں اور محبوب کے چہرے کی جانب نہ اٹھیں۔
اس خواہش کی تصدیق اسی شعر سے کی جا سکتی ہے۔شاعر نے قاری کی نگاہوں کو پہلے نازکی اور پھر لب پر روک دیاہے۔نازکی کے لفظ سے ذہن کو منتشر بھی کیا ہے اورناز و ادا کی تصویروں کو سطح ذہن پر ابھارا ہے۔اگر مصرع کچھ یوں ہوتا ’لب کی کیا نازکی بیاں کیجے‘تو پہلے نگاہ لبوں پر پڑتی۔شاعر نہیں چاہتا کہ قاری کی نگاہ چہرے پر پڑے لہٰذا اس نے نگاہوں کا چہرے کی جانب اٹھنا تو دور تصور میں بھی تصویر نہیں بننے دی ہے۔اس کا ثبوت یہ ہے کہ مصرعہئ ثانی میں پنکھڑی سے پورے گلاب کی تصویر نہیں بنتی جب کہ گلاب کا نام بھی لیا گیا ہے۔
لب سے بوس و کنار کی طرف ذہن منعطف ہو سکتا تھالیکن شعر میں لب سے دوری کو برقرار رکھا گیا ہے۔گل ہوتا تو اس کو سونگھنے کی خاطر مشام کے قریب لایا جاسکتا تھا لیکن ایک نازک پنکھڑی کودور ہی سے دیکھا جاسکتا ہے۔غور کیجئے کہ پنکھڑی کا دیکھنا جاذب معلوم ہو رہا ہے؟آپ کو احساس ہوگا کہ پنکھڑی کو دیکھنے میں کشش نہیں رکھی گئی ہے۔شاعر نے اس کشش کو ’ڑی‘کی کرخت آواز سے ارادتاً مجروح کیا ہے۔اگر ’ڑ‘ کو’ر‘ میں بدل کر پنکھڑی کو ’پنکھری‘پڑھا جائے تواس لفظ کی صوتی کراہیت زائل ہو جاتی ہے۔شاعر نے اس صوتی کرختگی سے محبوب کے حجاب کو برقرار رکھا ہے۔
صوتی زاویے کے بعد لفظوں کے انتخاب اور ترتیب پر غور کیجئے،’نازکی اس کے لب کی کیا کہیے،‘ اس مصرع میں ’اُس‘سے بھی دوری پیدا کی گئی ہے۔یہ بھی مذکورہ بالاحجاب کے نکتے کو تقویت پہنچاتا ہے۔’پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے‘اس مصرع میں ’اک‘ کو پنکھڑی اور گلاب دونوں کے ساتھ پڑھا جا سکتا ہے۔اس طرح گلاب کی ایک پنکھڑی اور ایک گلاب کی پنکھڑی دونوں معنوی جہتیں نمودار ہو جاتی ہیں۔اس سے پنکھڑی ایک خاص گلاب کی بن جاتی ہے اور اس سے گلاب کی تعمیم دور ہو جاتی ہے۔
’اک‘کا تصرف اس وقت مزید واضح ہوتا ہے جب یہ سوال کیا جائے کہ لب سے مراد ایک ہونٹھ ہے یا دونوں؟یہ سوال آپ کو تھوڑا چکرا دے گا۔اس کا سبب یہ ہے کہ کہا تو ’لب‘ گیا ہے لیکن تصویر ایک ہونٹھ کی نہیں بنتی۔ایک سوال اور کریں؟یہ بتائیے کہ لب کھلے ہیں یا بند؟ جی ہاں!غزل کی روایت کے سبب بند لبوں کی تصویر بنتی ہے۔ نازک ترین دونوں لب جب بند ہیں تو ان پر ’لب‘ یعنی واحدا اطلاق کیا جا سکتا ہے۔اب دو لبوں کی نزاکت ایک پنکھڑی کے برابر ٹھہرتی ہے۔صنعت سیاق الاعدادیعنی ’دو‘اور ’اک‘ کا لطف لیجئے۔اس کے علاوہ ایک بات اور ملاحظہ فرمائیے کہ دو لب ایک پنکھڑی کے برابر ہونے کی حالت میں پنکھڑی زیادہ نازک رہ جاتی ہے یا لب؟ظاہر ہے کہ لب زیادہ نازک ہیں،اب تشبیہ پر غور کیجئے مشبہ خودمشبہ بہ سے زیادہ نزاکت کا حامل ہے، لیجئے میر نے تشبیہ ہی کو الٹ کر رکھ دیا ہے۔
اب شعر کی تصویر پر نگاہ کیجئے،لب ہیں،ان کی کیفیت ہے،جذبہئ ستائش ہے،لفظوں سے کیفیت بیان نہیں ہو سکتی اس کا احساس ہے،تشبیہ کا خیال ہے،خیال کے نتیجے میں گلاب کا کھلا ہوا پھول ہے،پھول کے درمیان میں نظر جمی ہے،پنکھڑی کی نزاکت کچھ موزوں معلوم ہوئی ہے،رنگ بھی موجود ہے،چمن کے ساتھ پھول کی تصویر نہیں ہے،پھول کی ہیئت بڑی ہے نہ چھوٹی،درمیانی حالت کے قریب قریب ہے اور اپنے اندر توانائی کا احساس رکھتی ہے، وقت دن کا ہے، محسوس کیجئے تو صبح معلوم ہوتی ہے،پھول کا تازہ پن اوس کے احساس سے صبح کا منظر بناتا ہے،مجسم طور پر محبو ب کا وجود نہیں ہے،پھول مادی شکل میں آنکھوں کے سامنے ہے اورمحبوب خیالوں میں ہے۔
ایک سوال کریں، ذرا منظر پر نظر ڈال کر جواب دیجئے گا،پھول کا رخ کدھر ہے؟ پھول کی تصویر اگرپودے کے ساتھ ہوتی تو رخ آسمان کی طرف مانا جاسکتا تھا۔ پھول کا رخ کدھر ہے آتش کے شعر سے منکشف ہوتا ہے:
یہ آرزو تھی تجھے گل کے رو برو کرتے
ہم اور بلبل ِ ناشاد گفتگو کرتے
گل کا رخ عاشق کے سامنے ہے۔رخ طے ہونے کے بعد،یہ سوال کیا جائے کہ عاشق کی نگاہ لب ہی پر کیوں جم گئی ہے؟کون سا ایسا احساس اور کون سا ایسا جذبہ ہے جو گل کے سامنے ہونے پر لب کو مرکز نگاہ بنا رہا ہے؟ظاہر ہے گل کا سامنے ہونا دیدار کی تشنگی اور ہم کلامی کی تمنا لب کی جاذبیت کو اجاگر کررہی ہے۔
اس تصویر میں کسی قسم کا گلا،شکوہ،شکر رنجی یاتلخی نہیں پائی جاتی۔محبوب کے خیال سے ذہن کو خوش رنگ اور تر و تازہ بنایا جا رہا ہے۔پنکھڑی کی مثال اگر ابروئے چشم سے دے دی جاتی تو اس مشابہت سے نازکی ثابت ہو جاتی لیکن رنگ سیاہ ابھرتا اور رنج و غم کا اشارہ بن جاتا۔ اگر یہ بات قابل قبول ہے تو بلا خوف ِ تردید یہ کہا جا سکتا ہے کہ لب اور پنکھڑی سے رنگ سرخ بنتا ہے جو خوب صورتی کے ساتھ خوشی کی بھی علامت ہے۔
اب تخیل کو متحرک کیجئے،نازکی سے دبلاپتلاچھریرا بدن،قد لمبا نہ چھوٹا مگر درمیانی سے کچھ نکلتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔چہرہ گول گلاب کے پھول کی طرح سرخ،دہانہ چھوٹا،ناک کھڑی اور پتلی نازک سی، کم سخن اوراٹھلائی ہوئی چال کچھ اس طرح کا نقشہ بنتا ہے۔خوش کلامی کی بھی تصویر ہے لیکن یہ منطقی پہلو سے بر آمد ہوتی ہے۔ منہ سے پھول جھڑناخوش کلامی کا محاورہ ہے جہاں لب مثل پنکھڑی کے ہوں تو وہاں گفتگو کا کیف و رنگ کیا ہوگا،اس کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
شعر کے اسلوبِ بیان پر بھی کچھ نظر کر لیجئے،عاشق ہونے کا جواز محبوب کے حسن میں ہوتا ہے، روایت کے مطابق محبوب کا حسن بے مثل و بے نظیر ہی ہوتا ہے،عاشق حسن کا اظہار تو چاہتا ہے لیکن بے نقابی خلاف ِشریعت ِعشق ہے۔لب کا حسن بیان کیا جائے تو لب بے حجاب ہو جائیں گے لہٰذا لب پر نازکی کی چادر ڈال دی گئی ہے۔’کیا کہیے‘سے تشبیہات کے امکانات روشن کئے ہیں یعنی پنکھڑی کے علاوہ بھی مثالیں ہو سکتی ہیں۔تشبیہاتی امکانات کے بغیر پنکھڑی سے تشبیہ دی جاتی تو انتقال ذہنی ہر بار لب ہی پر جا کر ٹھہرتالیکن ’کیا کہیے‘ کی ترکیب نے کیا خوب کام کیا! ایک طرف نگاہِ تخیل کو ایک مقام پر ٹھہرنے نہیں دیا اور دوسری جانب یہ ظاہر کیا کہ اس مثال سے بہتر مزید مثالیں دی جا سکتی ہیں گویا یہ تعریف تو ہے تاہم مکمل نہیں ہے۔
اجازت دیجئے تو ایک بات اور کہہ دوں،اوپر میں نے عرض کیا ہے کہ پنکھڑی کو نزاکت کی نقاب اڑھائی گئی ہے، دیکھئے! بات فقط اتنی ہی نہیں ہے پنکھڑی کو بھی پھول میں چھپایا گیاہے۔ گلاب کے پھول میں بہت سی پنکھڑیاں ہوتی ہیں، ان میں سے کون سی پنکھڑی سے تشبیہ دی گئی ہے،اس کی کوئی نشاندہی نہیں کی گئی ہے۔ ’اک‘ کہہ کر اختصاص اور تشخیص کو روکا گیا ہے، جب کہ اس کا مفہوم یہ ہے کہ وہ پنکھڑی وہی ہے جوپھول میں سب سے زیادہ خوبصورت اور نازک ہے۔تخلیق کار کے تصور حجاب سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سے مراد پھول کے دائرے یعنی باہری سطح پر آنے والی پنکھڑیوں میں سے کوئی پنکھڑی نہیں ہے بلکہ وہ پنکھڑی ہے جو پنکھڑیوں کے جھرمٹ میں کہیں چھپی ہوئی ہے۔