qaumikhabrein
Image default
ٹرینڈنگسیاستقومی و عالمی خبریں

بی ایس پی ’ایکلا چلو‘کی راہ پر ۔۔سراج نقوی

دلت مفادات کی مدعی بی ایس پی نے اتر پردیش میں پارلیمنٹ کا آئیندہ الیکشن ’ایکلا چلو‘ کی پالیسی کے تحت لڑنے کا اعلان کیا ہے۔پارٹی سپریمو مایاوتی نے کہا ہے کہ ان کی پارٹی اپنے دم پر آئیندہ لوک سبھا الیکشن لڑیگی۔مایاوتی کی دلیل ہے کہ گذشتہ تجربوں سے پتہ چلتا ہے کہ ان کی پارٹی کو کسی سیاسی محاذ میں شامل ہونے سے کچھ حاصل نہیں ہوا۔اپنی پارٹی کے لیڈروں کے ساتھ ایک میٹنگ میں مایاوتی نے این ڈی اے اور اپوزیشن پارٹیوں کے اتحاد’انڈیا‘ کو بھی نشانہ بنایا۔
مایاوتی کسی سیاسی اتحاد کے ساتھ جائیں یا نہ جائیں یہ بات زیادہ اہم نہیں۔کم از کم بی جے پی کو مایاوتی کو ساتھ لانے سے کچھ زیادہ فائدہ شائد ہی ہو۔اس لیے کہ ’منووادی طاقتوں‘ کے ذریعہ دلتوں کو ستائے جانے کے باوجود بی جے پی دلت ووٹوں کے ایک حصّے کو بی ایس پی سے توڑ کر اپنے ساتھ لانے میں کامیاب ہوئی ہے۔گذشتہ اسمبلی الیکشن میں کئی حلقوں میں ایسا ہوا ہے کہ بی ایس پی کا روائتی ووٹ بھی کسی نہ کسی سبب سے بی جے پی کی طرف منتقل ہو گیا۔اپنی شکست کے لیے مسلمانوں کو ذمہ دار ٹھہرانے والی مایاوتی نے کبھی بھی اس صورتحال پر سوال نہیں اٹھایا کہ آخر دلت ووٹ بی جے پی کی طرف کیوں گیا۔اگر آپ گذشتہ اسمبلی الیکشن کے نتائج کا ایماندارانہ تجزیہ کریں تو یہ حقیقت سامنے آجائیگی کہ بی ایس پی ہو یا پھر سماجوادی پارٹی دونوں ہی کا روائتی ووٹ بنک موقعہ دیکھ کر بی جے پی کے کھاتے میں جاتا رہا ہے۔اس لیے مایاوتی این ڈی اے میں شامل ہوں یا نہ ہوں دلت ووٹوں کا کچھ حصہ بی جے پی کو مل ہی جائیگا۔لیکن زیادہ اہم بات یہ ہے کہ اگر مایاوتی کسی اتحاد میں شامل ہوئے بغیر لوک سبھا الیکشن لڑتی ہیں تو اس کا فائدہ ان سے زیادہ بی جے پی کو ہی ہوگا۔مایاوتی کہتی ہیں کہ انھیں یہ تجربہ ہے کہ سیاسی اتحاد کا فائدہ ان کی پارٹی کو نہیں ہوا۔ہو سکتا ہے کہ ان کا یہ دعویٰ درست ہو،

تصویر۔ بشکریہ اے این آئی

لیکن اتنی ہی درست یہ بات ہے کہ جب ان کی پارٹی کسی اتحاد میں شامل نہیں ہوتی تو ان کا ووٹ بنک جہاں بی ایسی پی کو کزور دیکھتا ہے وہاں زیادہ تر بی جے پی کی طرف کھسک جاتا ہے۔اب یہ کہنا تو مشکل ہے کہ ایسا مایاوتی کے کہنے پر ہوتا ہے یا ’بہن جی‘ کے وفادار ان کے سیکولرزم کو بالائے طاق رکھ کر خود ہی بی جے پی کا دامن تھام لیتے ہیں۔لیکن یہ صورتحال بی جے پی کو بالواسطہ فائدہ پہنچاتی ہے، اس میں کوئی شک نہیں ہے۔اسی لیے یہ بات بڑی حد تک طے ہے کہ اگر مایاوتی ’ایکلا چلو رے‘ کی پالیسی پر گامزن ہیں تو اس کا بالواسطہ فائدہ بی جے پی کو ہی ہوگا،اور اپوزیشن پارٹیاں جو اس کوشش میں ہیں کہ کسی بھی صورت میں بی جے پی مخالف ووٹ تقسیم نہ ہو،انھیں مایاوتی کے اس اعلان سے مایوسی ہی ہو گی۔بات صرف یہی نہیں کہ مایاوتی کا فیصلہ اپوزیشن اتحاد کو نقصان پہنچانے کا باعث بن سکتا ہے،بلکہ خود بی ایس پی کو بھی اس سے کوئی فائدہ ملنا مشکل ہی ہے۔اس لیے کہ اپنے غیر ذمہ دارانہ بیانات اور فیصلوں سے مایاوتی نے ایک طرف تو مسلم ووٹروں کو ناراض کیا ہے دوسری طرف بی جے پی کی طرف جا رہے دلت ووٹوں کو روکنے کے لیے کوئی مضبوط حکمت عملی اختیار کرنے سے بھی وہ قاصر رہی ہیں۔اس کا کیا سبب ہے یہ مایاوتی ہی بہتر جانتی ہونگی، لیکن ان کے بارے میں یہ خیال مضبوط سے مضبوط تر ہو رہاہے کہ وہ سیکولر اتحاد کے لیے ناقابل یقین ہیں اور درپردہ طور پر بی جے پی کو فائدہ پہنچانے والے فیصلے کر رہی ہیں۔حالانکہ یہ الزام لگانا تو مشکل ہے کہ وہ یہ سب ای ڈی کے خوف میں کر رہی ہیں،لیکن یہ بات تو سب جانتے ہیں کہ ان کے دور کے کئی گھوٹالوں کی فائلیں اب ٹھنڈے بستے میں دبی ہوئی ہیں۔مایاوتی اگر مودی حکومت یا بی جے پی کے خلاف زیادہ سخت تیور اختیار کرتی ہیں تو یہ فائیلیں کھولی جا سکتی ہیں۔اس بات کو اگر خیالِ خام بھی مان لیں تب بھی یہ تو بہرحال سچ ہے کہ مایاوتی نے گذشتہ کچھ عرصے میں کئی ایسے موضوعات پر بی جے پی کو کھلی حمایت دی ہے کہ جن کے تعلق سے بقیہ اپوزیشن پارٹیوں کا رویّہ مختلف تھا۔ظاہر ہے مایاوتی اپنے دونوں ہاتھوں میں لڈّو رکھنا چاہتی ہیں۔وہ سیکولربھی بنے رہنا چاہتی ہیں اور’وقتِ ضرورت‘ بی جے پی کے پالے میں جانے کا راستہ بھی کھلا رکھنا چاہتی ہیں۔ان کا سابقہ ریکارڈ اس بات کی تصدیق کے لیے کافی ہے۔مایاوتی کا الزام ہے کہ جب بھی وہ کسی پارٹی کے ساتھ اتحاد کرتی ہیں تو ان کے ووٹ تو اتحادی پارٹی کو مل جاتے ہیں،لیکن اس کے برعکس کبھی نہیں ہوتا۔اس الزام میں کسی قدر سچائی ہے،لیکن اتنا ہی یہ بھی سچ ہے کہ ان کے ووٹروں کا ایک حصّہ بی ایس پی سے اپنی برادری کا کوئی امیدوار نہ ہونے پر بی جے پی کو چلا جاتا ہے۔سماجوادی پارٹی کے ساتھ بھی یہی معاملہ کئی مواقع پر دیکھا گیا ہے

لیکن مایاوتی کی اس دلیل کا کہ اتحاد میں شامل ہونے سے ان کی پارٹی کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا،ایک دوسرا پہلو بھی ہے جو کم از کم 2024کے پارلیمانی انتخابات کے اعتبار سے زیادہ اہم ہے،اور وہ یہ کہ موجودہ حکمرانوں کے رویے کو دیکھ کر بیشتر اپوزیشن پارٹیاں محسوس کرتی ہیں کہ اگر وہ متحد ہو کر بی جے پی کے خلاف نہیں آئیں تو جمہوریت ہی خطرے میں پڑ جائیگی۔کانگریس اور دیگر کئی پارٹیاں اس اندیشے کا اظہار کر چکی ہیں کہ آئیندہ پارلیمانی الیکشن کو جیتنے کے لیے فرقہ پرست طاقتیں تشدد تک سہارا لے سکتی ہیں۔ حکومت جس طرح تمام آئینی اداروں کو ختم کرنے پر آمادہ نظر آتی ہے،جس طرح عدلیہ کو بھی اپنی کٹھ پتلی بنانے کی کوششیں کر رہی ہے،جس طرح عدلیہ کاا یک حصہ حکومت کے دباؤ میں فیصلے دے رہا،جس طرح ملک کی سب سے بڑی عدالت تک میں کالیجیم نظام کو کمزور کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور جس طرح حکومت کی منمانی پر لگام کسنے کی سپریم کورٹ کی کوششوں کو بے اثر کرنے کے لیے آمرانہ قانون بنائے جا رہے ہیں،انھیں دیکھتے ہوئے بڑا مسئلہ کسی پارٹی کا مفاد نہیں بلکہ جمہوریت اور آئین کا مفاد اور تحفظ ہے۔اس ملک کی گنگا جمنی تہذیب اور قومی یکجہتی کی روایات کا تحفظ ہے


۔اس بڑے چیلنج کو سامنے رکھتے ہوئے ہی کانگریس اور دیگر بہت سی اپوزیشن پارٹیوں نے متحد ہو کر الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا ہے،اور اس عزم کا بھی اظہار کیا ہے کہ وہ حتیٰ الامکان پارٹی مفاد کو ترجیح نہ دیکر اس بات کو ترجیح دینگے کہ کس طرح ملک دشمن،آئین دشمن اور جمہوریت دشمن طاقتوں کو شکست دی جائے۔مایاوتی جو ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر کے نام پر ہی اپنی پارٹی چلا رہی ہیں کیا انھیں آئین کو خطروں سے بچانے کے لیے اپوزیشن پارٹیوں کے ساتھ ہی ایک پلیٹ فارم پر نہیں آ جانا چاہیے؟اور اس بات کو زیادہ ترجیح نہیں دینی چاہیے کہ پارٹی بچانے سے زیادہ اہم مْقصد آئین کو بچانا ہے۔یہ کام مایاوتی اور ان کی پارٹی کم از کم موجودہ حالات میں تو اپنے بل بوتے پر نہیں کرسکتی۔ گذشتہ چند انتخابات کا ریکارڈ دیکھیں تو یہ واضح ہو جائیگا کہ ان کا ووٹ بنک مسلسل کم ہوا ہے۔اتر پردیش کے گذشتہ اسمبلی الیکشن کے نتائج صاف بتاتے ہیں کہ کسی کے ساتھ اتحاد کیے بغیر بھی ان کی پارٹی اپنی طاقت کو بڑھانے میں ناکام ہی رہی اور اس کا سیدھا فائدہ بی جے پی کو ہی ہوا۔ظاہر ہے جب وہ یہ کہتی ہیں کہ وہ اپنے بل بوتے پر ہی الیکشن لڑینگی تو اس پر سب سے زیادہ اطمینان شائد بی جے پی ہی محسوس کرے۔اس لیے کہ اس کا بالواسطہ فائدہ اسی کو ہی ہوگا۔اسی لیے ایکلا چلو کی ان کی پالیسی جان بوجھ کر نہ سہی لیکن انجانے میں ہی فرقہ پرست طاقتوں کو فائدہ پہنچانے کی ہی کوشش ہے۔
sirajnaqvi08@gmai.com Mobile:9811602330

Related posts

کمال امروہی کے نقش قدم پر فراز حیدر۔

qaumikhabrein

بنگلہ دیش میں معروف روہنگیا لیڈر محب اللہ کا قتل۔

qaumikhabrein

ایران۔ملک میں تیار ویکسین کی پہلی ڈوز سیدعلی خامنہ ای نے لگوائی۔

qaumikhabrein

Leave a Comment