
مظفر پور بہار کے عالم دین مولانا سید شبیب کاظم کی حال ہی میں ایک تصویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی ہے۔ مولانا اسپتال کے بیڈ پر ہیں۔ ہاتھ میں زخم ہے۔ زخم پر پٹی بندھی ہوئی ہے۔ پٹی کے اوپر خون کے دھبے نظر آرہے ہیں۔ انکا ایک پاؤں زنجیر سے بندھا ہوا ہے۔ یعنی اسپتال کے بستر پر بیماری کی حالت میں بھی وہ قیدی بنا کر رکھے گئے ہیں۔ ایک عالم دین کی یہ حالت کسی بھی درد مند اور حساس انسان کے دل کو تڑپا دینے کے لئے کافی ہے۔ کربلا کے مصائب سن کر آنسو بہانے والے ہر شیعہ کے دل کو یہ تصویر دیکھ کر شدید تکلیف کا احساس ہونا فطری ہے۔

مولانا شبیب کاظم دو ماہ سے زیادہ عرصے سے جیل میں ہیں۔ انکو مختلف الزامات کے تحت تقریباً 50 مقدموں کا سامنا ہے۔ مولانا شبیب کاظم کو قید و بند اور مصیبتوں کا سامنا صرف اس لئے کرنا پڑ رہا ہے کیونکہ انہوں نے بہار کے شیعہ اوقاف کو لوٹنے کھسوٹنے والے عناصر کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی۔ شیعہ وقف املاک کو برباد کرکے دولت کمانے والوں کی راہ میں حائل ہونے کی کوشش کی۔ لینڈ مافیا کے بھیس میں شیعہ اوقاف کے متولی بنے لوگو ں کے شکنجے سے وقف املاک کو بچانے کی کوشش کی۔ اسکا نتیجہ یہ ہیکہ آج مولانا شبیب کے خلاف وقف برباد کرنے والے متولیان ، انکی پشت پناہی کرنے والے بہار شیعہ وقف بورڈ کے چئیر مین اور وقف املاک کی لوٹ کھسوٹ سے مالا ہونے والے تمام عناصر متحد اور یکجا ہو گئے ہیں۔

اوقاف کے ڈاکؤوں اور لٹیروں کا مولانا شبیب کے خلاف اتحاد تو سمجھ میں آتا ہے کیونکہ انکے مفادات کی راہ میں مولانا شبیب کاظم حائل ہو رہے ہیں لیکن تعجب تو اس بات پر ہے کہ آخر مولانا شبیب کاظم کی حمایت میں شیعہ علما کیوں متحد نہیں ہیں۔ انکی رہائی کے لئے شیعہ علما نے مضبوط انداز میں متحدہ کوششیں اب تک شروع کیوں نہیں کی ہیں۔ یہ مسئلہ صرف بہار کے اوقاف کے تحفظ کا نہیں ہے بلکہ اب یہ شیعہ علما کے عزت و وقار کا معاملہ بن چکا ہے کہ انکا ہم لباس اور ہم عقیدہ ایک شخص جھوٹے مقدمات کا سامنا کرتے ہوئے بیماری کی حالت میں جیل میں ہے اور ملک بھر کے شیعہ علما اسکی پشت پناہی مدد و تعاون ، اسکی جد و جہد میں اسکا ساتھ دینے اور اسکی حوصلہ افزائی کے لئے متحد نہیں ہیں۔

شیعہ علما کے صرف ایک پلیٹ فارم ”شیعہ علما اسمبلی’ کے علاوہ علما کی کسی تنظیم نے مولانا کاظم کے حق میں پر زور انداز میں آواز بلند نہیں کی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ معاملے کو حل کرنے کی کوشش نہیں ہوئی ہوئی لیکن کچھ علما کی جانب سے کی گئی کوششیں ناکافی ثابت ہوئی ہیں مولانا شبیب کا دشمن دھڑا اپنے موقف سے ہٹنے کو تیار نہیں ہے۔۔ دہلی میں جے ڈی یو کے دفتر کے باہر بھی احتجاج کیا گیا لیکن بہار حکومت کے کانوں پر جوں نہیں رینگی۔

‘احترام منبر مہم’ مجالس عزا کے عزت ،وقار اور تقدس کی بحالی کے لئے میدان عمل میں آئی ہے لیکن اسکو ابھی تک ایک ایماندار اور جرت مند صاحب منبر کی مدد اور حمایت کا خیال نہیں آیا ہے۔ مولانا آغا روحی نے اصلاح محراب کی بات چھیڑی ہے لیکن کاظم شبیب جیسے صاحب محراب کے حق میں انکے منہ سے بھی کوئی آواز نہیں نکلی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہیکہ ملک بھر کے نا سہی کم سے کم اتر پردیش اور بہار کے تمام شیعہ علما ، ذاکرین اور صاحبان محراب و منبر مولانا شبیب کاظم کی فوری رہائی کے لئے اٹھ کھڑے ہوں۔ خواہ اسکے لئے انہیں پٹنہ اور مظفر پور میں سڑکوں پر احتجاج کے لئے اترنا پڑے یا بہار شیعہ وقف بورڈ کے باہر چیئر مین کے خلاف احتجاجی دھرنا دینا پڑے۔

مولانا شبیب کاظم سخت بیمار ہیں۔ انکی فوری رہائی اس وقت سب سے زیادہ اہم ہے۔ تنازعہ سلجھانے کی کوشش ثانوی حیثیت رکھتی ہے۔ خدا نہ کردہ اگر مولانا شبیب کاظم کو قید و بند کے دوران کچھ ہو گیا تو ملک کی شیعہ علما برادری کے لئے ڈوب مرنے کی بات ہوگی۔