qaumikhabrein
Image default
ٹرینڈنگقومی و عالمی خبریں

مولا علی کا بغیر ‘الف’ کے استعمال والا خطبہ۔

مولائے کائنات حضرت علی علیہ السلام کی ذات مجموعہ معجزات ہے۔ اسی لئےانہیں مظہر العجائب کہا جاتا ہے۔میدان جنگ ہو یا میدان علم و ادب مولا علی ہر جگہ افضل بشر نظر آتے ہیں۔ وہ خود تو امام ہیں ہی انکا کلام بھی امام الکلام ہے۔ذیل میں انکا ایک ایسا خطبہ پیش کر رہے ہیں جس میں حرف ‘الف’ کا استعمال نہیں ہے۔ مولا علی نے یہ خطبہ فی البدیہ ارشاد فرمایا تھا۔یہ معجزاتی خطبہ نہج البلاغہ میں موجود ہے۔۔

عربی متن:~
💢حَمِدتُ مَن عَظُمَت مِنَّتُهُ، وَ سَبَغَت نِعمَتُهُ، وَ سَبَقَت رَحمَتُهُ، وَ تَمَّت کَلِمَتُهُ، وَ نَفَذَت مَشیَّتُهُ، وَ بَلَغَت حُجَّتُهُ، و عَدَلَت قَضیَّتُهُ، وَ حَمِدتُ حَمَدَ مُقِرٍّ بِرُبوبیَّتِهِ، مُتَخَضِّعٍ لِعُبودیَّتِهِ، مُتَنَصِّلٍ مِن خَطیئتِهِ، مُعتَرِفٍ بِتَوحیَدِهِ، مُستَعیذٍ مِن وَعیدِهِ، مُؤَمِّلٍ مِن رَبِّهِ مَغفِرَةً تُنجیهِ، یَومَ یُشغَلُ عَن فَصیلَتِهِ وَ بَنیهِ، وَ نَستَعینُهُ، وَ نَستَرشِدُهُ، وَ نُؤمِنُ بِهِ، وَ نَتَوَکَّلُ عَلَیهِ، وَ شَهِدتُ لَهُ بِضَمیرٍ مُخلِصٍ موقِنٍ، وَ فَرَّدَتُهُ تَفریدَ مُؤمِنٍ مُتقِنٍ، وَ وَحَّدَتُهُ تَوحیدَ عَبدٍ مُذعِنٍ لَیسَ لَهُ شَریکٌ فی مُلکِهِ، وَ لَم یَکُن لَهُ وَلیٌّ فی صُنعِهِ، جَلَّ عَن مُشیرٍ وَ وَزیرٍ، وَ تَنَزَّهَ عَن مِثلٍ وَ نَظیرٍ، عَلِمَ فَسَتَرَ، وَ بَطَنَ فَخَبَرَ، وَ مَلَکَ، فَقَهَرَ، وَعُصیَ فَغَفَرَ، وَ عُبِدَ فَشَکَرَ، وَ حَکَمَ فَعَدَلَ، وَ تَکَرَّمَ وَ تَفَضَّلَ، لَم یَزَل وَ لَم یَزولَ، وَ لیسَ کَمِثلِهِ شَیءٌ، وَهُوَ قَبلَ کُلِّ شَیءٍ وَ بَعدَ کُلِّ شَیءٍ، رَبٌّ مُتَفَرِّدٌ بِعِزَّتِهِ، مَتَمَلِّکٌ بِقُوَّتِهِ، مُتَقَدِّسٌ بِعُلُوِّهِ، مُتَکَبِّرٌ بِسُمُوِّهِ لَیسَ یُدرِکُهُ بَصَرٌ، وَ لَم یُحِط بِهِ نَظَرٌ، قَویٌ، مَنیعٌ، بَصیرٌ، سَمیعٌ، علیٌّ، حَکیمٌ، رَئوفٌ، رَحیمٌ، عَزیزٌ، عَلیمٌ، عَجَزَ فی وَصفِهِ مَن یَصِفُهُ، وَ ضَلَّ فی نَعتِهِ مَن یَعرِفُهُ، قَرُبَ فَبَعُدَ، وَ بَعُدَ فَقَرُبَ، یُجیبُ دَعوَةَ مَن یَدعوهُ، وَ یَرزُقُ عَبدَهُ وَ یَحبوهُ، ذو لُطفٍ خَفیٍّ، وَ بَطشٍ قَویٍّ، وَ رَحمَةٍ موسِعَةٍ، وَ عُقوبَةٍ موجِعَةٍ، رَحمَتُهُ جَنَّةٌ عَریضَةٌ مونِقَةٌ، وَ عُقوبَتُهُ حَجیمٌ مؤصَدَةٌ موبِقَةٌ، وَ شَهِدتُ بِبَعثِ مُحَمَّدٍ عَبدِهِ وَ رَسولِهِ صَفیِّهِ وَ حَبیبِهِ وَ خَلیلِهِ، بَعَثَهُ فی خَیرِ عَصرٍ، وَ حینَ فَترَةٍ، وَ کُفرٍ، رَحمَةً لِعَبیدِهِ، وَ مِنَّةً لِمَزیدِهِ، خَتَمَ بِهِ نُبُوَّتَهُ، وَ قَوّی بِهِ حُجَّتَهُ، فَوَعَظَ، وَ نَصَحَ، وَ بَلَّغَ، وَ کَدَحَ، رَؤفٌ بِکُلِّ مُؤمِنٍ، رَحیمٌ، ولیٌّ، سَخیٌّ، ذَکیٌّ، رَضیٌّ، عَلَیهِ رَحمَةٌ، وَ تَسلیمٌ، وَ بَرَکَةٌ، وَ تَعظیمٌ، وَ تَکریمٌ مِن رَبٍّ غَفورٍ رَحیمٍ، قَریبٍ مُجیبٍ، وَصیَّتُکُم مَعشَرَ مَن حَضَرَنی، بِتَقوی رَبِّکُم، وَ ذَکَّرتُکُم بِسُنَّةِ نَبیِّکُم، فَعَلَیکُم بِرَهبَةٍ تُسَکِّنُ قُلوبَکُم، وَ خَشیَةٍ تَذری دُموعَکُم، وَ تَقیَّةٍ تُنجیکُم یَومَ یُذهِلُکُم، وَ تُبلیکُم یَومَ یَفوزُ فیهِ مَن ثَقُلَ وَزنَ حَسَنَتِهِ، وَ خَفَّ وَزنَ سَیِّئَتِهِ، وَ لتَکُن مَسئَلَتُکُم مَسئَلَةَ ذُلٍّ، وَ خُضوعٍ، وَ شُکرٍ، وَ خُشوعٍ، وَ تَوبَةٍ، وَ نَزوعٍ، وَ نَدَمٍ وَ رُجوعٍ، وَ لیَغتَنِم کُلُّ مُغتَنَمٍ مِنکُم، صِحَّتَهُ قَبلَ سُقمِهِ، وَ شَیبَتَهُ قَبلَ هِرَمِهِ، وَ سِعَتَهُ قَبلَ عَدَمِهِ، وَ خَلوَتَهُ قَبلَ شُغلِهِ، وَ حَضَرَهُ قَبلَ سَفَرِهِ، قَبلَ هُوَ یَکبُرُ، وَ یَهرَمُ، وَیَمرَضُ، وَ یَسقَمُ، وَ یُمِلُّهُ طَبیبُهُ، وَ یُعرِضُ عَنهُ جَیِبُهُ، وَ یَتَغَیَّرَ عَقلُهُ، وَ لیَقطِعُ عُمرُهُ، ثُمَّ قیلَ هُوَ مَوَعوکَ، وَ جِسمُهُ مَنهوکٌ، قَد جَدَّ فی نَزعٍ شَدیدٍ، وَ حَضَرَهُ کُلُّ قریبٍ وَ بَعیدٍ، فَشَخَصَ بِبَصَرِهِ، وَ طَمَحَ بِنَظَرِهِ، وَ رَشَحَ جَبینُهُ، وَ سَکَنَ حَنینُهُ، وَ جُذِبَت نَفسُهُ، وَ نُکِبَت عِرسُهُ، وَ حُفِرَ رَمسُهُ، وَ یُتِمَّ مِنهُ وُلدُهُ، وَ تَفَرَقَ عَنهُ عَدَدُهُ، وَ قُسِّمَ جَمعُهُ، وَ ذَهَبَ بَصَرُهُ وَ سَمعُهُ، وَ کُفِّنَ، وَ مُدِّدَ، وَ وُجِّهَ، وَ جُرِّدَ، وَ غُسِّلَ، وَ عُرِیَ، وَ نُشِفَ، وَ سُجِیَ، وَ بُسِطَ لَهُ، وَ نُشِرَ عَلَیهِ کَفَنُهُ، وَ شُدَّ مِنهُ ذَقَنُهُ، وَ قُمِّصَ، وَ عُمِّمَ، وَ لُفَّ، وَ وُدِعَّ، وَ سُلِّمَ، وَ حُمَلِ فَوقَ سَریرٍ، وَ صُلِّیَ عَلَیهِ بِتَکبیرٍ، وَ نُقِلَ مِن دورٍ مُزَخرَفَةٍ، وَ قُصورٍ مُشَیَّدَةٍ، وَ حَجُرٍ مُنَضَّدَةٍ، فَجُعِلَ فی ضَریحٍ مَلحودَةٍ، ضَیِّقٍ مَرصوصٍ بِلبنٍ، مَنضودٍ، مُسَقَّفٍ بِجُلمودٍ، وَ هیلَ عَلیهِ حَفَرُهُ، وَ حُثِیَ عَلیهِ مَدَرُهُ، فَتَحَقَّقَ حَذَرُهُ، وَ نُسِیَ خَبَرُهُ وَ رَجَعَ عَنهُ وَلیُّهُ، وَ نَدیمُهُ، وَ نَسیبُهُ، وَ حَمیمُهُ، وَ تَبَدَّلَ بِهِ قرینُهُ، وَ حَبیبُهُ، وَ صَفیُّهُ، وَ نَدیمُهُ فَهُوَ حَشوُ قَبرٍ، وَ رَهینُ قَفرٍ، یَسعی فی جِسمِهِ دودُ قَبرِهِ وَ یَسیلُ صَدیدُهُ مِن مِنخَرِهِ، یُسحَقُ ثَوبُهُ وَ لَحمُهُ، وَ یُنشَفُ دَمُهُ، وَ یُدَقُّ عَظمُهُ، حَتّی یَومَ حَشرِهِ، فَیُنشَرُ مِن قَبرِهِ، وَ یُنفَخُ فِی الصّورِ، وَ یُدعی لِحَشرٍ وَ نُشورٍ، فَثَمَّ بُعثِرَت قُبورٌ، وَ حُصِّلَت صُدورٌ، وَ جیء بِکُلِّ نَبیٍّ، وَ صِدّیقٍ، وَ شَهیدٍ، وَ مِنطیقٍ، وَ تَوَلّی لِفَصلِ حُکمِهِ رَبٌّ قدیرٌ، بِعَبیدِهِ خَبیرٌ وَ بَصیرٌ، فَکَم مِن زَفرَةٍ تُضنیهِ، وَ حَسرَةٍ تُنضیهِ، فی مَوقِفٍ مَهولٍ عَظیمٍ، وَ مَشهَدٍ جَلیلٍ جَسیمٍ، بَینَ یَدَی مَلِکٍ کَریمٍ، بِکُلِّ صَغیر َةٍ وَ کَبیرَةٍ عَلیمٍٍ، حینَئِذٍ یُلجِمُهُ عَرَقُهُ، وَ یَحفِزُهُ قَلَقُهُ، عَبرَتُهُ غَیرُ مَرحومَةٍ، وَ صَرخَتُهُ غَیرُ مَسموعَةٍ، وَ حُجَّتُهُ غَیرُ مَقبولَةٍ، وَ تَؤلُ صَحیفَتُهُ، وَ تُبَیَّنُ جَریرَتُهُ، وَ نَطَقَ کُلُّ عُضوٍ مِنهُ بِسوءِ عَمَلِهِ وَ شَهِدَ عَینُهُ بِنَظَرِهِ وَ یَدُهُ بِبَطشِهِ وَ رِجلُهُ بِخَطوِهِ وَ جِلدُهُ بِمَسِّهِ وَ فَرجُهُ بِلَمسِهِ وَ یُهَدِّدَهُ مُنکَرٌ وَ نَکیرٌ وَ کَشَفَ عَنهُ بَصیرٌ فَسُلسِلَ جیدُهُ وَ غُلَّت یَدُهُ وَ سیقَ یُسحَبُ وَحدَهُ فَوَرَدَ جَهَنَّمَ بِکَربٍ شَدیدٍ وَ ظَلَّ یُعَذَّبُ فی جَحیمٍ وَ یُسقی شَربَةٌ مِن حَمیمٍ تَشوی وَجهَهُ وَ تَسلخُ جَلدَهُ یَضرِبُهُ زَبینَتُهُ بِمَقمَعٍ مِن حدیدٍ یَعودُ جِلدُهُ بَعدَ نَضجِهِ بِجلدٍ جدیدٍ یَستَغیثُ فَیُعرِضُ عَنهُ خَزَنَةُ جَهَنَّمُ وَ یَستَصرخُ فَیَلبَثُ حُقبَهُ بِنَدَمٍ نَعوذُ بِرَبٍّ قَدیرٍ مِن شَرِّ کُلِّ مَصیرٍ وَ نَسئَلُهُ عَفوَ مَن رَضیَ عَنهُ وَ مَغفِرَةَ مَن قَبِلَ مِنهُ فَهُوَ وَلیُّ مَسئَلَتی وَ مُنحُجِ طَلِبَتی فَمَن زُحزِحَ عَن تَعذیبِ رَبِّهِ سَکَنَ فی جَنَّتِهِ بِقُربِهِ وَ خُلِّدَ فی قُصورِ مُشَیَّدةٍ وَ مُکِّنَ مِن حورٍ عینٍ وَ حَفَدَةٍ وَ طیفَ عَلَیهِ بِکُئوسٍ وَ سَکَنَ حَظیرَةَ فِردَوسٍ، وَ تَقَلَّبَ فی نَعیمٍ، وَ سُقِیَ مِن تَسنیمٍ وَ شَرِبَ مِن عَینٍ سَلسَبیلٍ، مَمزوجَةٍ بِزَنجَبیلٍ مَختومَةً بِمِسکٍ عَبیرٍ مُستَدیمٍ لِلحُبورٍ مُستَشعِرٍ لِلسّرورِ یَشرَبُ مِن خُمورٍ فی رَوضٍ مُشرِقٍ مُغدِقٍ لَیسَ یَصدَعُ مَن شَرِبَهُ وَ لَیسَ یَنزیفُ هذِهِ مَنزِلَةُ مَن خَشِیَ رَبَّهُ وَ حَذَّر نَفسَهُ وَ تِلکَ عُقوبَةُ مَن عَصی مُنشِئَهُ وَ سَوَّلَت لَهُ نَفسُهُ مَعصیَةَ مُبدیهِ ذلِکَ قَولٌ فَصلٌ وَ حُکمٌ عَدلٌ خَیرُ قَصَصٍ قَصَّ وَ وَعظٍ بِهِ نَصَّ تَنزیلٌ مِن حَکیمٍ حَمیدٍ نَزَلَ بِهِ روحُ قُدُسٍ مُبینٍ عَلی نَبیٍّ مُهتَدٍ مَکینٍ صَلَّت عَلَیهِ رُسُلٌ سَفَرَةٌ مُکَرَّمونَ بَرَرَةٌ عُذتُ بِرَبٍ رَحیمٍ مِن شَرِّ کُلِّ رَجیمٍ فَلیَتَضَرَّع مُتَضَرِّعُکُم وَ لیَبتَهِل مُبتَهِلُکُم فَنَستَغفِرُ رَبَّ کُلِّ مَربوبِ لی وَ لَکُم۔●¤

اردو ترجمہ:
میں حمد کرتا ھوں۔ اُس کی حمد جس کا احسان عظیم ھے، اس کی نعمت وسیع و کامل ھے اور اس کے غضب پر سبقت رکھتی ھے اس کی حجت پہنچ چکی ھے اور اس کا فیصلہ عدل پر مبنی ھے۔
اس کی حمد اس طرح کرتا ھوں جس طرح اس کی ربوبیت کا اقرار کرنے والا، اس کی عبودیت میں فروتنی کرنے والا، خطاؤں سے پرھیز کرنے والا، اس کی توحید کا اعتراف کرنے والا اور اس کے قہر سے پناہ مانگنے والا کرتا ھے۔
اپنے رب سے مغفرت اور نجات کا امیدوار ھوں، اس روز جب کہ ھر شخص اپنی اولاد اور عزیزوں سے بںے پروا ھو گا ھم اسی سے مدد و ہدایت چاہتے ہیں۔ میں اس بندہ خالص کی طرح گواھی دیتا ھوں جو اس کے وجود پر یقین رکھتا ھو، اس کے حاکمیت میں کوئی بھی اس کا شریک اور اس کی کائنات میں کوئی اس کا ولی یا حصہ دار نہیں، اس کی شان اس سے ارفع و اعلیٰ ھے کہ اس کا کوئی مشیر، وزیر، مددگار، معین یا نظیر ھو۔
وہ سب کا حال جانتا ھے اور عیب پوشی کرتا ھے۔ وہ باطن کی حالت سے واقف ھے۔ اس کی بادشاھت سب پر غالب ھے۔ اگر گناہ کیا جائے تو وہ معاف کر دیتا ھے اور عدل کے ساتھ حکم دیتا ھے۔ وہ فضل و کرم کرتا ھے۔ نہ اس کو کبھی زوال آیا ھے نہ آئے گا اور کوئی اس کی مثل نہیں۔ وہ ھر چیز سے پہلے بھی پرودگار ھے۔ وہ اپنی ھی عزت و بزرگی سے ھی ہر چیز پر غالب ھے۔ اور اپنی قوت سے ھی ہر شے پر قادر ھے۔ اپنے عالی مرتبہ سے ھی مقدس ھے۔ اپنی رفعت کی وجہ اس میں کبریائی ھے۔ نہ کوئی آنکھ اس کو دیکھ سکتی ھے نہ کوئی نظر اس کا احاطہ کر سکتی ھے۔ وہ قوی، برتر، بصیر، ھر بات کا سُننے والا اور مہربان و رحیم ھے۔ جس نے بھی اس کا وصف کرنا چاہا وہ عاجز رھا (وصف نہ کر پایا)۔ جس نے (اپنے فہم میں) اس کو پہچانا، اس نے خطا کی۔ وہ باوجود نزدیک ھونے کے بعید ھے۔ اور دور ہونے کے باوجود قریب ھے۔ جو اس سے دعا مانگتا ھے وہ قبول کر لپتا ھے۔ اور روزی دیتا ھے اور محبت کرتا ھے، وہ صاحب لطف خفی ھے۔ اس کی گرفت قوی ھے۔ اور عنایت بہت بڑی ھے اس کی رحمت وسیع ھے۔ اس کا عذاب دردناک ھے۔ اس کی رحمت جنت ھے جو وسیع اور حیرت انگیز ھے۔ اس کا عذاب دوزخ ھے جو مہلک اور پھیلی ھوئی ھے۔
میں گواھی دیتا ھوں کہ محمد صلی اللّٰہ علیہ و آلہ وسلم اس کے رسول، بندے، صفی،(چنے ہوئے) نبی، محبوب، دوست اور برگزیدہ ہیں۔ ان کو ایسے وقت مبعوث بہ رسالت کیا جب زمانہ نبی سے خالی تھا اور کفر کا دور دورہ تھا۔ آپ صلی اللّٰہ علیہ و آلہ وسلم اس کے بندوں پر رحمت ہیں۔ مزید برآں اپنی نبوت کو ان پر ختم اور اپنی حجت کو مضبوط کر دیا۔ پس انہوں نے وعظ فرمایا۔ اور نصیحت کی۔ اور حکم خدا بندوں تک پہنچایا۔ اور ہر طرح کی کوشش کی۔ وہ ہر مومن پر مہربان ہیں۔ وہ رحیم، سخی اور اللہ کے پسندیدہ اور پاکیزہ ولی ہیں۔ ان پر خدا کی جانب سے رحمت و سلام، برکت وعظمت اور اکرام ھو۔ جو بخشنے والا، قریب اور دعا قبول کرنے والا ھے۔
اے حاضرین مجلس میں تمہیں تمہارے پروردگار کا حکم سناتا ھوں جو مجھے پہونچا ہے اور وصیت کرتا ہوں اورتمہیں تمہارے پیغمبر صلی اللّٰہ علیہ و آلہ وسلم کی سنت یاد دلاتا گوں- تمہیں چاھئیے کہ خدا سے ایسا ڈرو کہ آنکھوں سے آنسو جاری ھو جائیں اور ایسی پرہیزگاری اختیار کرو کہ جو تم کو نجات دلائے۔ قبل اس کے آزمائش کا دن آ جائے اور تم پریشانی میں گم ھو جاؤ۔ اس روز وھی شخص رستگار ہو گا جس کے ثواب کا پلڑا بھاری اور گناہوں کا پلڑا ھلکا ھو گا۔ تم کو چاہئیے کہ جب بھی اس سے دعا کرو تو بہت ھی عاجزی اور گڑگڑا کے، توبہ اور خوشامد اور ذلت کے ساتھ دعا کرو اور دل سے گناہ کرنے کا خیال دور کر کے، ندامت کے ساتھ خدا کی طرف رجوع کرو۔
تم کو چاہئیے کہ بیماری سے قبل صحت کو اور بڑھاپے سے پہلے جوانی کو، فقر سے پہلے فراغ بالی کو اور سفر سے پہلے حضر کو اور کام میں مشغول ہونے سے پہلے فراغت کو، غنیمت جانو ایسا نہ ھو کہ پیری آ جائے اور تم سب کی نظروں میں ذلیل و خوار ھو جاؤ یا مرض حاوی ھو جائے اور طبیب رنج میں مبتلا کر دے اور احباب منہ پھیر لیں عمر کٹ چکی ھو اور عقل میں فتور آ جآئے۔
تب کہا جاتا ھے کہ بخار کی شدت سے حالت خراب ھو گئی ھے اور جسم لاغر ھو چکا ھے اور پھر جان کنی کی سختی ھوتی ھے اور قریب و بعید سے ہر کوئی اس کے ہاں آتا ھے اور اس کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جاتی ہیں، پتلیاں پھر جاتی ہیں، پیشانی پر پسینہ آتا ھے۔ ناک ٹیڑھی ھو جاتی ھے اور روح قبض ھو جاتی ھے، اس کی بیوی رونے پیٹنے لگتی ھے۔ قبر کھود لی جاتی ھے اور اس کے بچے یتیم ھو چکے ھوتے ہیں_ اس کے علاوہ اس کی نفری (یعنی ساتھی) متفرق ھو جاتی ھے۔ اعضاء شکستہ ھو جاتے ہیں اور بینائی و سماعت چلی جاتی ھے۔ پھر اس کو سیدھا لٹا دیتے ہیں اور لباس اتار کر غسل دیا جاتا ھے اور کپڑے سے جسم پونچھتے ہیں اور خشک کر کے اس پر چادر ڈال دی جاتی ھے اور ایک بچھا دی جاتی ھے اور کفن کیا جاتا ھے اور (سر پر) عمامہ باندھ کر چھوڑ دیتے ہیں اور پھر جنازہ اٹھایا جاتا ھے اور بغیر سجدہ و تعفیر کے صرف تکبیر کے ساتھ اس پر نماز پڑھی جاتی ھے۔ آراستہ طلائی تختوں اور مضبوط محلوں کے نفیس فرش والے کمروں سے لا کر اس کو تنگ لحد میں ڈال دیتے ہیں اورتہہ بہ تہ اینٹوں سے قبر بنا کر پتھر سے پاٹ کر اس پر مٹی ڈال دی جاتی ھے اور ڈھیلوں سے پر کر دی جاتی ھے۔ میت پر وحشت چھا جاتی ھے مگر کسی کو معلوم نہیں ھوتا۔ دوست و عزیز اس کو چھوڑ کر پلٹ جاتے ہیں اور سب بدل جاتے ہیں اور مردہ کی قبر پر کیڑے دوڑتے پھرتے ہیں اس کی ناک سے پیپ بہنے لگتی ھے اور اس کا گوشت خاک ھونے لگتا ھے اس کا خون دونوں پہلوؤں میں خشک ھو جاتا ھے اور ہڈیاں بوسیدہ ھو کر خاک ھونے لگتی ہیں۔ وہ روز قیامت تک اسی طرح رہتا ھے یہاں تک کہ خدا پھر اس کو زندہ کر کے قبر سے اٹھاتا ھے۔ جب صور پھونکا جائے گا تو وہ قبر سے اٹھے گا اور میدان حشر و نشر میں بُلایا جائے گا اور اس وقت اہل قبور زندہ ھوں گے اور قبر سے نکالے جائیں گے اور ان کے سینہ کے راز ظاہر کیئے جائیں گے اور ہر نبی، صدیق و شہید حاضر کیا جائے گا اور فیصلہ کے لیئے رب قدیر جو اپنے بندوں کے حالات سے آگاہ ھے، جدا جدا کھڑا کرے گا۔ پھر بہت سی آوازیں اس کو پریشانی میں ڈال دیں گی اور خوف و حسرت سے وہ ناچار ہو جائے گا اور اس بادشاہ عظیم کی بارگاہ میں جو ہر چھوٹے اور بڑے گناہ کو جانتا ھے ڈرتا ھوا جاضر ھو گا اس وقت گناھوں کی شرم سے اس قدر پسینہ بہے گا کہ منہ تک آ جائے گا اور اس کو اس سے قلق ھو گا۔ وہ بہت نالہ و زاری کرے گا مگر کوئی شنوائی نہ ھو گی اور اس کے سارے گناہ ظاہر کر دیئے جائیں گے اور اس کا نامہء اعمال پیش کیا جائے گا۔ پس وہ اپنے اعمال بد کو دیکھے گا اور اس کی آنکھیں اس کی بد نظری کی اور ہاتھ، بیجا مارنے کی اور پاؤں، (برے کام کی جانب) جانے کی اور شرم گاہ، بدکاری کی اور جلد، مس کرنے کی گواھی دیں گے۔ پس اس کی گردن میں زنجیر ڈال دی جائے گی اور مشکیں کس دی جائیں گی۔ پھر کھینچ کر جہنم میں ڈال دیا جائے گا اور وہ روتا پیٹتا داخل جہنم ہو گا۔ جہاں اس پر سخت عذاب کیا جائے گا۔ جہنم کا کھولتا ھوا پانی اس کو پینے کو ملے گا۔ جس سے اس کا منہ جل جائے گا۔ اس کھال نکل جائے گی۔ فرشتے آہنی گرزوں سے اس کو ماریں گے اور کھال اڑ جانے کے بعد نئی کھال پھر پیدا ھو گی وہ بہت کچھ آہ و فریاد کرے گا مگر جہنم کے فرشتے اس کی طرف سے منہ پھیر لیں گے۔ اس طرح ایک مدت دراز تک وہ عذاب میں مبتلا اور نادم رھے گا اور استغاثہ کرتا رھے گا۔ میں پروردگار قدیر سے پناہ مانگتا ھوں کہ وہ مجھے ہر مضر شے کے شر سے محفوظ رکھے اور میں اس سے ایسی معافی کا خواستگار ھوں جیسے اس نے کسی شخص سے راضی ہو کر اس کو عطا کی ھو اور ایسی مغفرت چاہتا ھوں جو اس نے قبول فرمائی ھو۔ پس وھی میری خواہش پوری کرنے والا اور امیدوں کا برلانے والا ھے جو شخص مستحق عذاب نہیں ھے وہ بہشت کے مضبوط محلوں میں ھمیشہ رھے گا اور حورعین اور غلمان (خادم) اس کی ملکیت ھوں گے جام ہائے کوثر سے سیراب ھو گا اور حدود قدس میں مقیم ھو گا۔ نعمت ہائے بہشت میں متصرف رھے گا اور نہر تسنیم کا پانی پئے گا اور چشمہ سلسبیل سے جس میں سونٹھ ملی ھوئی اور مشک و عنبر کی مہر لگی ھوئی ھے سیراب ھو گا اور وہاں کا دائمی مالک ھو گا وہ معطر شراب پئے گا مگر نہ اس سے خمار ھو گا اور نہ حواس میں فتور آئے گا۔ یہ مقام و منزلت اس شخص کی ھے جو خدا سے ڈرتا اور گناہوں سے بچتا ھے اور وہ والا عذاب اس شخص کے لیئے ھے جو اپنے خالق کی نافرمانی کرتا اور خواہشات نفسانی سے گناھوں کا مرتکب ھوتا ھے۔ پس یہی فیصلہ کن بات اور منصفانہ حکم ھے اور بہترین قصہ و نصیحت ھے۔ جس کی صراحت خداوند حکیم و حمید نے اس کتاب میں فرمائی ھے جو روح القدس نے ہدایت یافتہ راست باز پیغمبر صلی اللّٰہ وعلیہ و آلہ وسلم کے قلب مبارک پر نازل فرمائی۔ میں پروردگار علیم و رحیم و کریم سے پناہ مانگتا ھوں کہ وہ مجھ کو ھر لعین و رجیم دشمن کے شر سے بچائے۔ پس اس کی بارگاہ میں عاجزی کرنے والوں کو چاھئیے کہ عاجزی کریں اور دعا کرنے والے دعا کریں اور تم میں سے ھر شخص میرے اور اپنے لیئے استغفار کرے۔ میرا پروردگار اکیلا ھی میرے لیئے کافی ھے_
( شرح نہج البلاغہ جلد 4)

Related posts

بلڈوزر کی سیاست یا۔۔۔۔؟ سراج نقوی

qaumikhabrein

امام رضا کے روضے پر ہندستان کے لئے خصوصی اجتماعی دعا۔

qaumikhabrein

کووی شیلڈ کی دوسری ڈوز 45 ہفتوں بعد لینے میں ہے زیادہ فائدا۔

qaumikhabrein

Leave a Comment