رام مندر تحریک کے زمانے میں جو خود ساختہ صلح پسند یا سیکولر افراد یہ مشورہ دیتے تھے کہ مسلمانوں کو بابری مسجد پر اپنے حق سے دستربردار ہو جانا چاہیے،کیونکہ ایسا کرنے سے ملک میں امن اور یکجہتی کا ماحول قائم کرنے میں مدد ملیگی۔انھیں متھر ا سے متعلق تازہ شرانگیزیوں کو دیکھ کر یہ سمجھ لینا چاہیے کہ مسئلہ کسی ایک یا ایک ہزار مساجد سے مسلمانوں کی دستربرداری کا نہیں بلکہ شرپسند اور فرقہ پرست طاقتوں کے سامنے خود سپردگی کا ہے تاکہ یہ طاقتیں ملک کو اپنے منصوبے کے مطابق ہندو راشٹر بنا سکیں۔ اتر پردیش اسمبلی الیکشن سے پہلے متھرا کے معاملے کو گرم کرنا بی جے پی اور سنگھ پریوار کی اسی سازش کا حصّہ ہے۔
واضح رہے کہ ہندو مہا سبھا اور دیگر ہندو تنظیموں نے 6 دسمبر کو متھرا کی عید گاہ میں ’جل ابھیشیک‘ کا پروگرام بنایا تھا۔لیکن اب ہندو مہا سبھا کا کہنا ہے کہ کیونکہ اسے انتظامیہ کی طرف سے اس کی اجازت نہیں ملی ہے اس لیے پروگرام منسوخ کیا جا رہا ہے۔لیکن یوگی راج میں جل ابھیشیک کی اجازت نہ ملنے کی بات کو سیاسی مصلحت تو مانا جاسکتا ہے حکومت کی نیک نیتی نہیں۔سیاسی مصلحت یہ ہے کہ اسمبلی انتخابات سے قبل اس مسئلے کو اٹھا کر فرقہ وارانہ بنیادوں پر ووٹوں کی صف بندی کی راہ ہموار کر لی جائے،اور جہاں تک عیدگاہ کی جگہ پر مندر تعمیر کرنے کا معاملہ ہے اسے بھی طویل عرصے تک اسی طرح حصول اقتدار کی خاطر زندہ رکھا جائے جس طرح رام مندر کے معاملے کو رکھا گیا۔حالانکہ بی جے پی اعلیٰ قیادت یہ دعویٰ کرتی ہے کہ اسے اقتدار نہیں بلکہ عوام کی خدمت کی خواہش ہے،لیکن یہ خدمت کا کون سا طریقہ ہے جو بی جے پی کو کسی نہ کسی اشتعال انگیز اور فرقہ وارانہ ایشو کی طرف لے جاتا ہے اس کا جواب پارٹی لیڈر ہی دے سکتے ہیں۔اگر پارٹی یا خود مودی کو اقتدار کی خواہش نہیں تو کیوں ہر اہم الیکشن سے پہلے پارٹی کارکنان پر مذہبی جنون حاوی ہو جاتا ہے،اورحصول اقتدار کی خاطر عوام کو فرقہ وارانہ بنیادوں پر تقسیم کرنے کی کوششیں شروع ہو جاتی ہیں؟
بہرحال ایک طرف ہندو مہا سبھاکو متھرا کی عید گاہ میں ’جل ابھیشیک‘کے پروگرام سے روک دیا گیا ہے لیکن دوسری طرف اتر پردیش کے نائب وزیر اعلیٰ کیشو پرساد موریہ نے ایک ٹویٹ کرتے ہوئے کہا ہے کہ،”اجودھیا،کاشی میں مندر کی تعمیر جاری ہے۔اب متھرا کی تیّاری ہے۔“ کسی ریاست کے نائب وزیر اعلیٰ جیسے ذمہ دار عہدے پر بیٹھے ہوئے شخص کے اس طرح کے بیانات کیا ملک کے قانون اور آئین کی دھجّیاں اڑانے کے مترادف نہیں ہیں؟کسی ایسی ریاست میں کہ جہاں ہندو،مسلمان اور دیگر تمام مذاہب کے ماننے والے رہتے ہوں وہاں حکمرانوں کی کیاذمہ داری ہوتی ہے یہ بتانے کی ضرورت نہیں،لیکن یہ سوال بہرحال اہم ہے کہ کیا پورے پانچ سال اقتدار میں رہنے کے بعد بھی بی جے پی اور اس کے لیڈروں کے پاس عوام کو اپنے حق میں کرنے کے لیے کوئی ترقیاتی کام نہیں ہے؟ ظاہر ہے اگر ریاستی حکومت نے ہندوتو کے نام پر عوام کو گمراہ کرنے کے علاوہ کوئی ترقیاتی کام بھی کیا ہوتا۔عوامی فلاح و بہبود کے لیے قدم اٹھائے ہوتے تو مندر مسجد کے موضوعات اٹھانے کی ضرورت ہی نہیں تھی،لیکن جس پارٹی اور اس کی سرپرست تنظیم نے ایک صدی سے زیادہ تک ہندوتو کے سہارے ملک کے اقتدار پر قابض ہونے کے خواب دیکھے ہوں اس کے لیے عوامی فلاح و بہبود کا کوئی بھی موضوع بے معنی ہے۔فرقہ پرستی کے جنون میں عوام کو مبتلا کرنے والوں سے یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ وہ فرقہ پرستی کے ملک دشمن نشے سے نجات حاصل کرینگے۔اس لیے کہ یہ نشہ تو ان کے لیے حصول اقتدار کا زینہ ہے۔
بہرحال کیشو پرساد موریہ کے سیاسی مفادات کے تحت کیے گئے ٹویٹ کا اپوزیشن کی کئی پارٹیوں نے سخت نوٹس لیا ہے اور اسے بی جے پی قیادت کے ذریعہ ممکنہ انتخابی شکست کے خوف یا گھبراہٹ میں دیا گیا بیان قرار دیا ہے۔ان پارٹیوں کا کہنا ہے کہ بی جے پی کی مرکزی اور ریاستی حکومتوں کے پاس اپنی حصولیابیوں کے نام پر بتانے کے لیے کچھ نہیں ہے،اس لیے وہ پھر فرقہ وارانہ موضوعات کے سہارے الیکشن جیتنا چاہتی ہے۔کانگریس ترجمان نے تو دعویٰ کیا کہ الیکشن قریب آنے تک بی جے پی لیڈر مزید زہریلے اور اشتعال انگیز ٹویٹ کرکے ماحول بگاڑنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔
کیشو پرساد موریہ کے اس بیان پر سوشل میڈیا میں بھی بحث چھڑ گئی ہے۔صرف اپوزیشن پارٹیوں ہی نہیں دیگر افراد نے بھی کیشو پرساد موریہ کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔حالانکہ موریہ کے بیان کے بعد سوشل میڈیا اور دیگر پلیٹ فارموں پرمتھرا معاملے کو لیکر چھڑی بحث کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ یہ ایشو خبروں میں آنے کے بعد بی جے پی یو پی کو درپیش بنیادی مسائل سے عوام کی توجہ ہٹانے میں فی الحال کامیاب ہو گئی ہے،اور وہ چاہتی بھی یہی تھی۔۔ٹویٹر یوزرس نے موریہ کے بیان کو اڈوانی سے جوڑتے ہوئے کہا ہے کہ موریہ بھی اڈوانی کی راہ پر چل پڑے ہیں۔ٹویٹر پر متھرا کی عید گاہ سے متعلق یہ ہیش ٹیگ بھی ٹرینڈ کر رہا ہے کہ،”save Mathura Masjid“ مسلمانوں کا ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو یہ کہہ رہا ہے کہ،ہم اب حکومت اور انتظامیہ پر بھروسہ نہیں کر سکتے،اور مسلمانوں کو عید گاہ کے تحفظ کی ذمہ داری خود لینی چاہیے۔لیکن موریہ کو سوشل میڈیا پر جاری ان تمام باتوں سے کوئی مطلب نہیں۔وہ اس بحث کو شاید اپنے یا بی جے پی کے حق میں مانتے ہیں۔اسی لیے انھوں نے سماجوادی پارٹی کے سخت رد عمل کے جواب میں الٹے اکھیلیش یادو اور دیگر اپوزیشن لیڈروں سے ہی سوال کر لیا ہے کہ وہ بتائیں کہ کیا وہ بھگوان کرشن کی جنم بھومی پر شاندار مندر بننے کی حمایت کرتے ہیں مخالفت؟چالاکی دیکھیے کہ موریہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ان کے لیے کرشن جنم بھومی کا معاملہ انتخابی ایشو نہیں ہے۔لیکن سوال یہ ہے کہ پانچ سال سے اقتدار میں رہتے ہوئے موریہ نے اگر یہ معاملہ نہیں اٹھایا اور اب اتر پردیش اسمبلی الیکشن قریب دیکھ کر اسے چھیڑرہے ہیں تو اس کا مقصدسیاسی فائدہ اٹھانے کے علاوہ اور کیا ہو سکتا ہے؟ملک کے عوام اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ مودی بھی پارلیمانی الیکشن کے موقع پر اترپردیش میں اسٹیج پر رام مندر کے ماڈل کی تصویر لگا کر انتخابی مہم چلا چکے ہیں۔
حالانکہ موریہ جو کچھ کہہ رہے ہیں اس کے لیے کسی حد تک اپوزیشن پارٹیاں بھی ذمہ دار ہیں۔کیشو پرساد کا کہنا ہے کہ ماضی میں جو لوگ رام مندر کی مخالفت کرتے تھے اب وہی ایودھیا جاکر ماتھا ٹیک رہے ہیں،اور مستقبل میں متھرا ور کاشی میں بھی یہی ہوگا۔موریہ کا بیان سچ سے بہت دور نہیں ہے،اس لیے کہ بی جے پی کے ہندوتو کے جواب میں تقریباً تمام مبینہ سیکولر پارٹیوں نے بھی جس طرح نرم ہندوتو کی طرف اپنا جھکاؤ ظاہر کیا ہے وہ سب کے سامنے ہے۔اس صورتحال نے بی جے پی قیادت کے حوصلے بڑھائے ہیں۔بی جے پی کی بی ٹیم بننے کی اپوزیشن پارٹیوں کی پالیسی نے ہی بی جے پی قیادت میں یہ اعتماد پیدا کیا ہے کہ حالات خواہ کچھ بھی ہوں لیکن جیت ہندوتو کی اے ٹیم کو ہی ملیگی۔
لیکن بی جے پی کی اس پالیسی کو وہ لوگ بھی سمجھ چکے ہیں جومزاج کے اعتبارسے بھلے ہی سیکولر ہوں یا نہ ہوں،لیکن امن پسند ہیں اور کسی بھی ایسی پارٹی کو بر سر اقتدار لانے کے حق میں نہیں ہیں کہ جو مذہبی بنیادوں پر ملک کے امن کو تباہ کرکے اقتدار میں آئے اور عوام کے بنیادی مسائل کو حل کرنا تو کجا ان میں بے تحاشہ اضافہ کردے۔بی جے پی کی مرکزی اور ریاستی حکومتیں اسی راہ پر ہیں،نتیجہ یہ ہے کہ مسائل کا انبار سامنے ہے اور ان کے حل کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔شہریوں میں مذہب اور ذات پات کی بنیاد پر فرق کیا جا رہا ہے۔عوامی مسائل کے تعلق سے لاپرواہی نہیں بلکہ بے حسی کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے،اور اب اتر پردیش میں عوام کی ناراضگی کو دور کرنے کے لیے مذہب بلکہ فرقہ پرستی کے آزمودہ ہتھیار کا استعمال کرنے کی تیاری ہے،لیکن یہ آزمودہ ہتھیار اور متھرا کا معاملہ بی جے پی کو انتخابی جیت دلا پائیگا اس کا کوئی امکان منصفانہ الیکشن کی صورت میں تو بہرحال نظر نہیں آتا۔
sirajnaqvi08@gmail.com Mobile:09811602330