
مہاراشٹر میں سیاسی ہنگامہ آرائی کا دور دورہ ہے ، بظا ہر ایکناتھ شندے نے بی جے پی کے سہارے حکومت کی باگ ڈور سنبھال لی ہے لیکن اس حکومت کا مستقبل پر بھی غیر یقینی ہے ، ایک طرف سیاسی چالبازیاں اپنے عروج پر ہے تو دوسری طرف قانونی داؤ پیچ، ایسے میں مہاراشٹر کا سیاسی منظر نامہ کب بد ل جائے کچھ کہا نہیں جاسکتا ،لیکن اس سیاسی دھما چوکڑی میں سیاسی پارٹیاں اقتدار کی ہوس میں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے اور عوامی ہمدردی بٹورنے کے لیے کوئی کسر نہیں چھوڑرہی ہے۔ ادھو ٹھاکرے نے اپنے ڈھائی سالہ دور اقتدار میں کوئی متنازعہ قدم نہیں اٹھایا اور تمام طبقات کو خوشرکھنے کی کوشش کی ۔ ادھو ٹھاکرے کی اس میانہ روی کا اثر یہ دیکھا گیا کہ شیوسینا سے کوسوں دور رہنے والے مسلمان بھی ادھو ٹھاکرے کو پسند کرنے لگے تھے ، اقتدار کی تبدیل سے چند روز قبل اورنگ آباد میں ایک جلسے سے خطاب میں ادھو ٹھاکرے نے ببانگ دہل اس بات کا اعلان کیا تھا کہ ہاں ہم نے بابری مسجد کو منہدم کیا ہے ، میرے والد اس پر فخر کرتے تھے اور شیوسینک کی حیثیت سے ہم یہ بات فخر سے کہیں گے، اس کے باوجود مسلمانوں نے ادھو ٹھاکرے کی تقریر کا خیر مقدم کیا تھا ۔ وجہ صاف تھی کہ اس تقریر میں ادھو ٹھاکرے نے سب کو ساتھ لیکر چلنے کی بات کہی تھی اور اورنگ زیب کا نام لیا بھی تو کچھ اس انداز میں کہ اورنگ زیب نام کے فوجی نے ملک پر جان نچھاور کردی تھی ، اس کے علاوہ اپنے خطاب میں ادھو ٹھاکرے نے اورنگ آباد شہر کا نام اس وقت تک تبدیل کرنے سے باز رہنے کا اعلان کیا تھا جب تک کہ وہ اس شہر کی ہمہ جہت ترقی کو یقینی نہیں بناتے ، ادھو ٹھاکرے نے اپنی تقریر میں کہا تھا کہ جب تک اورنگ آباد کو شنگھائی اور سنگاپور کی طرح خوبصورت نہیں بنا دو نگا اس وقت تک اس تاریخی شہر کا نام تبدیل نہیں کیا جائیگا۔

ادھو ٹھاکرے کے اس بیان کا ایم آئی ایم رکن پارلیمان سید امتیاز جلیل نے بھی خیر مقدم کیا تھا لیکن ادھو ٹھاکرے کو جب اپنے ہی آستین کے سانپ پھن نکالنے لگے تو ادھو ٹھاکرے نے بھی آخری لمحات میں اپنا حقیقی چہرہ دکھا دیا اور آخری کابینی اجلاس میں اورنگ آباد، عثمان آباد اور نوی ممبئی کے نام بدلنے کی تجویز کو کابینی منظوری دیدی ۔ حیرت انگیز طور پر اجلاس میں موجود کانگریس اور این سی پی لیڈروں نے مون برت رکھ کر اس فیصلے کی حمایت کی ، جبکہ این سی پی سپریمو اور مہاراشٹر کی سیاست کے کھیون ہار کہلانے والے شرد پوار نے بارہ دن گزرنے کے بعد یہ انکشاف کیا کہ اورنگ آباد کی تبدیلی نام کے فیصلے کا علم انھیں کابینی اجلاس کے بعد ہوا ۔اس کے بعد سیکولر پارٹیوں کے نام نہاد لیڈروں کے چہروں سے نقاب اترنے کا سلسلہ جاری ہے جن میں سابق وزیر اعلی اشوک چوہان قابل ذکر ہیں ۔

اورنگ آباد اور عثمان آباد جیسے تاریخی شہروں کے نام بدلنا شیوسینا کے ایجنڈے کا حصہ رہا ہے ۔تقریباً چالیس سال پہلے یعنی سن انیس سو اٹھاسی میں شیوسینا سپریمو بال ٹھاکرے نے اورنگ آباد کے سانسکرتک منڈل گراؤنڈ میں اپنی اولین تقریر میں اورنگ آباد شہر کا نام بدلنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔ بال ٹھاکرے نے مغل شہنشاہ اور نگ زیب کو سمبھاجی کا قاتل قرار دیکر اورنگ آباد شہر کا نام سمبھاجی سے منسوب کرنے کا اعلان کیا تھا ۔اس وقت سے شیوسینا ہر چناؤ میں اس مدعے کو بھناتی رہی ۔ سن نووے کی دہائی میں اورنگ آباد میونسپل کارپوریشن نے اورنگ آباد کا نام تبدیل کرنے کا فیصلہ منظور کرکے ریاستی حکومت کی منظوری کے لیے روانہ کیا تھا ۔ اس وقت کے این سی پی کارپوریٹر مشتاق احمد نے اس معاملے کو بامبے ہائی کورٹ کی اورنگ آباد بینچ میں چلینج کیا تھا۔ یہ معاملہ سپریم کورٹ تک پہنچا ، سپریم کورٹ نے ریاستی حکومت کو لتاڑتے ہوئے تاریخی ریمارک دیا تھا کہ نام دینا ہی ہے تو نئے شہر آباد کروں اور انھیں نام دو، نام بدلنے سے تاریخ نہیں بدل جاتی ، بعد میں کانگریس این سی پی کے دور حکومت میں اس وقت کے وزیر اعلی ولا س راؤ دیشمکھ کی حکومت نے سپریم کورٹ میں تبدیل نام کے تعلق سے اپنا موقف رکھا تھا کہ مہاراشٹر حکومت تاریخی شہروں کے نام بدلنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی۔ اس طرح یہ معاملہ رفع دفع ہوگیا تھا۔

لیکن پچھلے چالیس برسوں سے شیوسینا اس معاملے پر سیاست کرتی رہی ۔ ہر چناؤ میں تبدیلی نام کا مدعا شیوسینا کا محبوب مشغلہ رہا ، سن دو ہزار چودہ میں بی جے پی سےشیو سینا کا ناطہ ٹوٹنے کے بعد کچھ عرصے کے لیے یہ معاملہ کھٹائی میں پڑھ گیا تھا ۔ کانگریس، این سی پی اور شیوسینا اتحاد کی مہا وکاس اگھاڑی حکومت بنی تو اس کے کامن منیمم پروگرام میں تبدیلی نام کا مدعا شامل نہیں تھا ، اگھاڑی حکومت نے متنازعہ اور فرقہ وارانہ معاملات کو سرد خانے میں ڈال دیا تھا لیکن ادھو ٹھاکرے نے جاتے جاتے اپنے والد کی دلی خواہش کو پورا کرنے کی جو کوشش کی اس کی وجہ سے اقلیتوں خصوصا مسلمانوں میں ان کے تعلق سے جو ہمدردی پیدا ہوئی تھی وہ ایک لمحے میں کافور ہوگئی۔
مہاراشٹر میں اس وقت محض دو لوگ حکومت کررہے ہیں وزیراعلی کے عہدے پر ایکناتھ شندے براجمان ہیں تو دیویندر فڑنویس نے نائب وزیراعلی کے عہدے پر اکتفا کیا ہے ، ابھی نئی کابینہ کی تشکیل نہیں ہوئی ہے ۔ وجہ صاف ہے باغی اراکین اسمبلی کا معاملہ سپریم کورٹ میں زیر غور ہے ، لیکن کریڈیٹ کی اس جنگ میں ایکناتھ شندے نے پہلی فرصت میں ادھو ٹھاکرے کی تبدیلی نام کی منظور شدہ تجویز کو ملتوی کردیا اور چھتر پتی کا اضافہ کرکے تبدیلی نام کی تجویز کو منظوری دیدی لیکن حقیقت یہ ہیکہ یہ سب عوام کو گمراہ کرنے کے سوا کچھ نہیں کیونکہ مرکزی حکومت نے سات شہروں کے نام تبدیل کیے جانے کو منظوری دی تھی ۔اس فہرست میں دونوں شہروں کا کوئی ذکر نہیں ہے جس سے صاف ہوتا ہیکہ محض عوام کو بے وقوف بنایا جارہا ہے ۔

تاہم شرپسند کسی نہ کسی طرح اس معاملے کو ہوا دینا نہیں بھولتے ۔ اسی لیے گوگل میپ پر اورنگ آباد اور عثمان آباد کا نام تبدیل کردیا گیا ، ایم آئی ایم نے گوگل سے اس تعلق سے وضاحت طلب کی ہے اور اسے غیر قانونی عمل سے تعبیر کیا ہے ، اورنگ آباد کے رکن پارلیمان سید امتیاز جلیل نے گوگل کو ٹیگ کرکے وضاحت طلب کی ہے ، ایم آئی ایم نے اس معاملے کو عدالت میں بھی چلینج کرنے کا اشارہ دیا ہے ۔
مضمون نگار۔۔۔شیخ اظہر الدین اورنگ آباد۔7758880968