طویل عرصے کے بعد اردو کے مسائل پر ایک نمائندہ کانفرنس منعقد کی گئی جس میں ملک کی مختلف ریاستوں اور اہم یونیورسٹیوں کے پروفیسرز اور دانشوروں نے شرکت کی اور اردو کی موجودہ صورت حال اور اس کی ترقی کے لئے مربوط لائحہ عمل کے تعلق سے اپنے خیالات کا اظہار کیا ۔عارف کیسل ہوٹل میں منعقد آل انڈیا اردو کانفرنس میں اپنے کلیدی خطبے میں پروفیسر صفدر امام قادری نے کہا کہ اردو کے مسائل میں سے ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اس کا کوئی عوامی ادارہ نہیں ہے، جہاں ہم سب مل بیٹھ کر اس کے مسائل کو حل کر سکیں۔
پروفیسر صفدر امام قادری نے کہا کہ یونیورسٹیز اور کالجوں کے شعبہ اردو میں رابطہ کی بہت کمی ہے۔ اردو کے فروغ میں یونیورسٹیوں کے اردو شعبوں کو کلیدی کردار ادا کرنا چاہئے۔انھوں نے زور دے کر کہا کہ اپنے حق کے لئے ہمیں اپنی آواز بھی بلند کرنی چاہئے۔ سرکاری اداروں، اردو اکیڈمیوں، قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے بجٹ میں اگرحکومت کمی کرے تو ہمیں ایک ساتھ آواز اٹھانی چاہئے۔ انہوں نے افسوس ظاۃر کرتے ہوئے کہا کہ یونیورسٹیوں اورکالجوں کے شعبہ اردو کی لیڈر شپ کمزور ہورہی ہے۔یونیورسٹیوں سے تخلیق کارکم اور نقاد و محقق زیادہ نکل رہے ہیں۔
پدم شری پروفیسر اختر الواسع نے صدارتی خطاب میں کہاکہ اردو کا منظر نامہ وہ نہیں ہے جو دبستان لکھنو اور دبستان دہلی کا ہے۔ انھوں نے کہا کہ سرکاروں کے سہارے کوئی بھی زبان کب تک زندہ رہ سکتی ہے۔اردو کے فروغ کے لئے عوام کو خود کوشش کرنی ہوگی۔ فخرالدین علی احمد میموریل کمیٹی کے چیئرمین تورج زیدی نے ملک محمد جائسی ایوارڈ کا وعدہ کیا۔ پروفیسر شارب رودولوی نے کہا کہ انسانی ذہنیت ہی اردو زبان کو پیچھے لے گئی۔ انھوں نے کہاکہ اردو کی بقا کے لیے ہم انجمنیں قائم کر کے اردو کو زندہ رکھ سکتے ہیں۔
روزنامہ راشٹریہ سہارا کے ایڈیٹر اینڈ گروپ ایڈیٹر عبدالماجد نظامی نے کہا کہ اردو زبان اس وقت تک نہیں مر سکتی جب تک ہماری امید اور حوصلہ نہیں مرتا۔ انھوں نے کہا کہ ہم سب کی یہ ذمہ داری ہے کہ اردد اخبارات ورسائل کو خرید کر ضرورپڑھیں، تبھی ہم اردو کو باقی رکھ سکتے ہیں۔
جے این یو کے پروفیسر خواجہ اکرام الدین نے کہا کہ ہندوستان کی تہذیب و ثقافت نے جس زبان کو وجود بخشا وہ صرف اور صرف اردو ہے۔ اردو رابطے کی زبان ہے اور دنیا میں سب سے تیزی سے مقبول ہونے والی زبان ہے، اے ایم یو کے پروفیسر سراج اجملی نے کہا کہ نئی تعلیمی پالیسی کے بعد اردو نصاب کی تیاری کے دوران رابطہ کی کمی کو بہت محسوس کیا گیا۔
مانو، حیدرآباد کے پروفیسر شمس الہدیٰ نے دکن میں اردو کی ادبی سرگرمیوں کا تفصیلی جائزہ پیش کیا۔ انھوں نے کہا کہ نوودے ودیالیہ اور کیندریہ ودیالیہ کے طرز پر تلنگانہ میں اردو پڑھائی جاتی ہے۔ معروف نقاد حقانی القاسمی نے کہا کہ زبانیں جذباتی نعروں سے زندہ نہیں رہتیں بلکہ اس کے لیے عملی اقدامات ضروری ہیں۔ سینئر صحافی معصوم مرادآبادی نے کہا کہ اردو زبان کو بچانے کے لیے کوئی تحریک بچی ہی نہیں ہے۔ کسی بھی زبان کو اس کے رسم الخط کے بغیر زندہ نہیں رکھا جاسکتا۔
ڈاکٹر جانکی پرساد (دہلی)نے کہا کہ اردو زبان و ادب میں مسلمانوں کی خدمات اظہر من الشمس ہیں۔ یہ کوئی ثابت کرنے والی چیز نہیں ہے۔ اردو زبان و ادب کا فروغ جمہوریت کی جڑوں کو مضبوط کرتا ہے۔ سید عباس رضوی (کشمیر) نے کہا کہ اردو کو فروغ دینے کے لئے ہمیں خود کوشش کرنی ہوگی۔ انھوں نے کہا کہ لکھنؤ اردو زبان کی راجدھانی ہے۔ سینئر صحافی وائس آف امریکہ کے سہیل انجم نے کہا کہ اخباروں اور رسالوں کی تعداد میں کمی ہوتی جارہی ہےجو باعث حیرت ہے، زبان وبیان کی خرابیاں اگر دور ہوجائیں تو سوشل میڈیا سے اردو کو بہت فائدہ پہنچایا جاسکتا ہے۔
مصطفی علی خاں ادیب الہندی نے کہا کہ اردو ہماری مادری زبان ہے، اور ہمارے گھروں میں بولی جاتی ہے۔ اگر یہ گھروں سے چلی جائے تو اسے بچانا مشکل ہے۔ دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ کے سینئر استاد مولانا علاؤالدین ندوی نے کہا کہ اردو زبان کا مسئلہ قوم کی بقا کا ہے ، ادب ہر انسان کی بنیادی ضرورت نہیں ہے لیکن زبان بنیادی حیثیت رکھتی ہے۔ مولانا فضیل ناصری (دیوبند) نے ہندوستان کے مدارس میں اردو کا تعلیمی نظام، کالی کٹ یونیورسٹی کیرالہ کے پروفیسر مبین الحق نے کیرالہ میں اردو کی صورت حال، ڈاکٹر حسان نگرامی نے طبیہ کالجوں میں اردو کی صورت حال، اے ایم یو کے ڈاکٹر قمر عالم نے مشترکہ ہندوستانی تہذیب شاعری کے حوالے سے اور مولانا محمد توصیف عالم نے بہار میں اردو کا منظرنامہ موضوع پر سیر حاصل گفتگو کی۔ مہدی حسن نے اظہار تشکر کیا۔ اس موقع پر پرویز ملک زادہ، سید عاصم رضا، سہیل وحید،ضرغام الدین، اویس سنبھلی، نثاراحمد،محمد سعید اختر، مجتبیٰ حسن صدیقی، مشکور عالم، احرار الحق، مولانا مطیع الرحمن عوف ندوی، مفتی منور سلطان ندوی، شاہد حبیب فلاحی، محمد مظہر الحق، ڈاکٹر شبنم رضوی، رفیع احمد، محمد جاوید اختر، ضیاء اللہ صدیقی، ڈاکٹر عبدالقدوس ہاشمی، ڈاکٹر مسیح الدین خاں، ڈاکٹر ریشماں پروین، ڈاکٹر نزہت پروین، ریسرچ اسکالر صائمہ ثمرین، ڈاکٹر جاں نثار، تبسم فاروقی، ڈاکٹر سلیم ملک، قاری رضی الدین، مولانا نوراللہ،محمد عمران خان، حافظ دانش قمر، مصباح الہدیٰ،کاشف رضا، قیصر رضا، قمرالزماں ندوی، مفتی محمد علی نعیم رازی،محمد فیروز ایڈوکیٹ، رفیع احمد سمیت سیکڑوں محبان اردو موجود رہے۔
کانفرنس کا اہتمام اردو فاؤنڈیشن آف انڈیا اور نجب النسا میموریل ٹرسٹ کے زیر اہتمام فخرالدین علی احمد میموریل کمیٹی، لکھنؤ کے اشتراک سے کیاگیا تھا۔۔ کانفرنس کی نظامت پروفیسر عباس رضا نیر نے کی۔ کانفرنس کا آغاز حافظ ابوظفر صدیقی کی تلاوت کلام پاک سے ہوا۔ کانفرنس میں فخرالدین علی احمد میموریل کمیٹی کے چیئرمین تورج زیدی اور اسلامک سنٹر آف انڈیا کے چیئرمین مولانا خالد رشید فرنگی محلی اور مولاناڈاکٹر یعسوب عباس نے بطور مہمان خصوصی شرکت کی۔