ہندستان میں اہل سنت برادران کے مدرسوں میں ہر برس دستار بندی کی تقریبات منعقد ہوتی ہیں۔ لیکن شیعوں میں خواہاں افراد کو عمامہ فضیلت حاصل کرنے کے لئے ایران اور عراق کے اعلی دینی تعلیمی اداروں میں دینی، شرعی اور فقہی تعلیم حاصل کرنے کے سخت مراحل سے گززنا پڑتا ہے۔انہیں جید علما کے سامنے زانوے ادب طے کرنا پڑتا ہے تب کہیں جا کر انہیں عمامہ با فضلیت سر پر سجانے کا موقع ملتا ہے۔
لیکن اب شارٹ کٹ کا زمانہ۔ علم و فضیلت اور مجتہد کی شناخت عمامہ پہننا اب بہت آسان ہو گیا ہے۔ اب سر پر عمامہ سجانے کے لئے نجف اور قم کے حوزہ ہائے علمیہ میں برسوں تعلیمی مشقت کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اب عمامے لکھنؤ میں بہ آسانی دستیاب ہیں۔ عماموں کی فراہمی کی ذمہ داری شہرعلم و ادب میں ایک ایسی شخصیت نے اٹھا رکھی ہے جو مدرسہ ناظمیہ کی مہتتم ہے۔۔مدرسہ ناظمیہ کے یہ ناظم چند برسوں کے دوران مولانا سے آیت اللہ اور آیت اللہ سے آیت اللہ العظما بن گئے ہیں۔حال ہی میں انہوں نے درجنوں طلبا اور دیگر افراد کو عمامہ کی فضلیت سے نوازا ہے۔ بتایا جاتا ہیکہ ایک شاعر بھی ایک دن میں ‘عمامہ دھاری’ مولوی بن گیا۔ اردو اور مذہب کی معمولی شد بد رکھنے والے بھی سر پر عمامہ سجا کر علما ئے با فضیلت کی صفوں میں شامل ہو رہے ہیں۔
معمولی دینی و علمی استعداد کے حامل لوگوں کے سروں پر عمامے سجانے والے یہ مولانا عمامے کی قدر و منزلت سے اچھی طرح واقف ہیں۔ انہوں نے جامعہ ناظمیہ سے ممتاز الفاضل کیا تھا۔ علامہ مفتی محمد عباس مرحوم کے فرزند مفتی سید احمد علی جیسے جید علما سے انہوں نے دینی اور فقہی تعلیم حاصل کی تھی۔ یہی نہیں بلکہ وہ اعلی دینی تعلیم حاصل کرنے کے لئے نجف اشرف گئے تھے جہاں انہوں نے آقائے محسن الحکیم اور آیت اللہ سید ابولقاسم خوئی جیسے جید علما و فضلا سے تعلیم حاصل کی تھی۔ لیکن اب وہ خود معمولی علمی استعداد رکھنے والوں کے سر پر عمامے سجا رہےہیں۔ ان سے یہ تو پوچھا ہی جانا چاہئے کہ طلبا کے سروں پر عمامہ سجا کر ا نہیں مجتہد العصر بنانے کی اجازت آخر انہیں کس نے دی ہے۔
بقلم خود علامہ کی طرح اب زمانہ بقلم خود آیت اللہ اور بقلم خود مجتہد العصر بننے کا آچکا ہے۔ ایسے آیت اللہ اور نام نہاد مجتہد العصر علما کے لئے کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے۔
خود ستائی کی قبا، جہل کا عمامہ ہے
جسکودیکھو وہی اس دور میں علامہ ہے۔