لکھنؤ اردو ادب کے ایک اور بے لوث خادم سے محروم ہو گیا ہےمختصر علالت کے بعد78 برس کی عمر میں رئیس حسین نقوی کا انکی رہائش گاہ پر جمعرات کی شب میں انتقال ہوگیا۔ انہیں برین ہیمریج ہوا تھا جسکے نتیجے میں وہ کوما میں چلے گئے تھے۔ چار روز کوما میں رہنے کے بعد وہ دار فانی سے دار بقا کی جانب کوچ کر گئے۔انکے پسماندگان میں دو دختران اور دو فرزند ہیں۔ انہیں تال کٹورہ کی کربلا میں انکے والد کی ہی قبر میں سپرد خاک کیا گیا۔ رئیس حسین نقوی لکھنؤ کے ان باقی ماندہ چند ادبی سرمایہ داروں میں شامل تھے جنہوں نے اپنی پوری زندگی اردو علم و ادب کی خدمت میں گزار دی۔
رئیس حسین نقوی ایک ایسے قلمکار تھے جنکی اکتسابی تعلیم نصابی تعلیم سے کہیں زیادہ تھی۔ انکی قلمی اور ادبی لیاقت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہیکہ اعلیٰ نصابی تعلیم حاصل کرنے والے اردو کے بڑے بڑے اسکالرز اور ادیب ان سے کسب فیض کیا کرتے تھے۔ شعرا ان سے مشورہ سخن کرتے تھے۔ایک دور میں وکٹوریا اسٹریٹ پر ناظم صاحب کے امام باڑے کے پاس چھتے والی گلی کے نکڑ پر انکی گھڑیوں کی مرمت کی معمولی سی دوکان لکھنؤ میں اردو علم و ادب کا مرکز ہوا کرتی تھی۔ اکبر حیدر کشمیری، ملک زادہ منظور احمد، کاظم علی خاں، ضیا عظیم آبادی اور خان محبوب طرزی جیسے اپنے دور کے بڑے بڑے صاحبان قلم اس چھوٹی سی دوکان پر آ کر بیٹھتے تھے۔ اس دوکان پر ادب کے دقیق موضوعات پر بحث و مباحثے ہوا کرتے تھے۔ملک اور بیرون ملک کے موقر ادبی رسائل و جرائد میں انکے سیکڑوں مضامین شائع ہو چکے ہیں۔ ان کے شائع شدہ مضامین کا مجموعہ ‘مضامین رئیس’ کے نام سے منظر عام پر آ چکا ہے۔