
تہذیب اور علم و ادب کی بستی لکھنؤ نے ایک ایسے مخلص قلمکار کو کھو دیا جس نے دینی اور سماجی موضوعات پر درجن بھر کتابیں لکھیں۔ اپنے ذاتی اخراجات سے ان کتابوں کو چھپوایا اور ان کتابوں سے کوئی مالی منفعت حاصل کرنے کی نہ خود کوشش کی اور نہ کسی کو ایسا کرنے کی اجازت دی بلکہ اہل ذوق افراد کو وہ اپنی تحریر کردہ کتابیں اس شرط کے ساتھ مفت تقسیم کرتے تھے کہ وہ ان کا مطالعہ کریںگے۔ وہ قلمکار دین کا ماہر نہیں تھا لیکن جب قرآن کی حقانیت پر بات آئی تو اسکا قلم خاموش نہ رہ سکا۔ وسیم تیاگی نے جب قرآن کی چھیبس آیات پر جاہلانہ اعتراض کرتے ہوئے ان آیات کو قرآن سے حزف کئے جانے کا مطالبہ کیا تو کسی بھی مکتبہ فکر کے علما اور اہل قلم سے پہلے ا س نے ہی ‘حقیقت’ کے عنوان سے کتاب لکھی۔ اس قلمکار نے نہ صرف دین و قرآن کا دفاع کیا بلکہ اس نے ہندو دانشوروں کی کتابوں سے قرآن اور اسلام کی حقانیت کو بھی ثابت کیا۔ اس قلمکار نے یہ کتاب ہندی میں لکھی تاکہ اسلامی تعلیمات اور قرآن کے تعلق سے غلط فہمی اور بے بنیاد پروپگنڈے کے شکار غیر مسلم برادران کو حقیقت سے آشنا کیا جاسکے۔

یہ مخلص قلمکار کوئی اور نہیں سید قاسم رضا ہیں جو چند روز پہلے ہی اس دار فانی سے دار بقا کی جانب رخصت ہوگئے۔ قاسم رضا کی دینی اور سماجی خدمات کے حوالے سے گفتگو کرنے سے پہلے انکا مختصر تعارف ضروری معلوم ہوتا ہے۔ سید قاسم رضا11 نومبر1952 میں لکھنؤ کے اعلی تعلیم یافتہ اور اعلی مرتبے والے خاندان میں پیدا ہوئے۔ انکے والد سید تقی رضا ریڈیو انجینئرنگ کا کورس کئے ہوئے تھے۔ بی ایس سی بی ایڈ تھے اور درس و تدریس کے با عزت پیشے سے وابستہ تھے۔ سید قاسم رضا نے پبلک ایڈ منسٹریشن میں ڈپلومہ کیا تھا اور وہ اعلی سرکاری افسر تھے۔ سید قاسم رضا کے دادا نواب عنایت رضا بڑے نواب کی عرفیت سے مشہور تھے۔ وہ نواب واجد علی شاہ کے بھائی کے پوتے تھے۔ ننیہال کی طرف سے بھی سید قاسم رضا علما کے خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ انکے نانا مفتی احمد علی مشہور زمانہ عالم تھے اور مفتی شہر تھے۔

قاسم رضا کومضامین لکھنے کا شوق طالب علمی کے زمانے سے ہی تھا۔ ابتدا انہوں نے اخباروں کے مدیروں کے نام مختلف موضوعات اور مسائل پر خط لکھنے سے کی۔ اس سلسلے میں انہیں اپنے والد کی رہنمائی اور حوصلہ افزائی حاصل رہتی تھی۔ کچھ عرصہ بعد وہ مختلف سماجی مسائل و معاملات پر مضامین لکھنے لگے جو اس وقت کے موقر اخبارات و رسائل میں شائع ہوتے تھے۔ 2012 میں حسن خدمت کے ساتھ ملازمت سے سبکدوش ہونے کے بعد قاسم رضا نے دین اور سماج کی قلمی خدمت کے لئے خود کو وقف کردیا۔ دنیا سے رخصت ہونے تک وہ درجن بھر سے زیادہ کتابیں، سیکڑوں مضامین اور پمفلیٹس تحریر کرچکے تھے۔ انہوں نے قدیم نوحوں کو ‘گمشدہ اوراق’ کے عنوان سے یکجا کرکے تاریخی کارنامہ انجام دیا۔ اس کام میں انہیں بہت مشقت اور تلاش و جستجو کرنا پڑی۔ انہوں نے صوتی آلودگی کے پس منظر میں لاؤڈ اسپیکروں کے استعمال پر ایک اخلاقی پیغام دیتے ہوئے ایک کتاب لکھی۔ ‘لاؤڈ اسپیکر اور پڑوسی’ کے عنوان سے تحریر اس کتاب میں ہمسایوں کے حقوق بھی بیان کئے گئے ہیں اور یہ پیغام بھی دیاگیا کہ لاؤڈ اسپیکر کا استعمال کرتے وقت پڑوس میں رہنےوالے ضعیفوں، بیماروں اور طلبا کو پیش آنے والی دقتوں کا خیال رکھا جانا چاہئے۔ قاسم رضا نے ایک نہایت حساس معاملے پر بھی قلم اٹھایا۔ ‘معاویہ اور مسلمان’ نامی کتاب میں انہوں نے تاریخی حقائق کی بنیاد پر معاویہ ابن ابو سفیان کا کردار پیش کیا۔ انہوں نے اس کتاب میں یہ بھی بتایا کہ اہل بیت رسول اللہ اور بالخصوص مولا علی کی کردار کشی کی جو مہم معاویہ ابن ابو سفیان نے چلائی عام مسلمان اسکا شکار کس طرح ہوا۔

زندگی کے آخری دم تک دین اور سماج کی قلمی خدمت کرنے والے قاسم رضا نہایت سادگی پسند اور منکسر المزاج تھے۔ گزشتہ مارچ میں غفراں مآب کے سلسلے میں ایک سیمنار میں شرکت کی غرض سے میں لکھنؤ گیا تھا لکھنؤ یونیورسٹی سے بحیثیت لیکچرار وابستہ پروفیسرسبط حسن اور لکھنؤ کی تاریخ اور بالخصوص لکھنؤ کے شیعوں کی تاریخ کے ماہر خورشید انور عرف رومی نواب کے توسط سے مجھے سید قاسم رضا سے ملاقات کا موقع میسر آیا تھا۔ نصف گھنٹے کی ملاقات میں ہی میں انکی قابلیت ، علم اور شیعت کی خدمت کے جزبے اور انکی انکسار مزاجی سے بہت متاثر ہوا تھا۔ وہ مختلف موضوعات پر بہت سلجھے ہوئے انداز میں گفتگو کرتے تھے۔ انہوں نے اپنی کئی کتابیں بھی تحفتاً دی تھیں۔ اعلیٰ مرتبے کے خاندان کی فرد ہونے اور بذات خود لائق و قابل ہونے باوجود وہ خاکساری کا نمونہ تھے۔
دین و سماج کی بے لوث خدمت کرنے کے لئے قاسم رضا کو ہمیشہ یاد کیا جائےگا۔انکی عملی زندگی یقیناً نمونہ عمل ہے۔اللہ انکے درجات کو اعلیٰ فرمائے۔آمین(جمال عباس فہمی)