qaumikhabrein
Image default
ٹرینڈنگسیاستقومی و عالمی خبریں

‘انڈیا‘ کو ہرانے کی دْھن مایاوتی کو لے ڈوبی۔ سراج نقوی

  مایاوتی بی جے پی مخالف محاذ کی ٹانگ کھینچنے اور اسے سولہ پارلیمانی سیٹوں پر نقصان پہنچاکر بی جے پی کو بالواسطہ  فائدہ پہنچانے میں بھلے ہی کامیاب ہو گئی ہوں،لیکن اپنے اس خفیہ مقصد میں کامیابی کی بڑی قیمت انھیں اور ان کی پارٹی کو چکانی پڑی ہے۔بی ایس پی کو کسی بھی پارلیمانی سیٹ پر جیت نہیں ملی ہے۔اس طرح انھوں نے اپنے دلت ووٹ  بینک کو ضائع کر دیا ہے۔جبکہ دلت طبقہ انھیں اپنی مسیحا کے طور پر حمایت دیتا رہا ہے،لیکن حالیہ پارلیمانی الیکشن میں انھوں نے جو حکمت عملی اختیار کیٍ اس کا جتنا نقصان’ انڈیا‘ محاذ سے کہیں زیادہ خود بی ایس پی کو اٹھانا پڑا ہے۔اپنے دم پر الیکشن لڑنے اور بی جے پی مخالف محاذ’انڈیا‘ سے فاصلہ بنانے کی ان ضد اور بی جے پی کو فائدہ پہنچانے کی درپردہ خواہش نے ان کے اور بی ایس پی کے سیاسی سفر پر ہی سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔

 مایاوتی اپنے سیکولرا ور مسلم حامی ہونے کے دعوے تو بہت زور و شور سے کرتی رہی ہیں اور مسلمانوں کو ہر الیکشن میں کافی  تعداد میں ٹکٹ بھی دیتی رہی ہیں۔لیکن یہ بھی سچ ہے کہ اگر کسی الیکشن میں ان کی پارٹی کو خاطر خواہ تعداد میں مسلم ووٹ نہیں ملے  تو اس پر وہ مسلمانوں کے خلاف اس انداز میں ناراضگی بھی ظاہر کرتی رہی ہیں کہ جیسے مسلمانوں نے انھیں فریب دیا ہو۔جمہوریت میں یہ رویہ مزاج کی خود سری ظاہر کرتا ہے۔اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ دیگر کئی پارٹیوں کی طرح مایاوتی کے نزدیک بھی مسلمان ایک ووٹ بنک سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتے،اور جب یہ ووٹ بنک ان سے اپنا منھ پھیرتا ہے تو وہ اسے نشانہ بنانے سے گریز نہیں کرتیں۔بہرحال حالیہ الیکشن میں مسلمانوں نے ان کی پارٹی کو کتنے ووٹ دیے یہ تو واضح نہیں ہے،لیکن گمان غالب ہے کہ بی جے پی مخالف دیگر ووٹروں کی طرح مسلمانوں نے بھی بیشتر حلقوں میں اسی امیدوار کو ووٹ دیا جو بی جے پی کو شکست دے سکے۔کچھ لوگ اس حکمت عملی سے اختلاف کر سکتے ہیں،لیکن ہماری سیاست میں یہ عام رجحان ہے۔حالیہ لوک سبھا الیکشن میں اتر پردیش میں ٹھاکر یا  راجپوتوں نے بھی اسی حکمت عملی کے تحت ہر اس امیدوار کو ووٹ دیا جس کے بارے میں ان کا خیال تھا کہ وہ بی جے پی کو شکست دے سکتا ہے۔اس حکمت عملی کا اعلان  راجپوت  برادری نے انتخابی عمل شروع ہونے سے پہلے ہی کر دیا تھا۔

جہاں تک مایاوتی کی انتخابی حکمت عملی کا تعلق ہے تو یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہیے کہ انتخابی عمل شروع ہونے سے پہلے درپردہ سطح پر اس بات کی کوششیں کی گئیں کہ مایاوتی کو بھی ’انڈیا‘ اتحاد میں شامل کر لیا جائے،تاکہ بی جے پی مخالف ووٹوں کی تقسیم کو روکا جا سکے۔این ڈی اے اتحاد میں شامل پارٹیوں کی بات چھوڑ دیں تو ملک کی بیشتر اہم سیاسی پارٹیاں ’انڈیا‘ اتحاد میں شامل بھی ہوئیں،لیکن جہاں تک مایاوتی کا تعلق ہے تو انھوں نے اس موضوع پر کسی بھی پارٹی سے بات تک کرنی پسند نہیں کی،اور صاف طور پر اس موقف پر عمل پیرا رہیں کہ ان کی پارٹی تنہا ہی الیکشن لڑیگی۔جب کئی حلقوں سے یہ آوازیں اٹھ رہی تھیں کہ سیکولر پارٹیاں مسلمانوں کو کم ٹکٹ کیوں دے رہی ہیں تو مایاوتی نے دوسری پارٹیوں سے زیادہ تعدا دمیں مسلم امیدوار بھی میدان میں اتارے۔لیکن جس طرح ’انڈیا‘ محاذکی طرف بی جے پی  مخالف ووٹروں کا رجحان بڑھ رہا تھا اس میں سمجھداری کا تقاضہ یہی تھا کہ الیکشن میں  اوّلین مقصد کے تحت ووٹوں کی تقسیم کو روکا جائے۔مایاوتی یا تو اس نظریے کے ہی خلاف تھیں،یا پھر وہ اس غلط فہمی کی شکار تھیں کہ اپنے دم پر بی جے پی کو روکنے میں کامیاب ہو جائینگی،لیکن ایسا نہیں ہو سکا۔بی جے پی کو روکنا تو درکنار  وہ جانے انجانے میں اس کی مددگار بن گئیں اور ’انڈیا‘ محاذ کی 16سیٹیں ان کی ’ایکلا چلو‘ کی ضد نے بی جے پی کی جھولی میں ڈال دیں۔

البتہ ان کی یہ ضد انھیں بھی کوئی ایک سیٹ تک دلانے میں ناکام رہی۔صرف یہی نہیں کہ انھوں نے اترپردیش میں ’انڈیا‘محاذ کا راستہ روکنے کی کوشش کی اور اس سے الگ اپنی راہ اختیار کی بلکہ اتر پردیش کی نگینہ سیٹ کہ جہاں سے دلتوں کے نوجوان لیڈر اور بھیم آرمی چیف  چندر شیکھر عرف راون چار سال قبل بنائی سیاسی پارٹی ’آزاد سماج پارٹی‘ سے میدان میں تھے، ان کے مقابلے میں بھی اپنا امیدوار  اتار کران کی ٹانگ کھینچنے کی کوشش کی۔یہ الگ بات کہ نگینہ کے ووٹروں نے مایاوتی کے منصوبے کو سمجھتے ہوئے نہ صرف بی ایس پی امیدوار کو بلکہ بی جے پی کو بھی راون کے مقابلے میں مسترد کر دیا اور اسطرح بی جے پی کو بالواسطہ فائدہ پہنچانے کی مایاوتی کی کوشش ناکام ہو گئی۔نگینہ کے تعلق سے یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ یہاں راون نے صرف جیت ہی درج نہیں کی ہے بلکہ مجموعی طور پر 51.19%فیصد ووٹ بھی حاصل کیے ہیں۔اس طرح چندر شیکھر عرف راون نے مایاوتی کی دلت ووٹوں پر اجارہ داری کو ایک جھٹکے میں منھ توڑ جواب دے دیا ہے۔چندر شیکھر کی یہ جیت مایاوتی کی دلت سیاست کے لیے بڑے خطرے کی گھنٹی ہے۔اس بات کی اہمیت کو سمجھنا ہوگا کہ ایک ’قومی پارٹی‘ اس لوک سبھا الیکشن میں ایک بھی لوک سبھا سیٹ پر جیت حاصل نہیں کر سکی،اور نگینہ میں کہ جہاں ایک نیا دلت چہرہ ووٹروں کے سامنے تھا وہاں ووٹروں نے بی ایس پی کو مسترد کرکے اسے اپنا لیڈر چنا۔بی جے پی امیدوار کو یہاں صرف 36%فیصد ووٹ ملے۔ مایاوتی کو نگینہ کے ووٹروں نے کس طرح ان کی اوقات بتائی ہے اس کا ثبوت بی ایس پی امیدوار سریندر پال سنگھ کو ملے1.33%فیصد ووٹ ہیں۔مایاوتی نے اگر اب بھی اس نوشتہ دیوار کو نہیں پڑھا اور دلت ووٹوں کی ٹھیکیداری کے زعم میں مبتلا رہیں تو وہ دن دور نہیں کہ جب دلت انھیں اور ان کی پارٹی کو پوری طرح ٹھکانے لگا دینگے۔چندر شیکھر آزاد عرف راون کا عروج اس کی ابتدا ہے۔انگریزی جریدے’منٹ‘ نے چندر شیکھر کی جیت پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ،’‘ اب لوک سبھا میں بی ایس پی کا کوئی ممبر پارلیمنٹ نہیں ہے۔آزاد ہی ہی ایوان میں مسلمانوں اور دلتوں کے ایشوز اٹھائینگے اور یقینی طور پرمایاوتی کے متبادل کے طور پر ابھرینگے۔اس سے بی ایس پی مزید کمزور ہوگی۔“ واضح رہے کہ نگینہ ریزرو سیٹ ہے جہاں مسلمان چالیس فیصد اور دلت بیس فیصد ہیں۔

اانڈیا اتحاد کے امیدوار دانش علی بی ایس پی کی وجہ سے ہارے

اتر پردیش کی جن 16سیٹوں پر ’انڈیا‘ کے امیدواروں کو شکست ہوئی ہے ان میں سے کوئی بھی سیٹ ایسی نہیں کہ جہاں بی ایس پی امیدوار دوسرے نمبر پر بھی رہا ہو بلکہ ان تمام سیٹوں پر بی ایس پی امیدوار کو دوسرے نمبر پر رہے ’انڈیا‘ محاذ کے امیدواروں سے کافی کم ووٹ ملے ہیں۔یعنی یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ’انڈیا‘ محاذ کے کسی امیدوار کی وجہ سے بی ایس پی امیدوار کو شکست ہوئی ہو بلکہ ان تمام سیٹوں پر  بی ایس پی نے ہی ’انڈیا‘ محاذ کے امیدوار کی ٹانگ کھینچنے کا کام کیا ہے،اور اس طرح بی جے پی کو فائدہ پہنچایا ہے۔حالانکہ مایاوتی کی بد قسمتی یہ ہے کہ وہ بی جے پی کو یہ فائدہ پہنچانے کی قیمت بھی اس سے وصول کرنے کی پوزیشن میں نہیں رہیں۔جبکہ اگر وہ بی جے پی مخالف محاذ میں ہوتیں تو بڑی حد تک یقین کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ وہ یہ 16سیٹیں نہ سہی لیکن ان میں سے کچھ سیٹیں تو جیت ہی لیتیں۔ لیکن انھوں نے اس محاذ کا حصہ بننا شائد اس لیے پسند نہیں کیا کہ ان کی نیت میں کھوٹ تھا اور وہ اپنی موقع پرستی کے تحت بی جے پی کو حمایت دیکر کچھ حاصل کرنے کا خواب دیکھ رہی تھیں۔ بی ایس پی نے گزشتہ برسوں میں مودی حکومت کے ذریعہ پیش کیے گئے کئی بلوں اور راجیہ سبھا سیٹوں پر بی جے پی کی حمایت کرکے یہ ثابت بھی کیا ہے،لیکن خود غرضی اور موقع پرستی پر مبنی ان کی پالیسی اور اپنے دم پر الیکشن لڑنے کی ان کی ضد نے ان سے دلت لیڈر ہونے کا تاج بھی چھین لیاہے۔

naqvisiraj58@gmail.com       9811602330    

Related posts

ترکی بھی اسرائیل کی آغوش میں بیٹھنے کو بے تاب۔

qaumikhabrein

بحرینی حکمراں۔ یہ مسلماں ہیں جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود

qaumikhabrein

نوحوں اور مرثیوں کے شاعر عشرت لکھنوی کا انتقال۔

qaumikhabrein

Leave a Comment