لنکا کے راجہ راون نے تو سیتا جی کو پشپک جہاز کے ذریعے اغوا کیا تھا اور ساورکر کو بلبل پرندہ اپنے پروں پر بٹھا کر جیل سے باہر لیجاتا تھا۔ جناب یہ ہنسنے کی بات نہیں ہے ۔یہ ساورکر کی مہانتا ہے جسے کرناٹک ریاست کی آٹھویں درجے کی کتاب میں بیان کیا گیا ہے۔ چونکئے نہیں پورا قصہ سنئے۔
بات اس وقت کی ہے جب ساورکر انڈو مان نیکو بار جزیرے جسے انگریزوں کے دور میں کالا پانی کہا جاتا تھا کی جیل میں بند تھے۔ انہیں مادر وطن کی یاد بہت ستاتی تھی۔ وہ مادر وطن کے دیدار کے لئے تڑپتے تھے۔ ساورکر کی مادر وطن کے دیدار کی پیاس بجھانے کے لئے بلبل پرندہ اس کال کوٹھری میں آتا تھا جہاں دیوار میں کوئی سوراخ بھی نہیں تھا۔ وہ بلبل پرندہ اپنے پروں پر ساورکر کو بٹھا کر جیل سے اڑ جاتا تھا اور روزانہ مادر وطن کی انہیں سیر کراتا تھا۔ یہ کہانی کرناٹک ریاست میں آٹھویں درجے کی نصابی کتاب میں طلبا و طالبات کو پڑھائی جارہی ہے۔
جب ملک کے حقیقی مجاہدین آزادی کی قربانیوں کو نظر انداز کرکے انگریزوں سے گڑ گڑ اکر معافی مانگنے والے ساورکر کو ہیرو بنا کر پیش کیا جائےگا تو انکی عظمت کا بکھان کرنے کے لئے اسی قسم کے قصے کہانیاں گڑھنا پڑتی ہیں۔رگ گل سے بلبل کے پر باندھنے کی باتیں تو اردو شاعری میں پڑھنے کو ملتی ہیں لیکن بلبل کے پروں پر سواری گانٹھنے کا افسانہ بالکل اچھوتا ہے۔ داد دینی پڑیگی کہانی گڑھنے والے کے دماغ کی۔