پاکستان کے جواں مرد عالم دین اور محقق علامہ ارتضیٰ عباس نقوی کی ترتیب کردہ کتاب ‘فغان دلیگر’ منظر عام پر آگئی ہے۔ یہ کتاب اردو کے صاحب طرز مرثیہ گو لکھنؤ کے لالا چھنو لال دلگیر سے متعلق ہے۔چھنو لال دلگیر 1780 میں لکھنؤ میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے نواب سعادت علی خاں کا دوراور باد شاہ غازی الدین حیدر کی تاجپوشی کا جشن دیکھا۔دلگیر 35 برس کی عمر میں مشرف بہ اسلام ہوئے اور مذہب تشیع اختیار کیا۔۔ انکی وفات 1848 میں لکھنؤ میں ہوئی۔ نخاس کے پاس چڑیا بازار میں انکی قبر ہے، جو ٹیڑھی قبر کے نام سے مشہور ہے۔ دلگیر کے نظم کردہ مراثی کا سب سے پہلا مجموعہ منشی نول کشور نے شائع کیا تھا۔ میر خلیق، میر ضمیر اور مرزا فصیح جیسے مرثیہ گو شعرا کے ہم عصر دلگیر پر علامہ ارتضیٰ عباس کی تحریر کردہ ‘فغان دلگیر’ اپنی نوعیت کی پہلی جامع اور تحقیقی کتاب ہے۔
علامہ ارتضیٰ عباس نقوی کا اپنی تحقیق کی بنیاد پر دعویٰ ہیکہ دلگیر نے پونے پانچ سو کے آس پاس مراثی نظم کئے۔ دلگیر نے سات ہزار سے زائد سلاموں اور ہزاروں قطعات اور رباعیات پر مشتمل رثائی ادب کا اثاثہ چھوڑا۔مجموعی طور پر دلگیر نے اردو کے رثائی ادب کو79000 سے زیادہ اشعار کی دولت بخشی۔’گھبرائے گی زینب’ جیسا پر درد اور رقت امیز نوحہ بھی دلگیر کا ہی نظم کردہ ہے۔ یہ نوحہ دنیا بھر میں پڑھا جاتا ہے جسے سن کر امام حسین کے عزادار بے اختیار گریہ کرنے لگتے ہیں۔
امروہا کی عزاداری میں بھی دلگیر کا کلام بکثرت پڑھا جاتا ہے۔ امروہا میں شہیدان کربلا کے چہلم پر تو صرف دلگیر کا نظم کردہ مرثیہ ‘قید سے چھوٹ کے جب سید سجاد آئے’ ہی پڑھا جاتا ہے۔
جہاں تک علامہ ارتضیٰ عباس نقوی کی دینی اور ادبی خدمات کا تعلق ہے تووہ خطیب اور ادبی محقق کے ساتھ ساتھ شیعی تاریخ کے ماہر کے طور پر شناخت قائم کر چکے ہیں۔۔نومبر1990 میں پیدا ہونے والے ارتضیٰ عباس نقوی کی قلم زودگی کا یہ عالم ہیکہ وہ اب تک اپنی عمر کے برسوں سے زیادہ کتابیں تصنیف و تالیف کر چکے ہیں۔عراق کے مقدس مقامات کے تعلق سے بھی وہ تحقیق کرکے کتابیں تحریر کر رہے ہیں۔ وہ امام زادوں کے حالات زندگی اور انکے مزارات پر بھی کتابیں لکھ رہے ہیں۔ گمنامی کی تاریکی میں گم رثائی شعرا اور انکے کلام کو منظر عام پر لانا بھی علامہ ارتضیٰ عباس کے مشن کا حصہ ہے۔
چار برس کی عمر میں پہلی مجلس سے خطاب کرنے والے ارتضیٰ عباس نقوی پاکستان کے معروف ہاکی کھلاڑی صفدر عباس کے فرزند اور آسٹریلیائی ہاکی ٹیم کے رکن مدثر عباس کے چھوٹے بھائی ہیں۔ انہوں نے زوجہ پیغمبربی بی ام سلمہ پر دو سو صفحات پر مشتمل کتاب اس وقت تحریر کی تھی جب وہ میٹرک کے طالب علم تھے۔انکے ذریعےتحریر کتابوں میں علامہ طالب جوہری کی عزائی اور رثائی خدمات پر کتاب بھی شامل ہے۔