
بر صغیر ہندستان اور پاکستان کے معروف سلام گزار اشرف عباس کو دنیائے عزاداری کو الوداع کہے ہوئے تین برس گزر گئے۔ یکم مارچ 2020 کو انکا کراچی میں انتقال ہوا تھا۔ اشرف عباس پاکستان کے معروف وکیل منور عباس کے فرزند تھے۔منور عباس نے پاکستان میں عزاداری کے قیام میں بہت سرگرم کردار ادا کیا تھا۔ منور عباس خطیب اعظم علامہ رشید ترابی کے دست راست تصور کئے جاتے تھے۔ کراچی کی مجلسوں پر ذاکر کے خطاب سے قبل سلام گزاری کی روایت کی داغ بیل اشرف عباس نے ہی ڈالی۔

1963 میں انہوں نے کراچی کے خالدینا ہال میں علامہ رشید ترابی کے خطاب سے قبل پہلی بار سلام پیش کیا تھا۔ منبر پر خطیب سے پہلے سلام گزاری کی جو روایت اشرف عباس نے شروع کی تھی وہ آج عزاداری کی دنیا میں پھل پھول رہی ہے۔اشرف عباس نے انتقال سے قبل تک اپنے مخصوص انداز میں سلام گزاری کی روایت کو باقی رکھا۔

اشرف عباس کی سلام گزاری کا انداز نہایت متین اور بردباری کا ہوتا تھا۔ وہ کلام کے انتخاب میں بھی بہت احتیاط سے کام لیتے تھے۔ اساتزہ اور مشاہیر شعرا کا معیاری کلام ہی پیش کرتے تھے۔ انکی سلام گزاری کی خصوصیت انکی آواز کا زیر و بم تھی۔ سلام گزاری کے دوران اشرف عباس بہت کم موقعوں پر ہاتھوں سے کام لیتے تھے۔اشرف عباس نے جوش میلح آبادی، علامہ رشید ترابی، علامہ نسیم امروہوی، آل رضا، قمر جلالوی، مولانا محمد جوہر، علامہ طالب جوہری، افتخار عارف، ہلال نقوی، شاہد رضوی جیسے شعرا کا کلام پیش کیا۔

افسوس کہ آج منور عباس مرحوم کے پانچ فرزندوں میں اس دنیا میں کوئی حیات نہیں ہیں۔ اشرف عباس کی سلام گزاری کی روایت کو انکے بھتیجے زین العابدین باقی رکھے ہوئے ہیں۔