
وقف املاک کی حفاظت کے سلسلے میں مظفر پور بہار کے مولانا سید کاظم شبیب ایک بار پھر جیل میں ہیں۔ شیعہ حلقوں میں مولانا کاظم شبیب کی گرفتاری کے خلاف سخت غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ نتیش کمار کی حکومت سے مولانا کاظم کے معاملے میں مداخلت کی اپیلیں کی جارہی ہیں۔انکی فوری رہائی کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔ اس درمیان مولانا کلب جواد بھی مولانا شبیب کاظم کی گرفتاری کے خلاف احتجاج میں کود پڑے ہیں۔ انہوں نے نتیش حکومت کو خبردار کیا ہیکہ اگر مولانا کاظم کو جلد از جلد رہا نہیں کیا گیا تو بہار میں اس کے خلاف زوردار تحریک شروع کی جائےگی۔

مولانا کاظم کی گرفتاری کے خلاف مولانا کلب جواد کی بیان بازی اور تحریک چلانے کی دھمکی بظاہر تو قابل تعریف نظر آتی ہے لیکن اگر گہرائی میں جاکر تجزیہ کیا جائے تو کلب جواد کی نیت میں کھوٹ صاف صاف نظر آتا ہے۔ کلب جواد کی نیت کے کھوٹ کا جائزہ لینے کے لئےپیچھے پلٹ کر ہمیں 2017 میں جانا پڑیگا۔ مولانا کاظم شبیب کو وقف کی بربادی کے خلاف احتجاج کی سزا اس وقت یہ ملی تھی کہ انکے اور انکے حامیوں پر جان لیوا حملہ کیا گیا تھا۔ انہیں بری طرح مارا پیٹا گیا تھا۔ انکی کئی ہڈیاں ٹوٹ گئی تھیں ۔ انہیں گرفتار کیا گیا تھا۔ چار ماہ تک انہیں جیل میں گزارنا پڑے تھے۔ اس وقت تو کلب جواد کو مولانا کاظم کی گرفتاری کے خلاف احتجاجی تحریک شروع کرنے کا خیال نہیں آیا تھا۔ سرسری طور پر انہوں نے مولانا کظم کی رہائی کا مطالبہ کیا تھا۔ سوال یہ ہیکہ اب کلب جواد کو کیوں جوش آیا ہے اور انکا دل مولانا کاظم کی ہمدردی میں کیوں تڑپ رہا ہے۔

2017 میں بھی نتیش کمار وزیر اعلیٰ تھے۔ آج بھی نتیش کمار ہی وزیر اعلیٰ ہیں۔ 2017 میں جس روز مولانا کاظم پر پولیس نے حملہ کیا تھا اس وقت نتیش کمار کو جے ڈی یو کی حمایت حاصل تھی۔ دو روز بعد ہی انہوں نے جے ڈی یو سے ناطہ توڑ کر بی جے پی کے ساتھ ہاتھ ملا لیا تھا۔ بی جے پی کی حمایت کے ساتھ نیتش کمار کی حکومت کے دور میں چار مہینے مولانا کاظم جیل میں رہے لیکن کلب جواد نے نتیش کمار کی حکومت کے خلاف بہار میں تحریک چھیڑنے کا اعلان نہیں کیا۔ نتیش کمار آج بھی بہار کے وزیر اعلیٰ ہیں لیکن آج وہ بی جے پی کی حمایت کے ساتھ حکومت نہیں چلا رہے ہیں بلکہ وزیر اعظم مودی اور انکی حکومت کوآنکھیں دکھا رہے ہیں۔

کلب جواد بی جے پی کے ساتھ اپنی وفاداری نبھا رہے ہیں۔ حال ہی میں لکھنؤ میں منعقدہ شیعہ کانفرنس میں وہ یو گی اور مودی کی حکومت کی گود میں مکمل طور سے بیٹھ جانے کا اعلان کر چکے ہیں۔ مولانا کاظم کی گرفتاری کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے لیکن کلب جواد کی نیت پر یقین نہیں کیا جاسکتا۔ مولانا کاظم کے تئیں کلب جواد کی ہمدردی کا معاملہ حب علی کا نہیں بلکہ بغض معاویہ والا ہے۔

ملک میں آئے دن مسلمانوں کو بہانے بہانے سے ظلم و ستم کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ انکے مکانوں پر بلڈوزر چلائے جا رہے ہیں۔ مسجدوں کو منہدم کیا جارہا ہے۔ کلب جواد نے آجتک اس سلسلے میں مودی اور یوگی حکومت کے خلاف ایک بار بھی مذمتی بیان نہیں دیا۔ انکی نظر میں مودی اور یوگی کے راج میں مسلمان بہت محفوظ ہیں۔ لیکن کاظم شبیب کی گرفتاری سے انکا دل تڑپ گیا۔ کیونکہ بہار میں بی جے پی کی حکومت نہیں ہے۔ ان نتیش کمار کی حکومت ہے جو مودی حکومت کی آئے دن نکتہ چینی کرتے ہیں۔کلب جواد صاحب ذرا اپنا ضمیر بیدار کیجئے۔ حق گوئی اور بے باکی کا مظاہرہ کجئے۔