فلسطین کے وجود کے تعلق سے ایک اسرائلی وزیر کے بیان پر اردن میں سخت ناراضگی پائی جاتی ہے۔ نوبت یہ آگئی ہیکہ اسرائیلی سفیر کو اردن سے نکال باہر کیا جارہا ہے۔ اردن کی پارلیمنٹ نے اسرائلی سفیر کو ملک بدر کرنے کی سفارش کی ہے۔ قصہ اسرائیل کی دائیں بازو کی حکومت کے وزیر مالیات بیزالیل اسموٹ ریچ کے ایک بیان سے جڑا ہے۔ اسموٹ ریچ نے اتوار کو ایک پروگرام میں کہا تھا کہ جب فلسطین کا ہی وجود نہیں ہے تو کوئی فلسطینی بھی نہیں ہےاور انکے اہل خانہ ہی اصل فلسطینی ہیں۔
اسموٹریچ نے جس پوڈیم پر کھڑے ہو کر یہ ببان دیا تھا وہاں ایک نقشہ لگا ہوا تھا جس میں مقبوضہ فلسطینی علاقوں کے ساتھ ساتھ اردن کو بھی عظیم تر اسرائیل میں شامل دکھایا گیا ہے۔ اسموٹریچ کے اس بیان کے رد عمل میں اسرائیلی سفیر کو اردن کی وزارت خارجہ میں طلب کرکے سخت احتجاج کیا گیا۔ ادھر مصر اور متحدہ عرب امارات نے بھی اسرائیلی وزیر مالیات کے مزکورہ بیان کی مذمت کی ہے۔اسرائلی سفیر کو نکالے جانے کی پارلیمنٹ کی سفارش پر اردن کے نائب وزیر اعظم توفیق کرشن نے کہا ہیکہ اس واقعہ نے اردن کے باشندوں کو متحد کردیا ہے۔
اردن اور اسرائیل کے درمیان 1948 اور 1967 میں جنگیں ہو چکی ہیں۔ 1994 میں دونوں ملکوں نے امن معاہدے پر دستخط کئے تھے۔ اردن کے لاکھوں باشندے فلسطینی ہیں جو اسرائل کے ذریعے بے گھر کئے گئے فلسطینیوں کی اولادیں ہیں۔