qaumikhabrein
Image default
ٹرینڈنگسیاستقومی و عالمی خبریں

جنت البقیع اور جنت المعلّٰی کی تاریخی اہمیت

مدینہ منورہ میں جنت البقیع کے مزارات اور روضوں کو شاہ ابن سعود کے حکم پر آٹھ شوال 1345 ہجری بمطابق 21 اپریل 1925 کو منہدم کیا گیا تھا۔ اسی برس مکہ مکرمہ میں جنت ال معلیٰ کے مزارات کو بھی مسمار کیا گیا تھا۔

جنت البقیع کاپرانا نام بقیع الغرقدتھا۔بقیع یعنی مختلف درختوں کا باغ اور غرقد ایک مخصوص قسم کےجھاڑی نما درخت کو کہتے ہیں جو پہلے اس جگہ کثیر تعداد میں تھا اسی وجہ سے یہ نام پڑ گیا۔
امام حاکم کی مستدرک میں موجود روایت روایت کے مطابق اللہ تعالٰی نے اپنے پیارے حبیب صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس بقیع کی جگہ قبرستان بنانے کاحکم فرمایا تھا۔اسلام کے اس پہلے اور عظیم قبرستان کا باقاعدہ آغاز رسول خدا کے باوفا اصحاب ؛انصار مدینہ کے اسعدبن زرارہ اور عثمان بن مظعون کے دفن سے ہوا۔
جنت البقیع میں اوائل اسلام کی عظیم شخصیات کی قبور ہیں جن میں رسول خدا کے فرزند جناب ابراھیم ، حضرت علی ع کی والدہ حضرت فاطمہ بنت اسد ، حضرت عبداللہ ابن جعفرطیار ، حضرت عباس ابن عبدالمطلب ، حضرت ام البنین ، حضرت حلیمہ سعدیہ ، امہات المومنین میں سے حضرت ام سلمہ ، حضرت حفصہ بنت عمر ، حضرت ام حبیبہ ، حضرت زینب ، حضرت ریحانہ ، حضرت ماریہ قبطیہ وغیرہ یہاں دفن ہیں۔ جنگ احد کے کٸی شہدا ٕ اور واقعہ حَرّا کے شھدا ٕ بھی یہاں دفن ہیں۔
بعض روایت کے مطابق رسول خدا کی اکلوتی بیٹی ، قرة عین الرسول ؛ حضرت فاطمہ زہرا س کی قبر مبارک بھی اسی ویرانے میں موجود ہے۔

جنت البقیع کی موجودہ حالت

مسلمانوں کے تیسرے خلیفہ جناب عثمان جو کہ پہلے بقیع کے باہر دفن تھے اب انکی قبر بھی بقیع کی احاطہ کے اندر ہے۔
”بیت الحزن“ بھی اب جنت البقیع کاحصہ ہے۔۔ حضرت علی ع نے بعض مدینہ والوں کی طرف سے حضرت فاطمہ کی اپنے بابا کے فراق میں ذیادہ گریہ کرنے کے سبب شکایت کرنے پر مدینہ سے باہر فقط رونے کے لیے ”بیت الحزن“ تعمر کیا تھا۔
حضرت علی ع کے بھائی جناب عقیل کا ذاتی گھر جس میں بعد میں ہمارے آئمہ اربعہ نواسہ رسول امام حسن ع ، امام سجاد ع ، امام محمد باقرع اور امام جعفرصادق ع دفن ہوۓ وہ بھی اسی جنت البقیع میں ہے۔
اسکے علاوہ ہزاروں کی تعداد میں رسول خدا کے باوفا اصحاب کرام ، تابعین کرام ، امہات المومنین اور اسلام کے ابتداٸی شھدا ٕ کی قبور مبارک یہاں موجود ہیں۔

جنت المعلّٰی میں بی بی خدیجہ کا مزار انہدام سے قبل

مسلمانوں کا دوسرا اہم ترین اور قدیمی قبرستان جنت المعلّٰی ہے جو مکہ معظمہ میں واقع ہے ۔جنت المعلّٰی میں رسول خدا کی پہلی اور چہیتی بیوی ام المومنین حضرت خدیجہ س کی قبر مبارک ہے۔بی بی خدیجہ صنف نسواں میں سب سے پہلے نہ فقط ایمان لائیں بلکہ اپنی تمام تر دولت رسول خدا کے سپرد کردی تا کہ اس سے ضعیف اور نادار مسلمانوں کی مدد ہوسکے۔
جنت المعلّٰی میں دوسری اہم قبر حضرت ابوطالب کی ہے جو سپر بن کر رسول خدا کی حفاظت کرتے رہے۔
تاریخ اسلام شاہد ہے کہ جس سال ام المٶمنین حضرت خدیجہ اور حضرت ابوطالب کا انتقال ہوا رسول خدا نے اس سال کو ”عام الحزن“ یعنی غم کا سال قرار دیا تھا ۔انکے انتقال کے بعد پھر مکہ رہنے کے قابل نہ رہا اور آپ ص نے وہاں سے ہجرت کی تھی۔
مدینہ مبارکہ میں رسول خدا کے چچا سید الشھدا جناب حمزہ اور جنگ احد کے دیگر شہدا کی قبور بھی ویرانے کی شکل میں یہاں موجود ہیں ۔جناب حمزہ کا جگر ابوسفیان کی بیوی (۔معاویہ کی ماں ، یزید کی دادی ہندہ نے چبایا تھا)۔

جنت المعلیٰ کی موجودہ حالت

انیسویں صدی کے اواخر اور بیسویں صدی کے آغاز میں اسلام دشمنوں نے دین اسلام کو دنیا سے ختم کرنے کی ایک عالمی کوششوں کا سلسلہ شروع کیا جس کے تحت برصغیر میں مرزائیت یا قادیانیت ، ایران میں بہائیت، سوڈان میں مھدویت ، لیبیا میں سنوسی ، نائجیریا میں فلافی ، انڈونیشیا میں پادری ،جبکہ حجاز میں وہابیت کو باقاعدہ منظم انداز میں فروغ دینا شروع کیا۔
محمد ابن عبدالوہاب پیدائشی حنبلی تھا، مدینہ منورہ میں ابتدائی تعلیم کے بعد بغداد ، بصرہ ، دمشق ، ہمدان اور قم میں تعلیم حاصل کرتا رہا بعد میں قرآن و حدیث میں ذاتی نظریات کے ذریعے مسلمانوں کے درمیان مسلمہ عقائد کے خلاف بولنے لگا جس پہ اہل سنت علما نے اسو اپنی درسگاہ اور علاقوں سے نکال دیا تو یہ سرزمین نجد چلا گیا۔

اس وقت محمد بن سعود اپنے قبیلہ کا سربراہ اپنی مختصر سلطنت کو وسعت دینے کی تگ و دو کررہا تھا۔ دونوں کی ملاقات میں کافی ہم آہنگی ہوئی اسی دوران برطانیہ سلطنت عثمانیہ اور مسلمانوں کو زمینی و عقائدی طور پر ٹکڑے ٹکڑے کرنے کی پالیسی پہ گامزن تھا لذا انھوں نے محمد بن سعود کو ہرطرح کی مدد کا وعدہ کیا اور انکی پشت پناہی کے سبب محمد بن سعود نے نجد سے حجاز تک فتح کرلیا اور حکومت قائم کی ۔برطانیہ نے یہاں تک طےکر کے دیا کہ حکومت آل سعود کی جبکہ قضاوت ومذہبی عہدے آل وہاب کے ہونگے یہ کبھی ایک دوسرے کے معاملات میں مداخلت نہیں کرینگے ۔ آقا کے اس فیصلے پر انکی نسلیں اب بھی کاربند اور انکی جی حضوری و نمک حلالی میں مصروف و مگن ہیں۔ ان لوگوں نے مدینہ و مکہ میں شیعہ علما کے علاوہ ایک دن میں پانچ سو کے قریب اہل سنت کے جید علما کرام کو قتل کیا۔
محمد بن عبدالوہاب اور محمد بن سعود اور برطانوی حمایت سے حجاز سے سنیوں کا صفایا کر کے وہابیت کی داغ بیل ڈالی گئی۔ محمد بن سعود کا اصل نام محمد ہونے کے باوجود سرزمین وحی کو محمدیہ رکھنے کے بجائے سعودیہ رکھ دیا۔
محمد بن عبدالوہاب کا نام محمد ہونے کے باوجود انکےخود ساختہ مکتب کو بھی محمدیہ کے بجائے باپ کے نام پر وہابی رکھ دیا
یہ بات اس وقت سمجھ میں آتی ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ محمد بن سعود نے محمد بن عبدالوہاب کے فتوی پر جنت البقیع میں موجود انبیا۔ ، اوصیا ، آئمہ ، اصحاب کرام اور امہات المومنین کے گنبد اور بنے ہوۓ مزارات کو منہدم کردیا۔۔۔یعنی یہ صدر اسلام کے کسی بھی نشانی کو باقی رکھنا نہيں چاہتے تھے۔
وہ مزارات و قبور جو تقریبا ساڑھے تیرہ سو سال سے مسلمانوں کو صدر اسلام کے جانثاروں اور وفاداروں کی بے لوث قربانیوں کی یاد دلاتے تھے ، جن کی زیارت سے مسلمانوں کا ایمان تازہ ہوا کرتا تھا ۔جو شعائرالہی کے مصادیق میں سےکچھ مصداق بنے ہوئے تھے مسمار کر دئے گئے۔

ابن سعود۔ اس کے حکم پر بقیع اور معلیٰ کے مزارات منہدم کئے گئے

جس وقت جنت البقیع کو ڈھایا گیا تھا تمام عالم اسلام سراپا احتجاج ہوگیا تھا ۔ترکی میں اتاترک اور نجدیوں کے ذریعے خلافت عثمانیہ کو ختم کیا گیاتو برصغیر کے تمام مسلمان تحریک خلافت چلا رہے تھے ۔ اسی دوران ہندستان میں خلافت کمیٹی بنائی گئی۔ مولانا محمد علی جوہر نے برصغیر کے مسلمانوں کے ایمانی جذبات کی ترجمانی کرتے ہوئے نجد کے حاکم کو احتجاجی خط بھی لکھا ۔ مسلمانان عالم کے احتجاج اور قطیف کے شیعوں کا بروقت مدینہ پہنچنے اور مزاحمت کرنے کی وجہ سے رسول خدا کا روضہ مبارک شھید ہونے سے تو بچ گیا مگر آج بھی کسی کو وہاں جالی کو چھونے یا عقیدت سے چومنے کی اجازت نہیں ہے۔۔ قطیف کے شیعہ ابھی تک رسول خدا کے روضے کو بچانے کی سزا بھگت رہے ہیں۔

Related posts

”تمہیں کہو کہ یہ انداز گفتگو کیا ہے“۔۔سراج نقوی

qaumikhabrein

شہید ثالث کو آج ہی کے روز شہید کیا گیا تھا۔

qaumikhabrein

الیکٹرانک جنگ کے محاذ پر ایران کی تیاری

qaumikhabrein

Leave a Comment