
واشنگٹن صہیونی حکومت کو ہتھیار فراہم کرکے غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی پر مبنی جنگ کی آگ کو مزید بھڑکا رہا ہے۔غزہ جنگ میں اسرائیل کی کھلم کھلا حمایت اب امریکہ کو مہنگی پڑنے لگی ہے۔ شام اور عراق میں اسکے فوجی اڈوں پر حملوں میں یکایک اضافہ ہو گیا ہے۔ان حملوں میں امریکہ کے کئی فوجی ہلاک اور جنگی ساز و سامان کا بڑے پیمانے پر نقصان ہوا ہے۔ مسلم ملکوں میں امریکی مفادات کونقصان پہونچنے کے اندیشے ظاہر کئے جارہے ہیں۔وہ وقت بھی آسکتا ہیکہ امریکہ کو عراق اور شام سے اپنے فوجیوں کو ہٹانے پر مجبور ہونا پڑے۔

تاریخ شاہد ہیکہ امریکہ نے ہر موقع پر اسرائیل کی مدد کی ہے۔اقوام متحدہ میں امریکہ نے کبھی بھی اسرائیل کے خلاف مزمتی بیان تک جاری ہونے نہیں دیا۔امریکہ نے شاید اپنے مفادات کی حفاظت کے لئے اقوام متحدہ میں اپنے خصوصی اختیار ویٹو کا استعال اتنی مرتبہ نہ کیا ہوگا جتنی مرتبہ اسرائل کو ہزیمت سے بچانے کے لئے کیا۔اب تک امریکہ اسرائیل کے دفاع میں34 مرتبہ ویٹو کا استعمال کرچکا ہے۔7 اکتوبر کو اسرائیل پر حماس کے حملے کے بعد امریکہ ہتھیاروں ، سفارتی اور اخلاقی حمایت کے ساتھ اسرائیل کی مواقفت میں جنگ کے میدان میں آگیا ہے۔اسرائل کی حفاظت کے لئے اس نے جدید ترین جنگی ساز و سامان کا اسرائل میں ڈھیر لگا دیا ہے۔بحیرہ روم میں اس نے اپنے دیو ہیکل جنگی جہاز تعینات کر دئے ہیں۔غزہ پر بھیانک بمباری ، فلسطینی مردوں، خواتین اور بچوں کے بے دریغ قتل سے لیکر مکانوں، اسپتالوں، تجارتی مراکز کی تباہی اور پانی، بجلی، ایندھن ،خوراک اور دواؤں کی رسائی پر پابندی تک اسرائل کے ہر جرم کی امریکہ بے حیائی اور بے غیرتی کے ساتھ حمایت کررہا ہے۔

اسکا نتیجہ یہ ہوا ہیکہ غزہ جنگ کے شعلوں کی آنچ اب خود اسکے مفادات تک کو جھلسانے لگی ہے۔عراق اور شام میں اسکے فوجی اڈوں پر مزاحمتی قوتوں نے حملے تیز کردئے ہیں۔ڈرون اور میزائل حملوں میں امریکہ کے متعدد فوجی ہلاک ہو چکے ہیں اور فوجی اڈوں میں جمع ہتھیاروں کے ذخیرے تباہ ہو رہے ہیں۔عراق میں مزاحمتی قوتوں کے اصل نشابے پر عین الاسد فوجی چھاؤنی ہے۔ امریکہ کا یہی وہ فوجی اڈہ ہےجو ایرانی فوجی جنرل قاسم سلیمانی اور عراق کی مزاحمتی فورس حشد الشعبی کے ڈپٹی کمانڈر ابو مہندس مہدی کے فضائی حملے میں قتل میں ملوث تھا۔ ایران نے انتقامی کاروائی کرتے ہوئے عین الاسد فوجی چھاؤنی پر حملہ کیا تھا۔ قاسم سلیمانی اور ابو مہدی کی ہلاکت کے بعد عراق بھر میں امریکہ کے خلاف غصہ بھڑک اٹھا تھا۔امریکی فوج کی عراق سے واپسی کا مطالبہ شدید ہو گیا تھا۔ حتیٰ کہ عراقی پارلیمنٹ ایک قرارداد منظور کرکے عراق سے امریکہ کے انخلا کا مطالبہ کر چکی ہے۔لیکن امریکہ ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے عراق سے نہ ہٹنے کے لئے مختلف حیلے بہانے بناتارہا ہے۔عراقی حکومت کا رویہ بھی اس سلسلے میں ڈھیلا ڈھالا رہا ہے لیکن غزہ میں اسرائلی مظالم اور امریکہ کے ذریعے ان مظالم کی حمایت نے عراق میں ایک بار پر مزاحمتی طاقتوں کو امریکہ کے خلاف سرگرم کردیا ہے۔

عراق کی المعلومہ نیوز ایجنسی نے ایک باخبر سیکورٹی ذریعے کے حوالے سے بتایا ہے کہ امریکا کی عین الاسد فوجی چھاؤنی پر عراق کے اسلامی استقامتی گروہوں کے میزائل اور ڈرون حملوں میں متعدد امریکی فوجی ہلاک اور زخمی ہوئے ہیں ۔ ہلاک ہونے والوں میں ایک غیر ملکی کنٹریکٹ فوجی ہے اور دو ریگولر امریکی فوجی بھی شامل ہیں اور زخمی ہونے والے سبھی فوجی امریکی ہیں۔مذکورہ سیکورٹی ذریعے نے بتایا ہے کہ امریکا کی عین الاسد فوجی چھاؤنی پر ان حملوں میں چھاؤنی کا ایک واچ ٹاور تباہ ہوگیا، ایک رن وے کو نقصان پہنچا اور چھاؤنی کی کچھ عمارتوں میں آگ لگ گئی ۔ عراق کے اسلامی استقامتی گروہوں نے اعلان کیا ہے کہ غزہ کے مظلوم عوام پر غاصب صیہونی حکومت کے وحشیانہ حملوں کی امریکا کی جانب سے حمایت کے جواب میں مغربی عراق میں عین الاسد امریکی فوجی چھاؤنی اور شمالی عراق میں الحریر فوجی اڈے پر میزائل اور ڈرون حملے کئے گئے ہیں۔عراق کے ان استقامتی گروپوں نے شام میں بھی امریکی عسکری اڈوں کو نشانہ بنایا ہے۔شام میں امریکی قبضے کے دو ٹھکانوں، “العمر فیلڈ” اور “الشدادی” کو نشانہ بنایا گیا۔23 اکتوبر کو عراق کی اسلامی مزاحمت نے صوبہ حسکہ میں امریکی فوجی اڈے پر خودکش ڈرون کے ذریعے حملہ کیا۔۔شام کے “خارب الجیر” میں امریکی قبضے کے ایک اڈے کو نشانہ بنائے جانے کی خبریں ملی ہیں۔حملے کے نتیجے میں الشدادی اڈے پر آگ لگ گئی تھی۔شام میں ہی امریکی فوجیوں کی رہائش گاہ التنف بیس پر بیک وقت دھماکے بھی کئے گئے تھے۔ شام میں بل کونوکو گیس کی تنصیب کو بھی ڈرون کا نشانہ بنایا گیا۔

امریکہ کے پاس خفیہ جانکاری ہیکہ مزاحمتی فورسز مشرق وسطیٰ میں امریکی افواج کے خلاف حملوں کو تیز کرنے کی منصوبہ بندی کر رہی ہیں۔ پینٹاگون نے آنے والے دنوں میں امریکی افواج پر حملوں میں وسیع پیمانےپر اضافے پر تشویش ظاہر کی ہے۔جنگ کے ممکنہ طور پر پورے مشرق وسطیٰ تک پھیلنے کی وجہ سے واشنگٹن نےمقبوضہ فلسطینی علاقوں لبنان اور خطے کے دیگر ممالک سے 600,000 امریکیوں کو نکالنے کا منصوبہ تیار کرلیا ہے۔موصولہ خبروں کےمطابق امریکی وزارت خارجہ نے امریکی مفادات اور ملازمین کے خلاف بڑھتے ہوئے سیکورٹی خدشات کے پیش نظر، بغداد میں امریکی سفارتخانےاور کردستان کے اریبل میں امریکی قونصل خانے میں موجود غیر ضروری اور اضافی سفارتکاروں اور ملازمین کی فیملی کو عراق سے نکل جانے کو کہا ہے۔
عراقی عوام ، مختلف شہروں میں وسیع پیمانے پر مظاہرے کرکے فلسطینی عوام کے خلاف غاصب صیہونی حکومت کے جرائم کی مذمت کررہے ہیں۔اسرائل کے انسانیت سوز جرائم کی امریکی حکمرانوں کی جانب سے بے دریغ حمایت پر عراقی بری طرح بھڑکے ہوئے ہیں۔امریکی فوجیوں کے عراق سے نکل جانے کا انکا مطالبہ شدید ہوتا جارہا ہے۔

جنرل قاسم سلیمانی اور ابو مہدی کی امریکی حملے میں ہلاکت کے بعد امریکہ کے خلاف عراقی عوام کا جو غصہ بھڑکا تھا اس کوغزہ جنگ نے مزید تیز کردیا ہے۔عوام کے دباؤ میں اس بار عراقی حکومت کو بھی امریکی انخلا کے بارے میں سخت موقف اختیار کرنا پڑیگا۔ امریکی فوجی اڈوں پر حملوں میں اضافہ اور انخلا کے لئے دباؤ کے سبب وہ وقت بھی آسکتا ہے کہ امریکہ کو عراق اور شام سے اپنا بوریا بستر لپیٹنا پڑے۔
جمال عباس فہمی کی تحریر