فلسطینیوں کو ان کے وطن سے محروم کرنے کی سازش کے تحت اسرائیل نے مقبوضہ علاقوں میں نئی رہائشی پستیاں بسانے کو منظوری دی ہے۔اسرائیل طویل عرصے سے اسی طرح آہستہ آہستہ فلسطینی علاقوں پر قبضہ کرتا رہا ہے اور فلسطینیوں کے لیے عرصہ حیات کے ساتھ ساتھ زمین بھی تنگ کرتا رہا ہے۔گزشتہ بدھ کو اسرائیل نے بیت المقدس کے علاقے میں 3500نئے رہائشی یونٹ تعمیر کرنے کا اعلان کیا ہے۔دنیابھر سے اسرائیل پر جنگ بندی کے لیے پڑنے والے دباؤ کے درمیان اسرائیل کا یہ فیصلہ تنازعہ مزید بڑھانے کی اس کی نیت کی طرف اشارہ کرتا ہے ۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اسرائیل آزاد فلسطین کے معاملے پر جس ہٹ دھرمی کا شکار ہے اس کا علاج پر امن مذاکرات سے ہونا ناممکن نہ سہی لیکن بیحد مشکل ضرور ہے۔
گزشتہ ماہ میں فلسطینی علاقوں پر قابض اسرائیلی حکام اور وہاں رہ رہے اسرائیلی آبادکاروں نے فلسطینیوں پر 1195حملے کیے۔ان حملوں میں اسرائیلی فوج کے ساتھ اسرائیلی آبادکاروں کا بھی شامل ہونااس بات کا ثبوت ہے کہ اسرائیل خطے میں پائدار امن کے خلاف ہے اور فلسطینیوں کے زیادہ سے زیادہ علاقوں پر قبضہ کرکے ایک آزاد اور خود مختار فلسطین کے سوال کو ہمیشہ کے لیے ختم کر دینے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔اپنی اس سازش میں اسرائیل اور اس کے کندھے سے کندھا ملا کر کھڑا امریکہ کس حد تک کامیاب ہوتے ہیں یہ تو وقت بتائیگا،لیکن فی الحال جو صوتحال ہے اس میں اسرائیل کا مقبوضہ علاقوں میں نئی بستیاں بسانے کا فیصلہ جنگ کے شعلوں کو مزید بھڑکانے اور جنگ بندی کی کوششوں کو مٹاثر کرنے کا سبب بن سکتا ہے۔دیوار فاصل اور مزاحمتی کمیشن کے سربراہ موید شعبان نے اسرائیل کے اس فیصلے پر سخت ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ نوآبادیاتی قابض ریاست یعنی اسرائیل کے اقدامات نے ایک خطرناک تعزیری اور انتقامی شکل اختیار کر لی ہے۔شعبان نے اسرائیل کے اس فیصلے کے وسیع تر اثرات پر بھی روشنی ڈالی۔دوسری طرف حماس نے اسرائیل کے اس فیصلے پر اپنے سخت رد عمل میں کہا ہے کہ،صہیونی قابض حکام کی جانب سے مقبوضہ بیت المقدس شہر کے جنوب میں ہماری مقبوضہ اراضی پر قائم کی جانے والی بستیوں میں تقریباً 3500نئے آبادکاری یونٹ کی تعمیر کی منظوری اس بات کا ثبوت ہے کہ اسرائیل ایک سوچی سمجھی سازش ا ورمنصوبے کے تحت فلسطینی ریاست کے قیام کی راہ روک رہا ہے۔
حماس نے صہیونی ریاست کے اس فیصلے کو عالمی قوانین کی صریح خلاف ورزی قرار دیا ہے اور صاف کہا ہے کہ یہ فیصلہ فسطائی صہیونی حکومت کے ذریعہ فلسطینیوں کی نسل کشی اور ایک آزاد ریاست کے ان کے بنیادی حق کی نفی کے مترادف ہے۔حماس کا کہنا ہے کہ اس نے اقوام متحدہ اور متعلقہ فریقوں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ مجرم ریاست اور اس کے نازی لیڈران کے خلاف تعزیری اقدامات کریں۔
حماس نے خطے میں کشیدگی پیدا کرنے والے ایسے تمام اقدامات کے تعلق سے خاموش رہنے والوں کو متنبہ بھی کیا اور کہا کہ اس سے خطے میں کشیدگی بڑھیگی۔حالانکہ اسرائیل کی سپریم کونسل برائے منصوبہ بندی و تعمیرات کے اس فیصلے کی عالمی برادری نے مذمت کی ہے لیکن اس کی برائے نام بھی امید نہیں کہ اسرائیل پر ا س طرح کی مذمت کا کوئی اثر پڑیگا۔مغربی کنارے پر ایک طویل عرصے سے اسرائیل اس طرح کی توسیع پسندانہ کارروائیاں کرتا رہا ہے۔
مغربی کنارے پر اسرائیل نے 6جون 1967کی چھ روزہ جنگ کے بعد سے قبضہ کرنا شروع کیا تھا۔اس جنگ کے بعد اسرائیل نے مغربی یروشلم سمیت مغربی کنارے پر اپنا ناجبراً قبضہ کرکے وہاں اپنی بستیاں بسانے کا عمل شروع کیا تھا۔یعنی برطانیہ کی سازشوں کے نتیجے میں جس اسرائیل کا قیام1948میں ہوا تھا اس کے توسیع پسندانہ عزائم کا اظہار 1967میں ہی ہو گیا تھا،لیکن نہ تو کسی پڑوسی مسلم حکومت میں اتنی ہمت تھی کہ وہ اسرائیل کو اس توسیع پسندی سے روکتی اور نہ ہی امریکہ،برطانیہ یا کسی مغربی ملک نے صہیونیوں کو ان کوششوں سے باز رکھنے کے معاملے میں فلسطینیوں کی مدد کی۔بلکہ ایسے معاملوں میں اسرائیل کو کسی ضدی اور بگڑے ہوئے بچے کی طرح ضد پوری کرنے کی چھوٹ دی جاتی رہی،اور فلسطینیوں کی سرزمین کو غصب کرنے کے ؎خطرناک عمل کو صرف زبانی طور پر اسرائیل کو متنبہ کرنے تک ہی محدود رکھا گیا۔نتیجہ سامنے ہے۔یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ماضی میں اسرائیلی سپریم کورٹ بھی مشرقی یروشلم کو چھوڑ کر باقی مغربی کنارے کو ایک مقبوضہ علاقہ مان چکی ہے اور بین الاقوامی عدالت بھی اس کی توثیق کر چکی ہے۔صہیونی حکومت بھی اس علاقے کو متنازع تو مانتی رہی ہے لیکن مقبوضہ علاقوں میں اپنی آبادی بڑھانے اور نئی بستیاں بسانے کو انتہائی عیاری سے غیر قانونی قبضہ تسلیم کرنے سے بھی گریز کرتی رہی ہے۔ہر چند کہ بین الاقوامی برادری اسرائیل کے مغربی کنارے پر قبضے کو غیر قانونی ہی مانتی ہے لیکن اس کے باوجود اسرائیل کو یہ علاقے خالی کرنا تو کجا،اس پر نئی بستیا بسانے سے بھی نہیں روکا جا سکا ہے۔حتیٰ کہ اقوام متحدہ سلامتی کونسل تک اس علاقے پر اسرائیلی قبضے کو کئی مرتبہ غیر قانونی قرار دے چکی ہے،اور یہاں نئی بستیاں بسانے کی اسرائیل کی اب تک کی تمام کوششوں کو ”بین الاقوامی قانون کی صریح خلاف وزی“قرار دے چکی ہے،چند سال پہلے تک امریکہ بھی مغربی کنارے کی ان یہودی بستیوں کو غیر قانونی قرار دیتا رہا ہے لیکن ان تما م باتوں کا کیا نتیجہ نکلا یہ بتانے کی ضرورت نہیں۔البتہ صورتحال بد سے بد تر ہوئی ہے۔امریکہ جو2019تک مغربی کنارے کی ان بستیوں کو غیر قانونی مانتا رہا اس نے بھی اسرائیل کی توسیع پسندی کی حمایت میں ایک اور قدم آگے بڑھتے ہوئے ان بستیوں کو غیر قانونی ماننے کے اپنے موقف کو تبدیل کر دیا۔2019میں امریکی وزیر خارجہ مائک پومپیو نے کہا تھا کہ امریکہ اب ان بستیوں کو بین الاقوامی قوانین کے خلاف نہیں مانتا۔
آج اسرائیل پر حماس کے 7اکتوبر کو کیے گئے حملے کو کچھ ممالک بلکہ سچ یہ ہے ک بیشتر ممالک حماس کی دہشت گردی سے تعبیر کرتے ہیں،لیکن حماس کو اسرائیل کے خلاف صف آرا کرنے میں ان ممالک کی جانبدارانہ پالیسیوں کا کیا رول رہا ہے یہ مذکورہ بالا تفصیل سے واضح ہو جاتا ہے۔اسی کا نتیجہ ہے کہ اسرائیل نے امریکہ کی پشت پناہی کے سبب عالمی رائے عامہ کو نظر انداز کرتے ہوئے ایک مرتبہ پھر2021میں فلسطینی علاقوں میں نئی اسرائیلی بستیاں بسانے کو منظوری دیتے ہوئے غرب اردن کے علاقے میں 365نئے مکانات کی تعمیر کی منظوری کے ساتھ ساتھ 415نئے مکانات کے ایک نئے منصوبے کو بھی منظوری دی۔یہ تمام وہ علاقے ہیں جنھیں فلسطینی اپنی آزاد ریاست کا اہم مرکزی حصہ مانتے ہیں۔واضح رہے کہ امریکہ کی ٹرمپ حکومت کے دور کے اواخر میں اسرائیل نے مقبوضہ مغربی کنارے پر نئی بستیاں بسانے کی سازشوں کو بہت تیزی سے عملی جامہ پہنایا اور اس دور میں بارہ ہزار نئے مکانات کی تعمیر کو منظوری دی گئی،لیکن عالمی برادری ان تمام معاملات پر منافقانہ خاموشی اختیار کیے رہی۔
ان حالات نے ہی فلسطینیوں کو اس بات کا یقین دلا دیا تھا کہ اب اپنی لڑائی کسی مبینہ عالمی برادری یاکسی نام نہاد عرب لیگ جیسی تنظیم کی حمایت کے سہارے نہیں لڑنی۔7اکتوبر کا حماس کے ذریعہ اسرائیل پر کیا گیا حملہ اس کا منطقی نیتجہ تھا۔بہرحال ایسے حالات میں کہ جب جنگ بندی کے لیے عالمی برادری کا اسرائیل پر دباؤ ہے،نئی یہودی بستیاں بسانے کا نیتن یاہو حکومت کا فیصلہ فلسطینیوں کے آزاد ریاست کے خواب کو روبہ عمل ہونے سے روکنے کی ایک اور مجرمانہ و توسیع پسندانہ کوشش ہے۔ اسی لیے حماس نے اسرائیل کے اس فیصلے کو فلسطینی ریاست کی راہ روکنے کی کوشش قرار دیا ہے۔
sirajnaqvi08@gmail.com Mobile:9811602330