صیہونی حکومت کی جیلوں میں 4900 فلسطینی قیدی اذیتیں برداشت کررہے ہیں۔ فسطین کی تنظیموں نے ایک رپورٹ میں یہ دعویٰ کیا ہے۔۔ اس رپورٹ سے یہ غیر انسانی حرکت بھی سامنے آئی ہیکہ جیلوں میں مرنے والے بارہ قیدیوں کی لاشیں انکے ورثا کے حوالے نہیں کی گئی ہیں۔
اس رپورٹ کو قیدیوں اور رہائی پانے والے افراد کی تنظیم، فلسطینی قیدیوں کی انجمن، “الضمیر” (قیدیوں کے شعبے میں سرگرم تنظیم) اور “وادی حلوہ” انسانی حقوق کی کمیٹی نے جاری کیا ہے، اس رپورٹ کے مطابق اسرائیلی جیلوں میں 4900 مرد و خواتین قید ہیں ۔اور ان میں 700 بیمار ہیں۔
جیلوں میں فلسطنی قیدیوں کو اذیتیں دی جاتی ہیں۔ اذیت رسانی کے نتیجے میں متعدد قیدی جیلوں میں دم توڑ چکے ہیں۔ اذیتو کے نتیجے میں ہلاک ہوئے 12 قیدیوں کی لاشیں صیہونی حکومت نے ابھی ان کے لواحقین کے حوالے نہیں کی ہیں۔۔ اس رپورٹ میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ دنیا کی کسی بھی حکومت میں قیدیوں کی لاشوں کو یرغمال بنانا بدترین جرم ہے ۔
اس رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ 4900 قیدیوں میں سے 31 خواتین، 18 سال سے کم عمر کے 160 بچے ہیں۔ اس کے علاوہ، ایک ہزار سے زیادہ دیگر قیدی انتظامی حراست میں ہیں، جن میں سے چھ کی عمریں 18 سال سے کم ہیں۔ انتظامی حراست سے مراد ایسی صورت حال ہے جس میں کسی شخص کو بعض اوقات مہینوں اور سالوں تک بغیر کسی الزام اور مقدمہ چلائے حراست میں رکھا جاتا ہے، یہاں تک کہ بہت سے قیدی اس صورتحال سے چھٹکارا پانے کے لیے طویل مدتی بھوک ہڑتال کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔۔ بین الاقوامی اور انسانی حقوق کی تنظیمیں صیہونیوں کے اس اقدام کی بارہا مذمت کر چکی ہیں۔
اس رپورٹ کے مطابق1993 کے اوسلو معاہدے سے پہلے سے 23 قیدی جیلوں میں ہیں۔ ان میں سے 11 کو 2011 میں قیدیوں کے تبادلے کے دوران رہا کیا گیا تھا جنہیں صیہونیوں نے دوبارہ گرفتار کر لیا تھا، ان میں سب سے نمایاں شخصیت نائل البرغوثی کی ہے جو 43 سال سے جیل میں ہیں۔
554 قیدیوں کو عمر قید کی سزا سنائی جا چکی ہے۔ حتیٰ کہ عمر قید کے قیدیوں کی موت کے بعد بھی صہیونی ان کی لاشیں ان کے وارثوں کے سپرد نہیں کرتے۔ 1980 سے اب تک جیلوں میں مرنے والے 12 قیدیوں کی لاشیں ان کے اہل خانہ کے حوالے نہیں کی گئی ہیں۔