جنگ بندی کے دوران حماس کے ہاتھوں یرغمال بنائے گئے اسرائیلی باشندوں اور غیر ملکیوں کی رہائی کے بدلے اسرائل اپنی جیلوں میں بند فلسطینی خواتین بچوں اور مردوں کو رہا کرہا ہے۔ اسی بیچ اسرائل کی ایک اور ظالمانہ حقیقت سامنے آئی ہے۔اسرائیلی جیلوں میں قید فلسطینیوں کے حقوق کے حوالے سے کام کرنے والے سماجی کارکنوں کا کہنا ہےکہ اسرائیل نہ صرف زندہ فلسطینیوں کو قیدکرتا ہے بلکہ مرنے والوں کو بھی نہیں بخشتا۔ وہ فلسطینی جو اسرائیلی قید میں تشدد یا بیماری سے فوت ہو جاتے ہیں، ان کی لاشیں لواحقین کے سپرد نہیں کی جاتیں بلکہ ریفریجریٹر میں رکھ دی جاتی ہیں تاکہ فوت شدہ کی بقیہ رہ جانے والی قید کی سزا مکمل کی جا سکے۔ اب تک 398 فلسطینی اسرائیلی جیلوں میں انتقال کرچکے ہیں۔
بتایا جاتا ہیکہ صرف حالیہ کچھ عرصے میں 142 فلسطینی اسرائیلی جیلوں میں جان کی بازی ہار چکے ہیں جن میں سے اکثریت نوجوانوں اور بچوں کی ہے ان کی لاشوں کو سزا پوری کرنے کے لیے ریفریجریٹر میں رکھا گیا ہے۔ یہ اخلاق سوز سلوک خصوصی طور پر فلسطینی قیدیوں کے ساتھ روا رکھا جاتا ہے، اسرائیلی یہودی قیدیوں کے لیے ایسا کوئی قانون نہیں ہے۔
رپورٹ کے مطابق ناجائز صیہونی انتظامیہ متعدد فلسطینی قیدیوں کی لاشوں کو بے نام قرار دے کر انہیں دفن کرچکی ہے اور قبروں پر نام کے بجائے ان کے نمبر لکھ دئےگئے ہیں، ریفری جریٹروں میں بہت سی لاشیں ایسی ہیں جو 40 سال سے زیادہ عرصے سے وہاں رکھی ہیں۔ گزشتہ سالوں میں صیہونی انتظامیہ 260 سے زائد فلسطینی شہدا کو اپنے مخصوص قبرستان میں دفن کرچکی ہے۔
اسرائیل کی ناکائز انتظامیہ کا یہ گھناؤنا جرم سالہاسال سے جاری ہے اور فلسطینی خاندان ہر سال 27 اگست کو اپنے پیاروں کی لاشیں واپس کرنے کے مطالبے کا دن بھی مناتے ہیں۔
خیال رہے کہ جنیوا کنونشن کے تحت جنگ کے فریقین کو پابند کیا گیا ہےکہ وہ مخالفین کی لاشوں کی باعزت طریقے سے تدفین کریں گے اور جتنا ممکن ہو ان کے مذہب کے مطابق آخری رسومات پر عمل کریں گے، ان کی قبروں کی مناسب دیکھ بھال کے ساتھ اس طرح کا انتظام کیا جائے گا کہ ان کی ہمیشہ نشاندہی ہوسکے۔