سابق وزیر دفاع علی رضا اکبری کو برطانوی خفیہ ایجنسی کے لیے جاسوسی کے جرم میں پھانسی دے دی گئی۔علی رضا اکبری ماضی میں متعدد نہایت اہم عہدو ں پر فائز رہے تھے۔مہر خبر رساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق علی رضا اکبری کو انٹیلی جنس فورسز نے غیر ملکی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے لیے جاسوسی کے جرم میں گرفتار کیا تھا۔سرکاری ذرائع کا دعویٰ ہیکہ اکبری کے مقدمے کی سماعت ان کے وکیل کی موجودگی میں ہوئی اور موت کی سزا “ٹھوس ثبوتوں” کی بنیاد پر جاری کی گئی۔ ایران کی سپریم کورٹ نے اپیل کی درخواست کے بعد سزا کو برقرار رکھا۔
ایران کی وزارت انٹیلی جنس نے اکبری اور اس کی گرفتاری کے بارے میں مزید تفصیلات فراہم کی ہیں۔یرانی خفیہ اداروں نے اکبری کو ملک کے حساس اور اسٹریٹجک مراکز میں برطانیہ کی جاسوسی سروس کے سب سے زیادہ دراندازی کرنے والے ایجنٹوں میں سے ایک کے طور پر نامزد کیا۔ اکبری آٹھ سالہ دفاع مقدس کے دوران 70 مہینے محاذ جنگ میں رہے اور وزارت دفاع کے شعبہ خارجہ تعلقات کے سابق نائب، سپریم نیشنل سیکیورٹی کونسل کے سیکریٹریٹ کے سابق ملازم، سربراہ بحریہ کے سابق مشیر، وزارت دفاع کے تحقیقی مرکز کے دفاع اور سلامتی کے شعبے کے سابق سربراہ، قرارداد 598 کے نفاذ کے لیے فوجی تنظیم کے سابق سربراہ، وزارت دفاع کے شعبہ دفاعی مطالعات کے سابق سربراہ، وزیر دفاع کے اسٹریٹجک امور کے مشیر اور صدارتی اسٹریٹجک ریسرچ سینٹر میں فعالیت جیسے اہم عہدوں پر کام کرتے رہے۔
اکبری نے اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد دو نجی تحقیقی اور اقتصادی کمپنیاں قائم کیں۔ برطانیہ کی جانب سے اکبری کو خصوصی مراعات حاصل تھیں۔ انہیں خصوصی طور پر اور وی آئی پی اسٹیس کے ساتھ برطانیہ کا ویزا جاری کیا گیا۔ جبکہ برطانوی شہریت بھی دی گئی۔
اکبری رٹائرمنٹ کے بعد ایران کے حساس مراکز جیسے کہ سپریم نیشنل سیکورٹی کونسل، وزارت دفاع، مسلح افواج کے جنرل اسٹاف، اور سپاہ پاسداران انقلاب کے ساتھ رابطے قائم کرتا تھا جس کا مقصد ان حساس اداروں کی معلومات حاصل کرنا اور انہیں برطانوی خفیہ ادارے MI6 کو فراہم کرنا تھا۔
برطانوی وزیر اعظم رشی سوناک نے جاسوسی کے جرم میں سابق ایرانی اہلکار علیرضا اکبری کی پھانسی پر ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ برطانوی وزیر اعظم رشی سوناک نے ٹویٹ کیا کہ میں ایران میں برطانوی-ایرانی شہری علی رضا اکبری کی پھانسی سے حیران ہوں۔