qaumikhabrein
Image default
ٹرینڈنگسیاستقومی و عالمی خبریں

‘یوروپی سیکورزم‘سے بیزاری یا ’ہندوتو‘سے وفاداری؟۔۔ سراج نقوی

تمل ناڈو کے گورنر آر این روی نے خیال ظاہر کیا ہے کہ ”سیکولرزم کا تصور ایک’یوروپی تصور‘ہے اور اسے وہیں تک رہنا چاہیے۔کیونکہ ہندوستان میں اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔“گورنر موصوف کو اگر ہندوستان میں سیکولرزم غیر ضروری لگتا ہے تو اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ وہ اس ملک کو مختلف تہذیبوں کا مرکز ماننے کے لیے تیار نہیں۔وہ اس بات کو بھی تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں کہ اس ملک پر ہندوؤں کے علاوہ دیگر مذاہب کے ماننے والوں کا بھی حق ہے اور انھیں دوئم درجے کا شہری نہ بننا پڑے اس لیے سیکورزم کا تصور ہندوستان جیسے ملک کے لیے یوروپ سے بھی کہیں زیادہ ضروری ہے۔ گورنر موصوف شائد یہ کہتے ہوئے ڈرتے ہیں کہ جمہوریت کا تصور بھی یوروپی ہے اس لیے اسے بھی یوروپ تک ہی محدود رہنا چاہیے۔کم از کم بی جے پی اور سنگھ پریوار کے نزدیک تو جمہوریت بھی حصول اقتدار کے حربے سے زیادہ کچھ نہیں اور اگر اقتدار پر قبضہ ہو جائے تو پھر جمہوریت کے گھوڑے کو ’اشو میدھ یگیہ‘ سے باندھ کو پورے ملک پر بزور طاقت اقتدار قائم کرنا بھی جائز ہے۔بی جے پی جس جمہوریت پر چل رہی ہے وہ یوروپی جمہوریت کے تصور سے تو کہیں میل نہیں کھاتا،اور کیونکہ گورنر موصوف تمل ناڈو میں مرکز کے نمائیندے ہیں اس لیے اگر وہ سیکولرزم کے تصور پر سوالیہ نشان لگا رہے ہیں تو اس پر کسی کو حیرت نہیں ہونی چاہیے۔اس بات کو ایک طرف رکھ دیجیے کہ ہمارے آئین میں گورنر ریاست میں آئین کی حکمرانی کا محافظ ہے،اور سیکولرزم اس آئین کا بھی حصہ ہے۔اس اعتبار سے دیکھیں تو گورنر کا بیان آئین کی روح پر بھی چوٹ کرنے کے مترادف ہے۔لیکن یہ بات موجودہ حکمرانوں کے دورِاقتدار میں اس لیے بے معنی ہو جاتی ہے کہ اب تو ہماری عزت مآب صدر جمہوریہ کو مغربی بنگال میں ایک خاتون ڈاکٹر کی اجتماعی آبرو ریزی اور قتل کا واقعہ تو خوف زدہ کرتا ہے لیکن ملک بھر میں مسلمانوں پر ایک تسلسل کے ساتھ ہونے والے بھیانک اور شرمناک مظالم انھیں خوفزدہ تو کیا بے چین بھی نہیں کرتے۔بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ان کے ضمیر پر دستک بھی نہیں دیتے ہیں۔ایسے میں اگر آئینی طور پر ریاست میں صدر جمہوریہ کی نمائندگی کرنے والے گورنر یہ کہتے ہیں تو کم از کم بی جے پی یا اس کی مرکزی حکومت کے لیے اس بیان میں کچھ بھی غلط نہیں۔

لیکن جہاں تک ہندوستان کا تعلق ہے،جہاں تک اس ملک کی کثرت میں وحدت والی تہذیبی  و سماجی اقدار کا تعلق ہے،جہاں تک اس ملک کے ہر شہری کے آئینی و قانونی حقوق کا تعلق ہے تو اس کے لیے سیکورزم کا تصور خواہ یوروپ کا ہو یا دنیا کے کسی دیگر حصے کا، معنی رکھتا ہے۔لفظ ’سیکولرزم‘ کو آپ بھلے ہی نظر انداز کر دیں لیکن اس کے تصور کو نظر انداز کرنا ملک کے آئین اور ہندوستانی تہذیب سے بغاوت کے مترادف ہے۔اس لیے کہ ہندوستان کی موجودہ اور متحدہ شکل کسی ایک گروپ یا مذہب کے ماننے والوں کی مرحون منّت نہیں۔اسے متحد کرنے میں یہاں کے تمام لوگوں نے بلا تفریق مذہب و ملّت قربانیان دی ہیں.جن لوگوں یا ان کے نظریاتی آقاؤں کا اس میں منفی رول رہا ہو انھیں یہ کہنے کا کوئی حق نہیں پہنچتا کہ سیکولرزم کے تصور کی ہندوستان کو کوئی ضرورت نہیں ہے۔اس تصور کی ممکن ہے آر ایس ایس کو ضرورت نہ ہو۔یہ بھی ممکن ہے کہ بی جے پی یا اس ؎؎؎؎؎کے حکمران بھی اس تصور سے روگردانی اختیار کر لیں،لیکن ایسا کہنے والوں یا ان کے نمائیندوں کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ وہ ملک کی70فیصد سے زیادہ عوام پر اپنی رائے نہیں تھوپ سکتے۔اس لیے کہ انھیں اس سے زیادہ لوگوں نے اس الیکشن میں ووٹ نہیں دیا ہے،اور سیکولرزم سے انحراف کی اجازت بھی نہیں دی ہے۔یہ بات حکمراں جماعت کے ہر عہدیدار اور آئینی اہلکار کو سمجھ لینی چاہیے کہ حکومت کی پالیسیاں خواہ کچھ بھی ہوں،لیکن الیکشن کے دوران سیکولرزم ترک کرنے کے ایشو پر ووٹ نہیں مانگے گئے۔

کنیا کماری کے ایک جلسے میں تقریر کرتے ہوئے گورنر موصوف نے کہا کہ”اس ملک کے لوگوں کے ساتھ بہت سے دھوکے کیے گئے،اور ان میں ایک یہ ہے کہ ان کے سامنے سیکولرزم کی غلط تشریح کی گئی۔“گورنر موصوف نے سوال کیا کہ سیکولرزم کا کیا مطلب ہے؟اور پھر خود ہی یہ کہتے ہوئے اس کا جواب دیا کہ”یہ یوروپی تصور ہے،یہ ہندوستانی تصور نہیں ہے۔“یہاں یہ یاد دلانا ضروری ہے کہ ہندوتو کے پیروکار عام ہندو کے برعکس ملک میں غیر اعلانیہ طور پر ’منو واد‘ کے نفاذ کی کوشش میں ایک صدی سے زیادہ عرصے سے سرگرم ہیں۔یہ ’منو واد‘ کیا ہے؟اور اس میں چند اعلیٰ ذات ہندوؤں کو چھوڑ کر باقی کا سماجی رتبہ کس طرح متعین کیا گیا ہے،اسے یہاں دوہرانے کی ضرورت نہیں۔البتہ یہ بات بہرحال واضح ہے کہ چند خاص طبقات یا مذہب کے ماننے والوں کو ہی یہ نظام اوّل درجے کا شہری تسلیم کرنے پر زور دیتا ہے۔ظاہر ہے یہ تصور یوروپ کے اس سیکولرزم سے متصادم ہے کہ جو اس بات کی تلقین کرتا ہے کہ ریاست کا کوئی مذہب نہیں ہوگا اور آئین و قانونی طور پر ہر شہری کو یہ حق ہے کہ دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کے مذہبی و سماجی اختیارات و عقائد کا احترام کرتے ہوئے اپنے مذہب و عقیدے پر عمل پیر ا رہے۔یوروپی سماج میں مسلمانوں سے بڑھتے ہوئے تفریقی اور غیر منصفانہ واقعات کے باوجود یہ حقیقت ہے کہ یوروپی ممالک سیکورزم کے اس تصور کو نظریاتی سطح پر تسلیم بھی کرتے ہیں اور مسلمانوں کی ان ممالک کے اقتدار اعلیٰ میں مناسب حصے داری بھی ہے۔

لیکن اس کے برعکس آزادی کے بعد سے ہی عملی سطح پر مسلمانوں کو ان کے اس حق سے محروم کیے جانے کی سازشیں ہوتی رہی ہیں اور موجودہ حکمرانوں نے کھلے طور پر مسلمانوں کو دوسرے درجے کا شہری بنانے کے لیے قانونی سطح سے لیکر عملی سطح تک جو کوششیں کی ہیں وہ سیکولرزم کے تسلیم شدہ نظریے کو مسترد کرتے ہوئے ملک کو ہندو توکے خطوط پر ڈھالنے کی کوششوں کا ثبوت ہیں۔گورنر موصوف کے مذکورہ بیان کو بھی اسی تناظر میں دیکھا جا سکتا ہے۔اپنے بیان کے حق میں گورنر موصوف دلیل دیتے ہیں کہ،”یوروپ میں سیکولرزم اس لیے آیا کہ وہاں چرچ اور راجہ کے درمیان جنگ تھی،لیکن ہندوستان مذہب سے کیسے دور ہو سکتا ہے؟“ گورنر کی یہ وضاحت اپنے ا ٓپ میں اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ ملک کی غیر ہندو آبادی کے مسائل اور ہندوتو کی سمت گامزن ریاست سے اس کے شدید اختلافات کو ’ہندوتو‘کے چشمے سے دیکھ رہے ہیں اور غیر ہندوؤں کے جمہوری و مساوی حقوق کو تسلیم کرنے سے گریزاں ہیں۔وہ  چاہتے ہیں کہ را جہ اور چرچ کی جنگ کو رد کرنے کے بہانے مسلمانوں اور ہندوتو وادی عناصر کے اختلافات کو بھی دبا دیا جائے۔جبکہ سیکولرزم ان اختلافات کا نوٹس لینے اور اس کا حل تلاش کرنے کی تلقین کرتا ہے۔

تعجب کی بات یہ ہے کہ ایک طرف تو گورنر موصوف سیکولرزم کے یوروپی تصور کو رد کرتے ہیں لیکن دوسری طرف ان کے سیاسی آقا ہٹلر اور مسولنی جیسے یوروپی آمروں سے نظریاتی خوراک حاصل کرکے ہندوستان میں اقلیتوں کے خلاف محاذ آرائی کرنے کی سازشوں میں مصروف ہیں۔دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ سازشیں کرنے میں بھی حکمراں اسی جمہوریت کا سہارا لے رہے ہیں جو دراصل یوروپ کی ہی دین ہے،اور ظاہر ہے اس کا سبب ان کی مفاد پرستی ہی ہے۔جو نظام یا تصور حکمرانی بندوں کو تولنے کے بجائے انھیں گننے پر زور دیتا ہو وہ گورنر موصوف اور ان کے ’بڑوں‘ کو اس لیے درست لگتا ہے کہ اس کے خانے میں اکثریت ہونے کے سبب فٹ آتے ہیں۔سیکولرزم کے یوروپی تصور سے گریزاں گورنر موصوف یا ان کے ’بڑے‘ اس بات پر قطعی شرمندہ نہیں کہ یوروپی سیکولرزم کو رد کرنے کے بہانے وہ ہندو مذہب کی ان اعلیٰ اقدار کو بھی رد کر رہے ہیں کہ جو عدل وانصاف کے مطابق حکمرانی کا تقاضہ کرتی ہیں۔جو ظلم سے روکتی ہیں اور ’کرم‘یعنی عمل کی کسوٹی پر کسی انسان کو پرکھنے کی تلقین کرتی ہیں۔گورنر موصوف شائد یہ ماننے کے لیے تیار نہ ہوں کہ فرقہ پرست طاقتوں کی تمام تر شر انگیزی،ماحول میں زہر گھولنے کی کوششوں اور سازشوں کے باوجود یہ ملک اس لیے سیکولرزم پر قائم ہے کہ آج بھی عوام کی اکثریت اسی سیکولرزم پر عمل پیرا ہے۔خواہ اس کا تصور یوروپی ہی کیوں نہ ہو۔حالانکہ سچ یہ ہے کہ سیکولرزم کا لفظ ا ستعمال کیے بغیر یہ تصور ہندوستانی سماج کا اٹوٹ حصہ ہے اور ہندوتو وادی طاقتیں اپنے باطل پروپگنڈے کے باوجود اسے توڑنے میں ناکام ہوئی ہیں۔لیکن نظریاتی تنگ نظری شائد اس بات کے ایماندارانہ اعتفراف سے گورنر موصوف کو روکتی ہے۔ان کا مذکورہ بیان تو کم از کم یہی ثابت کرتا ہے۔

naqvisiraj58@gmail,com     Mobile:9811602330        

Related posts

مولانا کلب جواد کو تمام بیلٹ پیپر عام کرنے کا مطالبہ کرنا چاہئے۔

qaumikhabrein

25 جولائی سے عمرہ بھی کر سکیں گے مسلمان۔

qaumikhabrein

سبزی فروش فیصل کو پولیس اہلکاروں نے پیٹ پیٹ کر مار ڈالا۔

qaumikhabrein

Leave a Comment