اتر پردیش کی راجدھانی لکھنؤ او ر ریاست کے دیگر شہروں کانپور،وارانسی،میرٹھ،آگرہ،مرادآباد سمیت کئی شہروں میں ہندو تنظیموں نے مظاہرے کیے۔ان مظاہروں کے دوران جس طرح اشتعال انگیز نعرے بازی کی گئی وہ اس بات کا ثبوت ہے کہ نوپور شرما کو پارٹی سے چھ برس کے لیے نکالے جانے کے باوجود بی جے پی کی ہمدردیاں نوپور شرما کے ساتھ ہیں اور پارٹی بالواسطہ طریقوں سے اس کے حق میں ماحول بنا رہی ہے۔اس کا مقصد کیا ہے اس پر فی الحال کوئی تبصرہ کرنا مناسب نہ ہوگا،لیکن جہاں تک نوپور شرما کے لیے بی جے پی کی ہمدردی کا تعلق ہے تو اس کا ثبوت یہ مظاہرے ہیں جن میں گستاخ رسولﷺ کے حق میں نعرے لگائے گئے۔حالانکہ بی جے پی بظاہر اس مظاہرے کا حصہ نہیں تھی،لیکن مظاہرہ کرنے والی تمام تنظیموں کے بارے میں یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ یہ سب بی جے پی کی حامی ہیں اور جب بھی پارٹی کو بالواسطہ کوئی کام کرنا ہوتا ہے تو ان تنظیموں کا سہارا لیا جاتا ہے۔مظاہرہ کرنے والی تنظیموں میں بجرنگ دل اور وشو ہندو پریشد جیسی تنظیموں کے کارکنان شامل تھے جو نوپور شرما کے حق میں نعرے لگاتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ،”نوپور تم سنگھرش کرو ہم تمھارے ساتھ ہیں۔”ظاہر ہے یہ نعرہ لگانے والے بی جے پی کا وہ چہرہ ہیں کہ جو عالمی سفارتکاری کے دباؤ سے بچنے کے لیے بی جے پی حکمراں استعمال کرتے ہیں۔تاکہ ان مظاہروں پر کوئی آواز بلند ہو تو کہا جا سکے کہ مظاہرہ بی جے پی نہیں بلکہ دیگر تنظیمیں کر رہی تھیں۔
دراصل نوپور شرماکے معاملے میں نہ صرف عالمی سطح پر بلکہ قومی سطح پر بھی ہر انصاف پسند شہری نے آواز بلند کی ہے۔یہ مطالبہ بھی زور پکڑ رہا ہے کہ صرف بی جے پی سے اخراج نوپور شرما کی سزا نہیں ہے اور اس کے خلاف مناسب تعزیری کارروائی کی جانی چاہیے۔دلی پولیس نے نوپور کے خلاف ایک ایف آئی آر بھی درج کی ہے،لیکن توازن کے نام پر چند ا ن لیڈروں کے خلاف بھی ایف آئی آر لکھی گئی ہے کہ جو نوپور شرما کی گرفتاری کا مطالبہ کر رہے تھے۔ان میں مجلس اتحاد المسلمین کے سربراہ اسد الدین اویسی بھی شامل ہیں۔توازن کے نام پر کی گئی اس ایف آئی آر کا مقصد غالباً نوپور شرما کو گرفتاری سے بچانا ہے۔اس لیے کہ اگر نوپو ر شرما کی گرفتاری کامطالبہ زور پکڑتا ہے تو پولیس دوسری ایف آئی آر میں نامزد افراد کو بھی گرفتار کریگی۔حالانکہ اس دوسری ایف آئی آر میں سوامی یتی نند بھی شامل ہیں جن کے زہریلے بیانات اکثر تنازعات کا سبب بنتے رہے ہیں۔ریاست کے مختلف شہروں میں ہوئے مظاہروں میں جو نعرے لگائے گئے انھیں دیکھتے ہوئے ریاستی پولیس اور انتظامیہ کی ذمہ داری تھی کہ مظاہرین کو نہ صرف ایسے نعرے لگانے سے روکتی بلکہ ضروت پڑنے پر ان کے خلاف سخت کارروائی بھی کی جاتی،لیکن ایسا نہیں ہوا۔ واضح ہو کہ مظاہرین صرف نوپور شرماکی حمایت میں ہی نعرے بازی نہیں کر رہے تھے،بلکہ بھگوا طاقتوں کے پالے ہوئے غنڈے یہ نعرے بھی لگا رہے تھے کہ،’پتھر بازوں ہوش میں آؤ’یا ‘جس گھر سے افضل نکلے گا اس گھر میں گھس کر مارینگے’۔ مظاہرین نے سڑکوں پر ہنومان چالیسا کا پاٹھ بھی کیا۔
سوال یہ ہے کہ کیا پتھر بازوں میں صرف ایک فرقے کے لوگ ہی شامل تھے؟کیا نوپور شرما کے خلاف ہونے والے مظاہروں کی جو ویڈیو سوشل میڈیا پر گشت کر رہی ہیں ان میں پولیس اہلکار اور دیگر پتھر بازی کرتے ہوئے نظر نہیں آرہے ہیں؟اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ بتھر بازی صرف ایک فرقے کی طرف سے کی گئی تب بھی ان پتھربازوں کے خلاف کارروائی پولیس،انتظامیہ کا حق ہے بلکہ پولیس و انتظامیہ اپنے حق و اختیارات سے تجاوز کرتے ہوئے پتھر بازی میں مبینہ طور پر شامل کچھ افراد کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے ان کے گھروں پر بلڈوزر بھی چلا چکی ہے۔یہ الگ بات کہ اب پولیس کی اس حد سے متجاوز کارروائی کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا جا چکا ہے اور سپریم کورٹ نے اتر پردیش حکومت سے اس معاملے میں جواب بھی طلب کیا ہے۔ظاہر ہے مظاہرین کی نعرے بازی غیر قانونی ہے۔اسی طرح افضل کا نام لیکر کی گئی نعرے بازی بھی اشتعال انگیز اور غیر قانونی ہے۔کسی بھی شخص کو سزا دینے کا اختیار ملک کی عدالتوں کے پاس ہے اور افضل ہو یا کوئی اور ایسے کئی معاملوں میں عدالتی فیصلے آچکے ہیں اور قصورواروں کو کیفر کردار تک پہنچایا جا چکا ہے۔مستقبل میں بھی قصورواروں کو عدالتیں ہی سزا دینے کی مجاز ہیں۔اس لیے افضل یا کسی دوسرے شخص کا نام لیکر مسلمانوں کو نشانہ بنانا اور انھیں گھر میں گھس کر مارنے کی دھمکی دینا صریحی طور سے غلط ہے۔ملک کا قانون ہر شہری کو اپنے دفاع کی اجازت دیتا ہے اور کسی کو گھر میں گھس کرمارنے کی دھمکی دینے والوں کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ اگر آپ قانون اپنے ہاتھ میں لیکر کسی کے گھر جاکر اسے مارنے کی کوشش کرینگے تو گھر میں بیٹھا ہوا شخص بھی ہاتھ باندھ کر نہیں بیٹھا ہے اور اسے بھی اپنا دفاع کرنے کا پورا حق ہے۔افضل کا نام لیکر اشتعال انگیزی کرنے والے اگر ماضی قریب میں پاکستان کی جاسوسی کے الزام میں گرفتار کیے گئے کسی غیر مسلم کا نام بھی نعرے بازی میں لیتے تو لگتا کہ ان لوگوں کو واقعی وطن سے محبت ہے،لیکن کسی ایک شخص کا نام لینا اس بات کا ثبوت ہے کہ معاملہ پاکستان حامی عناصر کی مخالفت کا نہیں بلکہ ایک خاص فرقے کے لوگوں کو مشتعل کرنا بلکہ خوفزدہ کرنا ہے۔
جہاں تک نوپور شرما کے حق میں لگائے گئے نعرے کا تعلق ہے تو یہ اس بات کا ثبوت ہے حکمراں جماعت کے حامی عناصر کی اس تعلق سے کیا سوچ ہے۔حالانکہ بی جے پی نے نوپور شرما کو چھ سال کے لیے پارٹی سے معطل کرتے ہوئے جو خط انھیں لکھا تھا،اس میں کہا گیاتھا کہ ’’آپ نے حال ہی میں پارٹی کی کئی معاملوں میں پوزیشن کے خلاف جوخیالات ظاہر کیے ہیں وہ پارٹی آئین کے ضابطہ نمبر10کے خلاف ہیں۔لہٰذا اس معاملے میں آگے کی جانچ ہونے تک آپ کو چھ سال کے لیے پارٹی سے معطل کیا جاتا ہے۔’ہرچند کہ معطلی کے اس حکم نامے میں معطلی کے سبب کی کھل کر وضاحت نہیں کی گئی ہے لیکن اس کے باوجود نوپور کو پارٹی سے معطل کرنے سے یہ پیغام دینے کی کوشش ضرور کی گئی کہ پارٹی نوپور کے گستاخی رسولﷺ سے متعلق بیان سے متفق نہیں۔ایسے میں نوپور شرما کے حق میں ہونے والے مظاہرے آخر کیا ثابت کرتے ہیں؟اگر یہ مظاہرے بی جے پی کی پالیسی اور انتظامی اعتبار سے نظم و نسق کے خلاف ہیں تو حکومت اور انتظامیہ کو کیا اس معاملے میں بھی اسی طرح کارروائی نہیں کرنی چاہیے جس طرح گذشتہ جمعہ کی نمازکے بعد ہوئے مظاہرے کے مظاہرین کے خلاف کی گئی؟بلڈوزر کو ایک خاص فرقے کے خلاف دہشت گردی کا ہتھیار بنانے والوں کو کم از کم اس مظاہرے کے مظاہرین کے خلاف بھی سخت رویہ اپنانے کی ضرورت ہے،لیکن شائد ایسا نہ ہو۔یہ بھی خبریں ہیں کہ کئی جگہ مظاہرین نے سڑک پر ہنومان چالیسا کا پاٹھ بھی کیا۔سڑکوں پر ہونے والی نماز کا سلسلہ ختم کردینے پر اظہار فخر کرنے والی حکومت کیا اس معاملے میں بھی کوئی کارروائی کریگی؟ظاہر ہے ایسا نہیں کیا جائیگا۔
حقیقت یہ ہے کہ یہ مظاہرے اور ان کے تعلق سے حکومت اور انتظامیہ کا رویہ حکمراں جماعت کے دوہرے کردار کا ثبوت ہے۔ایک طرف عالمی اقتصادی و سفارتی مفادات کو ذہن میں رکھتے ہوئے دنیا کے سامنے یہ تاثر پیش کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ حکومت نوپور شرما کے موقف کے سخت خلاف ہے۔جبکہ دوسری طرف سخت گیرتنظیموں کو نوپور شرما کے حق میں میدا ن میں اتار کر ہندوتو وادیوں کے ”تشتی کرن” کی کوشش کی جا رہی ہے،اور یہ بی جے پی کا دوسرا چہرہ ہے۔
sirajnaqvi08@gmail.com Mobile:9811602330