ہندستان میں جاری انتخابات کے درمیان اقلیتوں کے حقوق اور انکی عبادت گاہوں کی سلامتی ایک بڑا سوال ہے۔ اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کا ماننا ہیکہ اگر نریندر مودی کی قیادت میں بی جے پی ایک پھر اقتدار میں واپس آتی ہے تو آئندہ پانچ برسوں میں انہیں اپنی کئی عبادت گاہوں سے ہاتھ دھونا پڑ سکتا ہے۔ گزشتہ دس برسوں میں جو کچھ ہوا اسکو دیکھتے ہوئے انکا یہ ڈر بلا وجہ نہیں ہے۔
مئی میں جونپور کی سیاست میں یکایک گرمی آگئی۔ ضلع عدالت میں ایک عرضی داخل کی گئی جس میں دعویٰ کیا گیا کہ شہر کی قدیم اٹالا مسجد در حقیقت ایک قدیم ہندو مندر ہے۔ اس عرضی میں ہندو فریق نے یہ دلیل دی کہ اے ایس آئی کے ایک ڈائریکٹر نے اپنی ایک رپورٹ میں اس مسجد کو مندر بتایا ہے۔ مسلم فریق نے اس عرضی کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ مسجد کی تعمیر فیروز شاہ تغلق نے اپنےدور حکومت میں 1393 میں کرائی تھی۔مسجد کی جانب سے اپنا موقف رکھتے ہوئے مولانا شہاب الدین رضوی نے کہا کہ دستاویزات کے مطابق اس مسجد کی تعمیر کا کام تقریباً پندرہ برس میں مکمل ہوا تھا اور اسکے ساتھ ایک مدرسہ بھی قائم ہوا تھا۔ رضوی نے دعویٰ کیا کہ یہ مسجد محکمہ آثار قدیمہ کے تحت قومی ورثہ کے طور پر درج ہے۔لیکن رضوی کے ان دعووں کے باوجود جس طرح ضلع عدالت نے عرضی کو سماعت کے لئے قبول کیا ہے اس سے شکوک کا پیدا ہونا لازمی ہے۔ یہ پہلا موقع نہیں ہیکہ جب ملک کے سب سے بڑے صوبے میں اس طرح کسی مسجد کو متنازعہ بنا کرقبضۃ کرنے کی کوشش کی گئی ہو ابھی چند روز قبل راجدھانی لکھنؤ میں قدیم ٹیلے والی مسجد کے سلسلے میں بھی اسی قسم کی عرضی داخل کی جا چکی ہے۔
ہندو وادی تنظیم ‘آل انڈیا ہندو مہا سبھا’ کی طرف سے دعویٰ کیا گیا کہ لکھنؤ کا قدیمی نام لکشمن نگری ہے یہاں پر ایک لکشمن ٹیلہ ہے جو سناتن دھرم کی وراثت ہے۔ نرپیندر پانڈے کی جانب سے داخل عرضی میں دعویٰ کیا گیا ہیکہ قدیم لکشمن ٹیلہ کو مسلمانوں نے ٹیلے والی مسجد کا نام دیدیا ہے۔ معاملہ عدالت پہونچا تو مسجد کی انتظامیہ فوری حرکت میں آگئی۔ مسلم فریق نے عدالت میں عرضی کی معقولیت کو چنوتی دی لیکن عدالت نے اس عرضی کو قبول کرلیا اس طرح ایک اور مسجد تنازعہ کے دروازے پر پہونچ گئی۔ ظاہر ہے کہ یہ قصہ جونپور کی اٹالہ مسجد اور ٹیلے والی مسجد پر ختم ہونے والا نہیں ہے ان دونوں مسجدوں کا معاملہ ہندستان میں نہ اس طرح کا پہلا معاملہ ہے اور نہ آخری۔ فتح پور سیکری کی درگاہ میں بھی ‘ماتا کا مندر’ ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے عرضی آگرہ ضلع عدالت میں دائر کی جا چکی ہے۔ اتر پدیش کے بدایوں میں 800 سال پرانی جامع مسجد کے سلسلے میں آل انڈیا ہندو مہا سبھا نے ایک عرضی داخل کی تھی جس میں یہ دعویٰ کیا گیا ہیکہ مسجد شیو مندر کو توڑ کر بنائی گئی ہے۔ اتر پردیش کے متھرا کی شاہی عید گاہ، بنارس کی گیان واپی مسجد اور آگرہ کے تاج محل کے سلسلے میں بھی ہندو فریقوں کے اسی طرح کے دعوے ہیں۔اسی طرح کرناٹک میں بنگلورو کے عید گاہ میدان، تلنگانہ کے حیدر آباد میں چار مینار، مدھیہ پردیش کے دھار میں کمال الدین مسجد، راجستھان میں اجمیر کی خواجہ غریب نواز کی درگاہ اور دہلی کے قطب مینار کے سلسلے میں تمام ہندو وادی تنظیمیں عدالتوں کا رخ کرچکی ہیں۔
بابری مسجد کا جن
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مسلمانوں کی نمائندگی کرنے والی تمام تنظیموں کا کہنا ہیکہ مسلمانوں کے مذہبی مقامات کے سلسلے میں عدالتوں کے دروازے یونہی نہیں کھٹ کھٹائے جارہے ہیں۔ بابری مسجد مقدمے میں عدالتوں نے جس طرح کا رویہ اختیار کیا اس سے دوسری مسجدوں پر قانونی دعوے کرنے کا راستہ کھل گیا ہے۔ بابری مسجد کو ہندو وادی تنظٰموں نے ہجوم کے بل پر توڑ دیا تھا۔اس معاملے پر سپریم کورٹ نے پنچایتی طرز کا فیصلہ سناتے ہوئے متنازعہ آراضی ہندو فریق کو دیدی تھی۔ لیکن اس واقعہ میں جن افرادکے خلاف مجرمانہ معاملے درج کئے گئے تھے انکا کچھ نہیں بگڑا۔
۔تاریخ سے جڑے معاملوں کے جانکار شاہد صدیقی کہتے ہیں کہ بابری مسجد فیصلے کے وقت مان لیا گیا تھا کہ ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان سب سے بڑا تنازعہ ختم ہو گیا ہے اور اب دونوں فریق تاریخ کو دفنا کر آگے بڑھ جائیں گےمسلمان صبر کر لیں گے اور ہندو بقیہ مسجدوں پر اپنے دعووں سے دستبردار ہو جائیں گے اس سے پہلے ہندو فریق کے تمام لیڈرزیہ کہتے رہے ہیں کہ کاشی متھرا اور ایودھیا کے علاوہ انکی دلچسپی کسی اورتنازعہ میں نہیں ہے لیکن یہ قیاس غلط ثٓبت ہوئے ایودھیا کے بعد کاشی اور متھرا کے معاملے نہ صرف یہ کہ عدالتوں میں پھرسے زندہ ہو گئے بلکہ اب آئے دن کسی نہ کسی مسجد پر دعویٰ ٹھونکا جارہا ہے۔
گیان واپی مسجد معاملے میں ،مسلم فریق کی طرف سے عدالت میں پیروی کرنے والے وکیل فرمان حیدر نقوی اسکے لئے عدالتوں کے برتاؤ کو ذمہ دار مانتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ عبادت گاہوں سے متعلق ایکٹ انیس سو اکیانوے( اسپیشل پروزیزن) کہتا ہیکہ ہندستان میں پندرہ اگست انیس سو سینتالیس کو جو مذہبی مقام جس حالت میں تھا وہ اسی حالت میں رہےگا۔ حالانکہ اس ایکٹ کے مطابق بحالت سابق یعنی ملکیت کے پہلو کی معقولیت پر ایک معاملہ سپریم کورٹ کی تین رکنی بینچ کے سامنے زیر غورہےلیکن جس طرح سے ذیلی عدالتوں کے جج صاحبان اس طرح کی عرضیوں کو لگاتار قبول کررہے ہیں اپنی جانب سے بیانات دے رہے ہیں اور عبادت گاہوں کی حالت کو تبدیل کرنے میں مدد کر رہے ہیں وہ واقعی افسوسناک ہے۔ بنارسکی گیان واپی مسجد کے معاملے میں نہ صرف عدالت کے حکم پر سروے ہوا بلکہ ایک تہ خانے میں پوجا کی اجازت بھی دی گئی۔ اس معاملے میں سماعت کرتے ہوئے بنارس کے ضلع جج کا ریمارک بھی کافی مزیدارہے۔ جج اے کے وشویش نے اپنے فیصلے میں کہا کہ ہندو عرضی گزاروں کی عرضی نہ تو عبادت گاہوں سے متعلق ایکٹ کی خلاف ورزی ہے اور نہ ہی وقف ایکٹ کی۔ اس معاملے میں ہندو فریق کی جانب سے پانچ خواتین نے مسجد کے احاطے میں پوجا کی اجازت طلب کی تھی جس پر مسجد انتظامیہ نے اعتراض ظاہر کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس سےعبادت گاہ ایکٹ خصوصی پروویزن اور وقف ایکٹ کی خلاف ورزی ہوگی۔
قانون اور ترقی کی بھینٹ چڑھتی عبادت گاہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اقلیتوں کی تشویش صرف عدالتوں کے برتاؤ کے سلسلے میں نہیں ہے مسئلہ قانون کی آڑ لیکراقلیتی طبقوں کواپنی عبادت گاہوں، عبادت کے طور طریقے اور عبادت گاہوں کے انتظام کے تعلق سے ملے آئینی حقوق کی خلاف ورزی کا ہے۔ہندستانی آئین کی دفعہ پچیس چھبیس اور انتیس میں مذہب کی آزادی کےعلاوہ آرٹیکل انتیس میں اقلیتی طبقے کے مفادات کی حفاظت کی بات بھی کہی گئی ہے۔اسی طرح عبادت گاہ(اسپیشل پروویزن) ایکٹ کی دفعہ تین کسی بھی فرقے کی عبادت گاہ کی حالت میں تبدیلی ،کی اجازت نہیں دیتی۔یہ قانون کہتا ہیکہ عبادت گاہ کی حالت وہی قائم رہنی چاہئے جو پندرہ اگست انیس سو سینتالیس کو تھی جیسا کہ دفعہ چار ایک میں کہا گیا ہے۔۔لیکن مسئلہ صرف عدالتی تنازعات تک یا کچھ عبادت گاہوں تک محدود نہیں ہے۔ سینئر صحافی پرشانت ٹنڈن کہتے ہیں کہ حکومتوں،مقامی بلدیہ اور عدالتوں نے اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے خلاف جنگ چھیڑ رکھی ہے۔ مختلف بہانوں سے انکی عبادت گاہوں پر قبضہ کیا جارہا ہے یا ہمیشہ کے لئے مٹایا جارہا ہے۔ وہ حال ہی میں دہلی کے مہرولی میں منہدم کی گئی سیکڑوں برس پرانی مسجد کا حوالہ دیتے ہیں۔ پرشانت ٹنڈن کے مطابق سنجے ون علاقے کی وہ مسجد سیکڑوں برسوں سے وہاں تھی۔لیکن ڈی ڈی اے نے تیس جنوری کی رات کو اندھیرے میں اس پر بلڈوزر چلا دیا۔ڈی ڈی اے نے دعویٰ کیا کہ اسکی زمین پر ناجائز قبضہ کرکے اسکو تعمیر کیا گیا تھا۔ اس معاملے میں مسجد کی انتظامیہ سے جڑے مہرولی کے محمد شاہد کہتے ہیں دہلی میں جب یہ مسجد تعمیر ہوئی تھی اس وقت تو ڈی ڈی اے کا وجود بھی نہیں تھا۔
ناجائز قبضہ کس نےکیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دہلی میں پرانی پارلیمنٹ بلڈنگ کے اس پاس ان دنوں مختلف قسم کے تعمیراتی کام چل رہے ہیں یہ تعمیرات سینٹرل وسٹا ری ڈولپمنٹ پروجیکٹ کا حصہ ہیں۔ اسکے تحت نئی پارلیمنٹ بلڈنگ کے علاوہ اور بھی کئی وزارتوں کی نئی عمارتیں تعمیر کی جارہی ہیں۔ ظاہر ہے کہ نئی عمارتوں کو جگہ دینے کے لئے کئی پرانی عمارتوں کوتوڑا گیا ہے لیکن مبینہ ترقی کے دائرے میں دہلی کے کئی قدیمی قبرستان، مسجدیں، مدرسے اور مزارات بھی آگئے ہیں۔پرانی دہلی کے رہنے والے مختار احمد کے مطابق” نو تعمیر شدہ پارلیمنٹ بلڈنگ کے بالکل برابر میں سینٹرل سیکریٹیریٹ میٹرو اسٹیشن کے گیٹ کے سامنے ایک مزار ہے ۔ جو برسوں سے موجود ہے لیکن اب شاید نہیں رہےگا۔اسکے آس پاس کا تام جھام ہٹا دیا گیا ہے کسی دن اسکو زمیں دوز کردیا جائےگا”مختار کا اندیشہ یونہی نہیں ہے۔ نئی پارلیمنٹ سے تقریباً تین کلو میٹر دور منڈی ہاؤس کے پاس ننھے میاں چشتی کا مزار گزشتہ برس چھبیس اپریل کو راتوں رات غائب کردیا گیا۔ یہ مزار سو برس پرانا تھا۔اب وہاں درخت لگے ہیں۔ مزار کی نگرانی کرنے والے اکبر علی کا دعویٰ ہیکہ مزار توڑنے سے پہلے انہیں ایس ڈی ایم نے بلایا تھا لیکن انہیں امید نہیں تھی کہ مزار کو ایسے غائب کردیا جائےگا.
اسی قسم کی ایک کاروائی بیس اگست کو الصبح تین بجے جھنڈے والان میں بھی ہوئی تھی جب بلڈوزر ایک مزار کو منہدم کرکے چلے گئے تھے۔ ماموں بھانجے کے مزار کے نام سے مشہور یہ مزار تقریباً ڈھائی سو برس پرانا تھا۔مزار کی نگرانی کرنے والے وجاہت علی کے مطابق انکو پی ڈبلو ڈی کے دفترمیں بلایا گیا تھا۔ ان سے کہا گیا تھا کہ یہ مزار سڑک میں رکاوٹ ڈال رہاہے۔ وجاہت علی نے اسی روز دفتر میں تمام ضروری دستاویز جمع کرادئے تھے لیکن انکی مستعدی کے باوجود مزار کو نہیں بچایا جاسکا
دہلی میں فی الحال دو درجن سے زیادہ مسجدوں، مدرسوں اور مزاروں پر انہدام کی تلوار لٹک رہی ہے۔وایو سینا بھون کے پاس سنہری باغ روڈ کے گول چکر پر قائم مسجد بھی ان میں شامل ہے۔این ڈی ایم سی ڈیڑھ سو سال پرانی اس مسجد کو توڑنے کے چکر میں ہے۔۔دہلی کے ٹریفک کمشنر نے این ڈی ایم سی کو ایک خط لکھا ہے جس میں کہا گیا ہیکہ یہ مسجد سڑک جام کا سبب بن رہی ہے۔حالانکہ دہلی وقف بورڈ کی عرضی پر عدالت نے مزید کاروائی پر روک لگا دی ہے لیکن این ڈی ایم سی اپنی جانب سے مسجد کو منہدم کرنے کی پوری تیاری کرچکی ہے۔لال مسجد کا معاملہ بھی اسی قسم کا ہے۔ این ڈی ایم سی نے لال مسجد اور اس سے متصل قبرستان کی زمین سی آر پی ایف کو الاٹ کردی ہے جسکے بعد مسجد کو توڑنے کے لئے بلڈوزر پہونچ گئے۔ سرکردہ وکیل چنگیز خاں کے مطابق وہ اس معاملے میں عدالت سے رجوع ہوئے۔ حالانکہ قبرستان اور مدرسے پر این ڈی ایم سی نے جبری طور پر قبضہ کرا دیا لیکن مسجد کا ایک حصہ جیسے تیسے کرکے بچ گیا ہےلیکن یہ کتنے روز سلامت رہے گا کچھ نہیں کہا جاسکتا۔
آخر یہ سب کیوں ہورہا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس سلسلے میں سماجی کارکن نور عالم کہتے ہیں کہ ترقی اورتباہی کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ترقی کے نام پر توڑ پھوڑ پہلے بھی ہوتی رہی ہے لیکن اس بار نشانے پر اقلیتوں کی عبادت گاہیں ہیں۔ انکا کہنا ہیکہ اس قسم کے معاملوں میں اتفاق رائے بن بھی سکتا ہے لیکن حکومتیں اقتدار کے زور پر فیصلے کر رہی ہیں اور پولیس اور انتظامیہ انکے سیاسی ایجنڈے کو پورا کرنے کے لئے قانون کو طاق پر رکھے دے رہا ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ اترا کھنڈ ریاست میں ہی تین سو سے زیادہ مسجدیں اور مزارات ناجائز قبضے کے نام پر توڑ دئے گئے۔۔گیان واپی معاملے میں ہندو فریق کے وکیل وشنو جین کا دعویٰ ہیکہ ہندستان بھر میں کم از کم پچاس ایسی مسجدیں اور یادگاریں ہیں جو متنازعہ ہیں۔ اس سلسلے میں شاہد صدیقی کہتے ہیں کہ ہندو وادی تنظیمیں ہزاروں مسلم مذہبی مقامات کی فہرستیں بنائے گھوم رہی ہیں۔ جب تک حکومتیں اور عدالتیں اس سلسلے میں سخت رویہ اختیار نہیں کریںگی اسوقت تک ایسے ہی چلتا رہےگا۔ لیکن اصٓل سوال یہ ہیکہ آخر حکومتیں اور عدالتیں سخت رویہ کب اختیار کریں گی؟ فی الحال تو حکومتیں،عدالتیں، لوکل باڈیز اور انتظامیہ تاریخ کی غلطیاں سدھارنے میں مصروف ہیں۔ ۔