ہمارے میڈیا کی امریکہ نوازی کا معیار بھی عجیب ہے،جس امریکہ نے ہمیں کناڈا تنازعہ میں کٹہرے میں کھڑا کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اس امریکہ کی بالواسطہ حمایت میں ہمارا ایک بڑا چینل یہ باور کرانے کی کوشش کر رہا ہے کہ حماس اسرائیل جنگ میں کئی مسلم ممالک اب امریکہ کے خلاف جنگی صف بندی میں لگ گئے ہیں۔چینل کے مطابق یہ ممالک امریکہ کے خلاف سازش کر رہے ہیں۔کیا یہ انتہائی درجے کی بے غیرتی اور حاشیہ برداری کا ثبوت نہیں کہ جو ملک پوری دنیا بشمول ہندوستان کے خلاف سازشوں کا ایک طویل ریکارڈ رکھتا ہو اس کے خلاف اگر چند مسلم ممالک کچھ دفاعی اقدام کر بھی رہے ہیں تو اسے سازش قرار دیکر امریکہ اور اسرائیل کی خوشنودی حاصل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اسرائیل سے بھی ہمارے ملک کے کچھ ’اندھ بھکتوں‘ کے عشق کا یہ حال ہے کہ وہ حماس سے جنگ کے لیے اسرائیل جانے اور اسرائیل کی شہریت حاصل کرنے تک کی بات کر رہے ہیں۔حالانکہ یہ بات طے ہے کہ یہ وہ لوگ ہیں کہ جو صرف مسلمانوں سے پر خاش کے سبب ہی اس طرح کے زہر آلود بیانات دے رہے ہیں۔جہاں تک ہندوستان کے عام آدمی کا تعلق ہے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ ہمیشہ کی طرح اب بھی فلسطینی کاز کے ساتھ ہے اور اسرائیلی مظالم پر پوری دنیا کے انصاف پسند عوام کے ساتھ کھڑا ہے۔یہی معاملہ ہمارے بیشتر یو ٹیوب چینلوں کا بھی ہے۔
اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی میں توسیع شائد ہمارے قومی میڈیا کے ایک حصے کو اس لیے ناگوار گزر رہی ہے کہ اس کے نتیجے میں عارضی طور پر ہی سہی لیکن مظلوم فلسطینی بچوں اور خواتین کا قتل عام رک گیا ہے۔دنیا بھر میں جنگ بندی کے تعلق سے امید پیدا ہوئی ہے۔حالانکہ جو حالات ہیں ان میں اس تعلق سے ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہی ہوگا۔یہ چینل قیاس آرائیاں کر رہا ہے کہ تیسری جنگ عظیم چھڑنے کا اندیشہ بڑھ گیا ہے،اس لیے کہ امریکہ کے خلاف ایران،عراق،یمن،شام اور لبنان متحد ہوکر کارروائی کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔اس چینل کا دعویٰ ہے کہ یہ حماقت ان ممالک کو بھاری پڑ سکتی ہے۔چینل میں یہ دعویٰ بھی کیا گیا کہ تیسری جنگ عظیم چھڑنے کا امکان بڑھ گیا ہے۔چینل کے مذاکرے میں ایران،شام اور لبنان کے خلاف جس طرح زہر اگلا جا رہاہے وہ اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ سب اسرائیل نوازی کا ہی ایک حصہ ہے۔حالانکہ چینل میں یہ بھی بتایا گیا کہ اسرائیل نے شام کے دمشق ہوائی اڈے پر بڑا حملہ کر دیا ہے۔سوال یہ ہے کہ شام پر حملہ اسرائیل کر رہا ہے تو پھر شام کو حملہ آور ثابت کرنے کی کوشش کیوں کی جا رہی ہے؟ یہ بات کہی جا رہی ہے کہ اگر ایران جنگ میں ملوث ہوا تو امریکہ بھی اس میں کود سکتا ہے۔لیکن سوال یہ ہے کہ امریکہ کب اس جنگ میں ملوث نہیں تھا؟ کیا یہ سچ نہیں کہ امریکی جنگی بیڑے اس جنگ کے آغاز سے ہی اسرائیل کے قریب سمندری علاقے میں آچکے تھے۔ایسے میں جنگ کو پھیلانے کے لیے کسی بھی حماس حامی ملک کو جنگ پھیلانے کے لیے ذمہ دار بتانا کہاں تک مناسب ہے؟ ظاہر ہے ہمارے ملک میں بھی کچھ طاقتیں یہ چاہتی ہیں کہ حماس کو پوری طرح تنہا مرنے کے لیے چھوڑ دیا جائے۔حماس کی مزاحمت کو دہشت گردی بتا کر اسے دنیا بھر کی ہمدردیوں سے محروم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
امریکہ یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہا ہے کہ حماس کو فلسطینیوں کی حمایت حاصل نہیں ہے،لیکن اگر ایسا ہے تو پھر اسرائیل کے خلاف لڑنے والے کون ہیں؟یہ تو ممکن نہیں کہ آس پاس کے ممالک یا صاف کہیں تو ایران حامی جنگجو گروپ حماس کی حمایت میں تنہا لڑ رہے ہیں۔یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ گولان ہایٹ کے قریب ایران حامی سات سو سے زیادہ جنگجو گروپ جمع ہو گئے ہیں جو اسرائیل کے خلاف جنگ چھیڑنے کے لیے تیار ہیں۔ہمارے چینلوں کے پاس کہاں سے اطلاعات آرہی ہیں کہ گولان ہائٹ کے قریب جمع ہونے والے ایران حامی جنگجو ہیں۔جہاں تک یمن کے حوثی گروپ کا تعلق ہے تو تمام غیر جانبدار میڈیا نے بھی یہ تسلیم کیا ہے کہ انھوں نے اسرائیل کی ایک کمپنی کے بحری جہاز پر قبضہ کر لیا ہے۔یہ بھی کہا گیا ہے کہ حوثیوں کے قبضے سے ایک بحری جہاز کو آزاد کرا لیا گیا ہے۔لیکن حوثیوں کا بھی معاملہ یہ ہے کہ انھیں بھی اس لیے دہشت گرد کہا جاتا رہا ہے کہ انھوں نے امریکہ حامی حکومت کے خلاف بغاوت کرکے ایک الگ حکومت بنا لی اور پڑوس کے کئی مسلم ملک ان کے خلاف جب جنگ میں کامیاب نہ ہو سکے اور انھیں ان کی اوقات بتا دی گئی تو اب امریکہ اور اسرائیل حامی لابی نے انھیں اسی طرح دہشت گرد بتانا شروع کر دیا ہے جس طرح لبنان کے ’حزب اللہ‘ کو دہشت گرد بتایا جا رہا ہے۔حالانکہ معاملہ حوثیوں کا ہو،حماس کا ہو یا پھر حزب اللہ کا ان میں سے کسی بھی جنگجو گروپ کے بارے میں آج تک کوئی ایسی اطلاع نہیں ہے کہ انھوں نے امریکہ حامی حکومت یا پھردیگر مسلم مخالف طاقتوں کے علاوہ کسی کو نشانہ بنایا ہو۔جہاں تک اس جنگ میں ایران کے شامل ہونے کا تعلق ہے تو کیا اسرائیل کی دہشت گردی اور کئی دہائیوں سے فلسطینیوں کے خلاف جاری اس کے ظلم و تشدد کو ایران کو بھی اسی طرح دیکھتے رہنا چاہیے کہ جس طرح کئی مسلم حکومتیں دیکھ رہی ہیں۔اگر اسرائیل کی علاقائی داداگری کو ایران چیلنج کر رہا ہے تو ہمارے میڈیا کو اس پر اتنا واویلا کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ کیا یہ شور شرابہ اس سبب سے نہیں ہے کہ ایران ہندوستان کی کچھ تنظیموں کے رول ماڈل بنے اسرائیل کے خلاف کھڑا ہونے اور اس کی دہشت گردی سے خطے کو محفوظ کرنے پر آمادہ نظر آتا ہے؟ عراق کو بھی اس جنگ کے منصوبے میں شامل بتایا جا رہا ہے۔یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ ایران کے شیعہ مرجع تقلید آیت اللہ سیستانی نے ہی سب سے پہلے اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے استعمال کو حرام بھی قرار دیا تھا۔اسی کا نتیجہ ہے کہ دنیا بھر کے مسلمانوں کے ساتھ دیگر انصاف پسندوں نے بھی اس بائیکاٹ پر عمل شروع کیا اور آج اسرائیلی کمپنیوں کو زبردست مالی نقصان اس بائیکاٹ کے نتیجے میں اٹھانا پڑ رہا ہے۔
جہاں تک اسرائیل اور حماس کے درمیان ایک روزہ جنگ بندی میں توسیع کا تعلق ہے تو یہ بات تو ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ اسرائیل کے لیے بھی اب یہ جنگ بھاری پڑ رہی ہے۔اسی کا نتیجہ ہے کہ ایک طرف اسرائیل جنگ بندی پر رضامند ہوا ہے تو دوسری طرف اسرائیل کی چالبازیوں کو سمجھتے ہوئے حماس نے بھی اپنے حریت پسندوں سے کہا ہے کہ وہ جنگ کے لیے تیار رہیں۔یہ کہنے کی ضرورت اس لیے پڑ رہی ہے کہ شکست خوردہ اسرائیل نے اب اپنے سخت گیر عناصر کو بھی اسلحہ تقسیم کرنا شروع کر دیا ہے۔اس کا مطلب صاف ہے کہ اسرائیلی فوج اپنے دم پر حماس کے حریت پسنددوں کو زیر نہیں کر پا رہی ہے۔
اسرائیل حامی ہندوستان کے چند مبینہ قومی چینلوں کی تکلیف دراصل یہی ہے کہ وہ فلسطینیوں کی جس ممکنہ شکست کی خوش فہمیاں پالے ہوئے تھے اس سے اسرائیل جنگ کے دوماہ قریب ہونے کے باوجود دور ہے ۔ یہ عناصر اس اسرائیل کی شکست کو برداشت کیسے کر سکتے ہیں کہ جو اسرائیل کے ظلم وستم کو نمونہ عمل بنا کر ہندوستان کے ماحول میں زہر گھولنے کا کام کرتے رہے ہیں۔بہرحال جنگ بندی میں توسیع کے بعد بھی صورتحال یہ ہے کہ بقول ہندوستان کے ایک یو ٹیوب چینل کے کہ اسرائیل کو اب جنگ کا ایک ایک دن بھاری پڑ رہا ہے۔حماس نے اسرائیل کے یروشلم میں بھی نصف درجن سے زیادہ مسلح اسرائیلیوں کو مار دیا ہے۔حالانکہ اسرائیل انھیں عام شہری بتا رہا ہے لیکن ظاہر ہے یہ لوگ اپنے اسلحہ کا استعمال فلسطینیوں کے خلاف کر نے کی تیاری میں تھے۔حماس کی یہ کارروائی بتاتی ہے کہ تقریباً دو ماہ کی طویل جنگ لڑنے کے باوجود حماس کے نہ تو حوصلے کمزور ہوئے اور نہ اس کی فوجی طاقت اسرائیل کے سامنے کمزور پڑی ہے۔یہی وہ بات ہے کہ جو امریکہ اور اسرائیل کے حاشیہ برداروں کی نیند حرام کیے ہوئے ہے۔
sirajnaqvi08@gmail.com Mobile: 9811602330