عالمی ڈیجیٹل حقوق سے متعلق گروپ’ایکسز ناؤ‘ (Access Now)اور ’کیپ اٹ آن‘ (keep it on) کے ذریع جمع کیے گئے ڈاٹا سے انکشاف ہوا ہے کہ گذشتہ برس یعنی2022میں دنیا بھر کے 35 ممالک نے کم از کم 187مرتبہ انٹرنیٹ بند کیا۔اس مدت میں دنیا بھر میں سب سے زیادہ مرتبہ انٹرنیٹ بند کرنے والا ملک ہمارا وطن عزیز یعنی ہندوستان ہے۔ہندوستان میں اس دوران84مرتبہ انٹر نیٹ شٹ ڈاؤن کیا گیا۔یعنی عہد حاضر میں ترسیل کے اس اہم ذریعہ کو مسدود کرنے یا اس پر وقتی پابندی لگانے کے معاملے میں ہم دنیا بھر میں اوّل نمبر پر رہے۔دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کے مدعی ملک کے لیے اس صورتحال کو آمریت کی آہٹ کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔اس لیے کہ خبروں کی ترسیل سے خوفزدہ رہنا آمروں کا ہی شیوہ ہے۔واضح رہے کہ جان بوجھ کر انٹر نیٹ شٹ ڈاؤن کرنے کے معاملے میں ہم نے لگاتار پانچویں مرتبہ دنیاکو پچھاڑا ہے۔’اندھ بھکت‘سرکار کے اس کارنامے پر خوش ہونگے یا ناراض یہ تو وہی جانیں،لیکن جہاں تک عالمی برادری کا تعلق ہے تو اس پر اس انکشاف سے منفی پیغام گیا ہے۔دنیا ہندوستانی حکمرانوں کے اس عمل کو حیرت سے دیکھ رہی ہے۔
اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مذکورہ سال میں دنیا کے 35ممالک میں کم از کم187مرتبہ
انٹرنیٹ بند کیا گیا۔ان میں سے 33ممالک رپیٹ آفنڈریعنی بار بار ایسا کرنے والے ہیں۔اس فہرست میں ہماری سرکار کی ’کوششوں‘ سے ملک نے اوّل مقام حاصل کیا ہے۔-20جی ممالک کی سربراہی کرنے والے ملک کے لیے یہ اعداد شرمندہ کرنے والے ہیں یا پھر حکومت اس معاملے کی توجیہہ کے لیے کچھ الگ دلائل رکھتی ہے یہ تو وہی جانے،البتہ ایک عام آدمی کی نظر سے حکومت کے اس عمل کو غیر جمہوری اور افکار و نظریات کی ترسیل پر پابندی کے مترادف ہی قرار دیا جائیگا۔یہ بات ناقابل فہم ہے کہ جس ملک میں اپوزیشن پارٹیوں کا وجود کاغذوں تک سمٹتا جا رہا ہو،جہاں کئی آئینی و قانونی ادارے اپنی منصبی ذمہ دایوں کو حکومت کی قصیدہ خوانی یا اس کی اطاعت گزاری مان بیٹھے ہوں وہاں انٹرنیٹ پر بار بار پابندی لگانے کا مقصد انتظامی ضرورتیں ہیں یا پھر آمریت کسی ممکنہ جمہوری انقلاب کی آہٹ سے خوفزدہ ہے۔
دراصلkeep it onکاآغاز2016میں تقریباً70تنظیموں پر مشتمل ایک فیڈریشن کے ذریعہ کیا گیا تھا۔تب سے اب تک مجموعی شٹ ڈاؤن کے جو اعداد وشمار سامنے آئے ان میں سے صرف ہندوستان کا ہی حصہ 58%فیصدہے۔یعنی ہماری سرکار کو ہی اس بات کی سب سے زیادہ ضرورت بار بار پڑی کہ انٹر نیٹ شٹ ڈاؤن کرکے خبروں اور اطلاعات کی ترسیل کو کچھ مدت کے لیے روک دیا جائے۔عوام کی آواز کو ’برائے امن و قانون‘ محصور کر دیا جائے۔اب یہ الگ بات کہ ’سرکار‘ کی اس معاملے میں کی گئی کارروائی کو مذکورہ ادارے آمریت کی ایک خطرناک نشانی مان ہے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ،”انٹر نیٹ شٹ ڈاؤن ڈیجیٹل آمریت کی خطرناک نشانی ہے۔”رپورٹ میں ہندوستان کے بعد یوکرین کو دوسرے اور ایران کو تیسرے نمبر پر رکھا گیاہے۔لیکن اہم بات یہ ہے کہ ان میں سے کسی بھی ملک کی جمہوریت کو دنیا کی نظر میں وہ وقار اور اعتبار حاصل نہیں کہ جو ہندستانی جمہوریت کو حاصل ہے،اور اس اعتبار سے ہندوستان سے متعلق رپورٹ زیادہ باعث تشویش کہی جا سکتی ہے۔
اس رپورٹ میں انٹر نیٹ شٹ ڈاؤن کے تناظر میں جو نتائج اخذ کیے گئے ہیں ان میں سے ہندوستان کے معاملے میں اخذ کیا گیا یہ نتیجہ خاص طور پر قابل غور ہے کہ،’ہندوستانی حکّام نے جموں و کشمیر میں کم از کم اڑتالیس مرتبہ انٹرنیٹ کے استعمال کو مسدود کیا،جس میں جنوری اور فروری میں کرفیو کے انداز میں لگائے گئے تین روزہ شٹ ڈاؤن کے بعد بیک ٹو بیک احکام شامل ہیں۔سوال یہ ہے کہ جب حکومت کشمیر کے مفاد میں کام کرنے کی مدعی ہے،جب ریاست کو خوشحال بنانے کی راہ پر گامزن ہے اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کے مقصد سے جموں و کشمیر میں فوجی کارروائیاں کرنے کی مدعی ہے تو پھر کیاوجہ ہے کہ خبروں کی ترسیل روکنے کی مذکورہ کوشش کی گئی؟ عوام کی آواز کو امن و قانون کی بحالی کے نام پر دبانا اور ذرائع ابلاغ پر پابندیاں لگانا کیا کسی نفسیاتی خوف کا نتیجہ ہے یا پھر حکومت واقعی ریاست میں بد امنی کو پھیلنے سے روکنے کے لیے اس طرح کی پابندیاں لگانے کے لیے مجبور ہوئی؟بات صرف یہی نہیں ہے کہ حکمرانوں نے بار بار انٹر نیٹ شٹ ڈاؤن کیا،بلکہ اس کے علاوہ سوشل میڈیا پر بھی مختلف طریقوں سے لگام کسنے کی کوششیں کی گئی ہیں۔یہ بات کوئی راز نہیں ہے کہ موجودہ حکومت یا حکمراں پارٹی نے پہلی مرتبہ اپنے آئی ٹی سیل کو اس حد تک سرگرم کیا کہ بہت سے حقائق اس وظیفہ خوار آئی ٹی سیل کے ذریعہ چھپا دیے گئے،لیکن اس پر بھی جب بات نہیں بنی تو حکومت مخالف ٹویٹس،فیس بل پوسٹوں اور واتص ایپ گروپوں تک پر ’سرکار‘کا نزلہ گرا اور ان سوشل میڈیا کے حکام کو ملکی آئی ٹی قوانین کا حوالہ دیکر مجبور کیا گیا کہ وہ نشان زد کیے گئے مواد کو ہٹا لیں۔نتیجہ یہ ہے کہ کئی معاملوں میں یہ سوشل میڈیا پلیٹ فارم عدالت کا رخ کر چکے ہیں اور سرکار کے متنازعہ احکام کے خلاف عدالت سے فریادی ہیں۔حالانکہ مذکورہ رپورٹ میں یہ دعویٰ بھی کیا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کے حکم اور بار بار کی گئی پارلیمانی
تجاویز کے باوجود حکومتوں نے شٹ ڈاؤن کو معمول کی بات بنا دیا ہے،اور افسران نے شفافیت و جوابدہی کے لیے سب سے بنیادی نظام وضع کرنے سے بھی انکار کر دیا ہے۔ہرچند کہ یہ تبصرہ صرف ہندوستان کے تناظر میں نہیں ہے لیکن اس میں بھی شک نہیں کہ اس میں جو اشارے ہیں ہندوستان کو بھی اس سے مستثنیٰ قرار نہیں دیا جا سکتا۔
ہماری حکومت نے اس معاملے پر ’ٹیلی گراف ایکٹ1885اور2017 کے ایک ضابطے کو جواز کے طور پر پیش کیا ہے،لیکن سب سے زیادہ قابل غور بات یہ ہے کہ اس قانون اور ضابطے کا سب سے زیادہ استعمال مغربی بنگال اور راجستھان جیسی اپوزیشن کی حکومت والی ریاستوں یا پھر آئین کی دفعہ370ہٹنے اور وہاں مرکز کا اقتدار قائم ہونے کے بعد مخدوش ہوئے حالات کے تناظر میں کیا گیا۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ حکومت نے اپوزیشن حکومتوں یا وہاں کے عوام کو دبانے کے لیے انٹر نیٹ شٹ ڈاؤن کا سہارا لیا۔اسی طرح کشمیر میں عوامی جذبات اور حکومت کی مخالفت کی سچائی کی پردہ پوشی کی کوشش سوشل میڈیا پر پابندی اور انٹرنیٹ بند کرکے کی گئی۔’اگنی پتھ منصوبہ‘کی مخالفت اور کسانوں کی تحریک کے دوران انٹر نیٹ شٹ ڈاؤن کے فیصلے کو اسی تناظر میں دیکھا جا سکتا ہے۔یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ پارلیمانی کمیٹی انٹر نیٹ شٹ ڈاؤن کا ریکارڈ نہ رکھنے پر محکمہ ٹیلی کام کی سرزنش کر چکی ہے۔ظاہر ہے حکومت کسی نہ کسی سبب سے اس معاملے کے اعداد و شمار یا حقائق کی پردہ پوشی چاہتی تھی،اس کا کیا سبب ہے یہ تو حکومت ہی بہتر جانتی ہے لیکن یہ صورتحال حکومت کے ارادوں اور نیت پر سوالیہ نشان تو لگاتی ہی ہے۔لیکن اب دنیا ایک گلوبل گاؤں بن چکی ہے۔ دنیا کی کوئی بھی حکومت حقائق پرآسانی سے پردہ نہیں ڈال سکتی۔زیر بحث رپورٹ نے جو انکشافات کیے ہیں حکومت ان کے تعلق سے کوئی بھی وضاحت دے لیکن پارلیمانی کمیٹی جس بات کے لیے محکمہ ٹیلی کام کی سرزنش کر چکی ہے اس کے بعد مذکورہ رپورٹ کا منظر عام پر آنا اس بات کا ثبوت ہے کہ اگر ملکی ادارے کچھ حقائق چھپانے کے لیے کسی نہ کسی سبب سے کوشاں بھی ہیں اور ایسا کرنے میں کامیاب بھی ہو جاتے ہیں تب بھی دنیا کی آنکھیں بند نہیں ہیں۔’‘سرکار‘ انٹر نیٹ یا سوشل میڈیا سے کتنے ہی خوفزدہ کیوں نہ ہوں اور اس کے تحت پر پابندی لگانے کی کتنی بھی کوششیں کیوں نہ کریں لیکن سچ بہرحال سامنے آہی جائیگا،جیسا کہ اس معاملے میں آیا ہے۔
sirajnaqvi08@gmail.com Mob:-9811602330