امروہا میں منقبتی محفلوں کی تاریخ میں محلہ دربار شاہ ولایت کے عزا خانے کی 17شعبان کی محفل کو نہایت افسوس کے ساتھ یاد کیا جائےگا۔ ‘جشن عباس’ کے عنوان سے منعقدہ محفل منقبت سخت افرا تفری اور بد نظمی کا شکار رہی۔ محفل کا ایک افسوس ناک پہلو یہ بھی رہا کہ مہمان شاعر اقبال اشہر بغیر کلام پیش کئے ناراض ہو کر محفل سے چلے گئے۔محفل میں افرا تفری اور بد مزدگی کا سبب کچھ شعرا کے ذریعے دشمنان اہل بیت علیہ السلام کے سلسلے میں پیش تبرائی اشعار بنے۔ محفل کے ناظمین شعرا سے شہر کی رواداری کی روایات کا حوالہ دیکر مسلسل یہ گزارش کرتے رہے کہ ایسے اشعار سے گریز کریں جن سے کسی کی دلآزاری ہو۔ کچھ شعرا نے اس گزارش کو نظر انداز کرتے ہوئے تبرائی اشعار پڑھے۔
کچھ شعرا نے سامعین کی فرمائش اور اصرار پر تبرائی اشعار پڑھے۔ ایک موقع تو ایسا آیا کہ جب ایک مہمان شاعر تبرائی اشعار پڑھنے کے بعد بیٹھنے لگا تو ناظم محفل نے اسے مخاطب کرکے پھر شعرا کو یاد دہانی کرائی کہ ایسے اشعار سے گریز کیا جائے جو کسی کو ناگوار خاطر گزرتے ہوں۔ ناظم محفل نے یہ افسوس بھی ظاہر کیا کہ انکی مسلسل درخواست کے باوجود شعرا اس قسم کے اشعار پڑھ رہے ہیں۔ ناظم محفل کی اس ٹوکا ٹاکی پر کچھ سامعین نے ناراض ہو کر اعتراض کیا۔ کچھ سامعین احتجاج کرتے ہوئے محفل گاہ سے اٹھ کر باہر چلے گئے۔ محفل کے ماحول میں بد مزگی پیدا ہوگئی۔
دشمنان اہل بیت کے سلسلے میں تبرائی اشعار پیش کئے جانے کے دوران اقبال اشہر کے چہرے پر ناگواری کے آثار نمودار ہوتے رہے۔ وہ اسٹیج پر بے چینی سے پہلو بدلتے نظر آئے۔ تبرائی اشعار کے معاملے پرناظم محفل اور سامعین کے درمیان تلخ کلامی کے دوران اقبال اشہر اسٹیج چھوڑ کر چلے گئے۔ منتظمین اس گمان میں رہے کہ اقبال اشہر کسی ضرورت کے تحت محفل گاہ سے باہر گئے ہیں لیکن بعد میں عقدہ یہ کھلا کہ وہ تبرائی اشعار سے ناراض ہو کر بغیر کلام پیش کئے محفل سے چلے گئے ہیں۔
لمحہ فکریہ
یہ حقیقت ہیکہ آئمہ اطہار اور معصومین کی شان میں منعقد ہونے والی منقبتی محفلیں بھی اب عام مشاعروں کی طرح احترام،وقار اور تقدس سے محروم ہوتی جا رہی ہیں۔ نوبت یہ آگئی ہیکہ مہذب اور باذوق شعرا اور سامعین اس قسم کی محفلوں میں شرکت سے گریز کرنے لگے ہیں۔نہ شعرا کے کلام کا کوئی معیار رہ گیا ہے نہ سماعتیں قابل اعتبار رہ گئی ہیں۔ سطحی اور پھوہڑ شاعری رواج پا رہی ہے۔منقبتی محفلوں کے تقدس اور احترام و وقار کی پامالی کے لئے بانیان محفل سے لیکر منتظمیں تک اور شعرا سے لیکر سامعین تک سب برابر کے ذمہ دار ہیں۔
تبرائی اشعار ہر دور میں پڑھے اور سنے جاتے رہے ہیں۔ان میں اشاروں اور کنایوں کے ذریعے بات کہی جاتی تھی لیکن آج تبرے میں پھوہڑ پن اوربد زبانی در آئی ہے۔ تبرائی اشعار کی غیر معیاری زبان نےسخن طرازی کے اس پہلو کو بد نما کردیا ہے۔ اہل بیت کا مداح اور ثنا خواں ہونے کا دم بھرنے والے شعرا کے کلام میں معصومین علیہ السلام کے فضائل اور مناقب تو برائے نام ہوتے ہیں اغیار پر بھونڈے طریقے سے لعن طعن زیادہ ہوتی ہے۔ جہاں تک سامعین کے معیار سماعت کا معاملہ ہے وہ بھی سخت ذوال کا شکار ہے۔ بھونڈی اور پھکڑ شاعری اورسطحی سماعت ایک دوسرے کے لئے اب لازم و ملزوم ہو گئی ہیں جسکا مجموعی نتیجہ منقبت اور مقاصدہ کی محفلوں کا وقار اور تقدس مجروح ہونے کی صورت میں برامد ہورہا ہے.
آج شعرا کسی بھی طرح محفلیں لوٹنے کے چکر میں رہتے ہیں۔ محفلوں کی اس لوٹ مار کے لئے خواہ انہیں گلے بازی کا مظاہرہ کرنا پڑے۔ گلا پھاڑ پھاڑ کر چلانا پڑے، ہاتھ پیر پٹخنا پڑیں۔ ہاتھ میں مائک تھام کر جھومنا پڑے، اپنےایک ہاتھ کو دوسرے ہاتھ پر زورزور سے مارنا پڑے، سر و سینا پیٹنا پڑے،مٹھیاں بھینچنا پڑے۔ دانتوں کو پیسنا پڑے۔بے ڈھنگا لباس پہننا پڑے، زلفیں لہرانا پڑیں۔اسٹیج پر تھرکنا پڑے یا سامعین سے گڑ گڑا کر داد کی بھیک مانگنا پڑے غرض وہ ہر قسم کے ہتھ کنڈے اختیار کرکےمحفل کا ہیرو بننا چاہتے ہیں۔
منتظمین بھی ایسے ہی شعرا کو مدعو کرتے ہیں جو انکی محفلوں کو Hit کرا سکیں۔سامعین کی سماعتوں کا معیار اس درجے پر پہونچ گیا ہیکہ معصومین کے فضائل سے بھرپور اشعار انکے پلے نہیں پڑتے۔وہ آئمہ کی شان میں قرآن اور احادیث کے حوالوں سے مزین اشعار پر چپی سادھے بیٹھے رہتے ہیں۔ لیکن پھوہڑقسم کے تبرائی اشعار پر داد کا شور بلند کرکے آسمان سر پر اٹھا لیتے ہیں۔اسکی ایک وجہ یہ بھی ہیکہ شعرا اور سامعین کا بڑا طبقہ اردو سے ہی نا بلد ہے۔ شعر سمجھنا تو دور کی بات ہے وہ اردو کے الفاظ ، حروف اور مصرعوں کو صحیح تلفظ کے ساتھ ادا کرنے تک کی صلاحیت نہیں رکھتا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مسئلہ کا حل کیا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مدحیہ محفلوں کے تقدس کی بحالی اور اسکی حفاظت اب ایک سنگین مسئلہ بن چکی ہے۔سوال یہ ہیکہ آخراس مسئلہ کا حل کیا ہے۔محفلوں کے تقدس کی بحالی کے لئے بانیان محفل، منتظمین محفل، اہل بیت کے مداح ہونے کے دعوے دار شعرا اورمحبان اہل بیت اطہار سامعین کو ہی سرگرم ہونا پڑیگا۔سب سے اہم ذمہ داری منتظمین اور بانیان محفل کی ہے۔ وہ ایسے شعرا کو مدعو ہی نا کریں جوپھوہڑ اور پھکڑ پن کی شاعری کرکے محفلوں کے وقار کو مجروح کرتے ہیں۔ان شعرا کو ہی مدعو کیا جائے تو معصومین علیہ السلام کے فضائل اور مناقب سے سجی سچی اور اچھی شاعری کرتے ہیں۔متانت ، بردباری اور اخلاق و سلیقے کے ساتھ کلام پیش کرتے ہیں۔ صرف ہنگامہ بپا کرنا جنکا کام نہیں۔ شعرا کو مدعو کرنے کے دوران منتظمیں کو ہندو شعرا کو چھوڑ کر غیر شیعہ شعرا کے انتخاب میں بھی احتیاط سے کام لینا چاہئےتاکہ اگر محفل میں تبرائی اشعار پڑھے جائیں تو بد مزگی پیدا ہونے کا امکان ہی نا رہے۔مدعو کرنے کے ساتھ ساتھ شعرا کو یہ بھی باور کرادیا جائے کہ ممدوح کی شان میں ہی کلام پیش کریں اور اغیار پر بھونڈے انداز میں لعن طعن والے اشعار سے گریز کریں۔مسلمانوں کے دیگر مکاتب فکر کے شعرا کو مدعو کرتے وقت انہیں بھی اشارتاَ یہ جتا دیا جائے محفل میں تبرائی اشعار بھی پیش کئے جا سکتے ہیں۔ پھر یہ انکی صوابدید پر ہوگا کہ وہ محفل میں شریک ہوتے ہیں یا نہیں۔
ذمہ داری کے دوسرے درجے پر سامعین ہیں۔سنجیدہ اور سخن فہم سامعین کو محفلوں میں اپنی شرکت کو یقینی بنانا ہوگا۔ محفلوں سے انکی دوری نے معیاری سماعت کے اعتبار سے خلا پیدا کردیا ہے اور وہ خلا بد ذوق اور شعر فہمی کے جوہر سے محروم سامعین سے بھر گیا ہے۔ غیر معیاری کلام نظم کرنے اور بھونڈے پن کا مظاہرہ کرے والا شاعر اگر منتظمین کی لاپروائی کے سبب محفل میں آ بھی جائے تو اسکے غیر معیاری اور پھوہڑ اشعار پر داد نہ دیکر اسکی حوصلہ شکنی کی جائے۔
وقت رہتے اگر ہم نےمنقبتی محفلوں کے تقدس کی بحالی کی کوشش نہ کی تو بہت تاخیر ہو جائےگی اورہم منقبتی محفلوں سے ملنے والی پاک اور روحانی غزا سے محروم ہوتے چلے جائیں گے۔ ایک طرف آنے والی نسلوں کو ہم سے وراثت میں تقدس اور پاکیزگی سے محروم محفلیں ہی نصیب ہونگی اوردوسری طرف محشر میں ہمیں شہزادی کونین کے سامنے اس لئے شرمندہ ہونا پڑیگا کہ محمد وآل محمد کے فضائل اور مناقب کے فروغ اور تشہیر کے ایک موثر پلیٹ فارم کو ہم نے غارت کردیا۔