کسی بھی معاملے پر متحد نہ ہونے والے مسلم ممالک اس وقت ہندستان کے خلاف متحد ہو گئے ہیں۔ خاص بات یہ ہیکہ یہ تمام مسلم اور عرب ممالک ہندستان کے دیرینہ اور قریبی دوست رہے ہیں۔ ان مسلم اور عرب ملکوں میں لاکھوں ہندستانی آباد ہیں اور کروڑوں ڈالر کا زر مبادلہ ہر سال اپنے ملک کو بھیج کر اسکی معیشت کی بہتری میں بھرپور کردار ادا کرتے ہیں۔ لیکن مودی سرکار کی مسلم اور اسلام دشمن پالیسیوں نے مسلم اور عرب ملکوں کو ہندستان کے خلاف کھڑا کردیا ہے۔بر سر اقتدار بی جے پی کے ترجمانوں نوپور شرما اور نوین جندل کے پیغمبر اسلام کے بارے میں گستاخانہ بیانات نے مسلم اور خلیجی ملکوں میں عوام اور حکومتوں کو سخت برہم کردیا ہے۔عرب امارات، سعودی عرب،کویت، ایران، عراق، لیبیا،انڈو نیشیا، مالدیپ،قطر،اردن اور بحرین جیسے ملکوں میں ہندستان مخالفت جزبات تیزی سے ابھررہے ہیں اور حکومتوں نے اس معاملے میں ہندستان سے احتجاج کیا۔ سرکاری اور غیر سرکاری طور سے بیانات جاری کئے گے۔ قطر، ایران اور کویت کی حکومتوں نے ہندستانی سفیروں کو طلب کرکے اس سلسلے میں سخت احتجاج درج کرایا۔
مسلم اور خلیجی ملکوں کے دباؤ کو محسوس کرتے ہوئے نوپور شرما اور نوین جندل کی پارٹی رکنیت ختم کردی گئی۔ اور اب نوپور شرما کے خلاف مذہبی منافرت پھیلانے کے معاملے میں دہلی پولیس نے ایف آئی آر بھی درج کی ہے۔ ان سے جلد ہی پوچھ تاچھ ہوگی۔ ہندستانی حکومت نے اس معاملے پر اپنا دامن بچانے کی یہ کہتے ہوئے کوشش کی ہیکہ رسول اللہ کے تعلق سے ان بیانات کا حکومت سے کوئی لینا دینا نہیں ہے اور یہ بیانات نجی نوعیت کے ہیں۔ لیکن یہ با ت ہضم ہونے میں نہیں آرہی ہے۔ جس پارٹی کے ترجمانوں نے پیغمبر اسلام کی شان میں گستاخی کی ہے مرکز پر اسی پارٹی کی حکومت ہے۔ وزیر اعظم سے لیکر وزیر داخلہ اور وزیر خارجہ سے لیکر وزیر مالیات تک ہر چھوٹا بڑا وزیر اسی پارٹی سے تعلق رکھتا ہے۔تو یہ کہنا کہ حکومت سے ان گستاخانہ بیانانات کا کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ عقل میں آنے والی بات نہیں ہے۔
رسول اسلام کی شان میں گستاخی کے بعد عرب ملکوں میں ہندستان کے خلاف غصہ کم ہوتا نظرنہیں آرہا ہے۔خلیجی ملکوں میں لاکھوں ہندستانی آباد ہیں۔ جو مختلف کمپنیوں اور فیکٹریوں میں ملازمت کرکے کروڑوں ڈالر کماتے ہیں اور ہندستانی معیشت کی بھاری مقدار میں زر مبادلہ کے ذریعے مدد کرتے ہیں۔اس بات کے اثار پیدا ہورہے ہیں کہ خلیجی ملکوں میں ملازمت کرنے والے لاکھوں ہندستانیوں کا روزگار خطرے میں پڑ سکتا ہے۔ ان ملکوں میں عوام حکومت اور کمپنیوں پر دباؤ ڈال رہے ہیں کہ ہندستانی ملازمین کو ہٹایا جائے۔
بحرین میں323292
کویت میں1029861
اومان میں779351
قطر میں756062
سعودی عرب میں2594947
اور متحدہ عرب امارات میں3420000ہندستانی آباد اور بر سر روزگار ہیں۔
اس قسم کی خبریں گشت کررہی ہیں کہ خلیجی ممالک نے پاکستانی اور بنگلہ دیشی ورکروں کے لئے ویزا کھول دیا ہے۔ ان ملکوں میں کمپنیوں اور فیکٹریوں کو ڈھکے چھپے انداز میں ہدایت دی گئی ہیکہ ہندستانی ورکروں اور مزدوروں کو ملازمت سے ہٹا دیا جائے۔ مستقبل میں انکو بھرتی نہ کیا جائے اور انکی جگہ پاکستان اور بنگلہ دیش جیسے ملکوں کے ورکروں کو روزگار دیا جائے۔ گزشتہ آٹھ برس میں ملک کی معاشی حالت بد سے بد تر ہوئی ہے۔اگر خلیجی ملکوں میں بر سر روزگار لاکھوں ہندستانی روزگار سے محروم ہوگئے تو ان مسلم ملکوں سے آنے والا کروڑوں ڈالر کا زر مبادلہ بھی بند ہو جائےگا۔ اور یہ ملکی معیشت کے لئے بہت نقصان دہ ہوگا۔ اگر مودی حکومت ہوش کے ناخن لے تو خلیجی ملکوں میں شدید ہوتے ہوئے ہندستان مخالف جزبات کو سرد کیا جاسکتا ہے لیکن اسکے لئے حکومت کو مسلمانوں اور اسلام کے تعلق سے اپنی پالیسی کو تبدیل کرنا پڑیگا۔ مسلمانوں کے خلاف زہر اگل کر نفرت کا بازار گرم کرنے والوں کے خلاف کاروائی کرنا ہوگی۔