کرناٹک کے تعلیمی اداروں میں حجاب پر پابندی کے معاملے پر کرنا ٹک ہائی کورٹ کے فیصلے نے ملک کے مسلمانوں کو عام طور سے حیرت میں مبتلا نہیں کیاکیونکہ گزشتہ چھ برس میں مسلمانوں سے متعلق جتنے بھی عدالتی فیصلے آئے ہیں زیادہ تر وہ مسلمانوں کے خلاف ہی آئے ہیں۔بابری مسجد قضیہ ہو یا تین طلاق کا معاملہ یا دہلی کے فرقہ وارانہ فسادات کے لئے مسلمانوں کوہی ذمہ دار ٹھہرائے جانے کا معاملہ ہو عداتی فیصلے یک طرفہ ہی رہے ہیں۔
کرناٹک میں حجاب پر پابندی کے معاملے میں کرناٹک ہائی کورٹ کے فیصلے سے مسلمانوں کو حیرت نہیں ہوئی انہیں حیرت کے ساتھ افسوس اس بات پر ہوا ہیکہ حجاب کو اسام کا لازمی جزو نہ ماننے والے کرناٹک ہائی کورٹ کے تین ججوں میں ایک مسلم خاتون جج بھی شامل ہیں ۔ جی ہاں کرناٹک ہائی کورٹ کی بینچ چیف جسٹس ریتو راج اوستھی، جسٹس کرشنا ایس دیکشت اور جسٹس قاضی ایم زیب النسا پر مشتمل تھی۔بینچ کا فیصلہ متفقہ تھا یعنی تینوں ججوں کی رائے اس معاملے میں یکساں تھی۔ جسٹس زیب النسا کے حجاب کے معاملے میں دیگر ہندو ججوں سے متفق ہونے کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ حکومت یا چیف جسٹس کا دباؤ بھی ایک وجہ ہو سکتا ہے۔ ریاستی ہائی کورٹ کا چیف جسٹس بنائے جانے کا وعدہ بھی اسکی ایک وجہ ہو سکتا ہے۔کسی معاملے میں پھنسا دئے جانے کی دھمکی بھی اسکی وجہ ہوسکتی ہے۔ قرآن اور سنت کی جانکاری نہ ہونا بھی اسکی وجہ ہوسکتی ہے۔مذہب بیزاری اور خود کو سیکولر ثابت کرنے کا دماغ میں خناس بھی اسکی ایک وجہ ہوسکتی ہے۔
۔وجہ خواہ کچھ بھی ہو جسٹس قاضی ایم زیب النسا نے حجاب کے معاملے میں اسلامی اصولوں کے خلاف فیصلہ دیکر اپنی عاقبت تو بگاڑ ہی لی ہے۔ بھلے ہی وہ یہ فیصلہ دیکرہندو انتہا پسند قوتوں کی ڈارلنگ بن جائیں لیکن وہ مسلمانوں کی ذلت و رسوائی کا سبب تو بن ہی گئی ہیں۔ جسٹس زیب النسا نے اسلامی اصولوں کی خاطر مخالفت نہیں کرنے کا اقدام کرکے اپنی مصلحت پسندی اور بنت الوقتی کا ثبوت دیا ہے۔ امید جانی چاہئے کہ جسٹس زیب انسا کو حکومت کی جانب سے وفاداری کا ثبوت دینے کے لئے انعام و اعزاز سے نوازدیا جائےگا۔