چند روز قبل کرناٹک میں بارہ ربیع الاول کے جلوس میں شامل کچھ شرپسند عناصر کے ذریعہ تلواریں لہرانے پر پولیس نے فوری کارروائی کرتے ہوئے 19افراد کو گرفتارکرکے جیل بھیج دیا۔یہ قطعی مناسب بھی ہے کہ کسی مذہبی جلوس کے تقدس کو پامال کرتے ہوئے اسلحہ اور طاقت کا مظاہرہ کرنے والوں کے خلاف قانون کا شکنجہ کسا جائے،اور ایسی سرگرمیوں کو بڑھنے کا موقع نہ دیاجائے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی یہ بھی ضروری ہے کہ مذہبی تعصب اور جانبداری کے بغیر کارروائی کی جائے۔بد قسمتی سے ہماری پولیس اور مختلف سلامتی ادارے فسادی عناصر کے خلاف جس طرح کی کارروائیاں کر رہے ہیں ان میں غیر جانبداری کا فقدان نظر آتا ہے۔نتیجہ یہ ہے کہ ایک طرف مسلم طبقے سے تعلق رکھنے والے فسادی عناصر کے خلاف کارروائی کرنے حتیٰ کہ بلڈوزروں سے ان کے مکانات کو منہدم کرنے یا جائیداد قرق کرنے میں تو پولیس اور انتظامیہ انتہائی فعالیت کا مظاہرہ کرتی ہیں لیکن دوسرے فرقے کے فسادیوں کے خلاف سب کچھ جانتے ہوئے بھی نامزد رپورٹ درج کرنے کے معاملے میں اس فعالیت کا مظاہرہ نہیں کرتیں۔
نتیجہ یہ ہے کہ یہ عناصر نہ صرف مسلم اقلیت کے خلاف کھلے عام زہر اگلتے ہیں بلکہ مذہبی جلوسوں میں اسلحہ کا مظاہرہ بھی کرتے ہیں۔ایسے بیشتر معاملوں میں اول تو پولیس فسادیوں کے خلاف رپورٹ درج کرنے سے ہی ڈرتی ہے،اور اگر کسی سبب سے رپورٹ درج بھی کی جاتی ہے تو اس میں کسی ملزم کو نامزد کم ہی کیا جاتا ہے۔حال ہی میں کئی ہندو تیوہاروں کے موقع پر نکالے گئے جلوسوں کی ویڈیو اب بھی سوشل میڈیا پر مل جائینگی۔ان میں فسادی عناصر ’ہندوتوا‘ کی بڑھتی ہوئی طاقت پر فخر کرتے ہوئے اور مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیز نعرے لگاتے ہوئے مل جائینگے، لیکن ایسے کتنے لوگوں کے خلاف تادیبی کارروائی کی گئی یہ کہنا مشکل ہے۔بات صرف مذہبی جلوسوں کے نام پر ہونے والی اشتعال انگیزی اور نفرتی تقریروں تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ بھگوا تنظیمیں،حکمراں جماعت کے ممبران اسمبلی،ممبران پارلیمنٹ حتیٰ کہ کہیں کہیں ریاستی اور صوبائی وزراء تک بھی ماحول میں فرقہ وارانہ نفرت کا زہر گھولنے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں لیکن امن و امان کے لیے ذمہ د ار ادارے خاموش تماشائی بنے رہتے ہیں۔
چند روز قبل ہی اس کا ایک اور ثبوت دلّی میں اس وقت ملا کہ جب ایک ہندو نوجوان کے قتل کے خلاف احتجاج میں وی ایچ پی اور دیگر بھگوا تنظیموں کی طرف سے منعقد ایک پروگرام میں کھلے عام نفرت پھیلانے والی تقاریر کی گئیں۔دلی کے قریب اتر پردیش کے لونی اسمبلی حلقے سے بی جے پی کے رکن اسمبلی نند کشور گوجر نے اس پروگرام میں نہ صرف اشتعال انگیز تقریر کی بلکہ مبینہ طور پریہ اعتراف بھی کیاکہ دلی میں دو سال قبل ہوئے فرقہ وارانہ فساد میں وہ بھی ملوث تھے۔لیکن قابل ذکر بات یہ ہے کہ پولیس نے اس سلسلے میں جو ایف آئی آر درج کی ہے اس میں کسی کو بھی نامزد نہیں کیا ہے۔اس طرح ملزمان کو بچانے کی کوشش کی گئی ہے۔
’وراٹ ہندو سبھا‘کے عنوان سے منعقد اس جلسے سے متعلق کئی ویڈیو وائرل ہو رہے ہیں۔یہ بات جان لیجے کہ اس طرح کی ویڈیو وائرل کرنے میں کسی بی جے پی یا سنگھ مخالف کا نہیں بلکہ خود بھگوا تنظیموں کا ہی ہاتھ ہوتا ہے اور اس کا مقصد بھی سماج میں اشتعال پھیلانا یا اقلیتوں کو خوفزدہ کرنے کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا۔بہرحال ایک ویڈیو کلپ میں گوجر یہ کہتے نظر آرہے ہیں کہ،”دلّی میں سی اے اے پر دنگا ہوا،تب ان جہادیوں نے ہندوؤں کو مارنا شروع کیا….ٓپ لوگ تھے…آپ نے انھیں گھر میں گھسا دیا۔ہمارے اوپر الزام لگا کہ ہم ڈھائی لاکھ لوگ دلّی میں لیکر گھسے،ہم تو سمجھانے کے لیے گئے تھے، لیکن ہم پر پولیس نے مقدمہ درج کر دیاکہ ہم نے جہادیوں کو مارنے کا کام کیا۔ہم جہادیوں کو مارینگے،ہمیشہ مارینگے۔”
واضح رہے کہ یہ جلسہ ایک ہندو نوجوان کے قتل کے خلاف بطور احتجاج منعقد ہوا تھا،حالانکہ پولیس اس معاملے میں اقلیتی فرقے کے چھ لڑکوں کو گرفتار کر چکی ہے۔اس کے باوجود جلسہ کرنے کا مقصد سوائے اشتعال پھیلانے اور اقلیتی فرقے کے خلاف لوگوں کو تشدد کے لیے اکسانے کے علاوہ کیا ہو سکتاہے؟جبکہ پولیس کا کہنا ہے کہ مقتول منیش کا قتل فرقہ وارانہ منافرت کا نتیجہ نہیں تھا بلکہ یہ ایک پرانی رنجش کا نتیجہ تھا۔بہرحال مذکورہ قتل کا ذکر کرتے ہوئے گوجر دلی پولیس کو وارننگ دیتے ہوئے ویڈیو میں کہہ رہے ہیں کہ”ایسا دوبارہ نہیں ہونا چاہیے۔اگلی مرتبہ ہم لونی سے پچاس ہزار آدمی لائینگے…یہ بڑی بات نہیں ہے…پہلے بھی آئے تھے۔جب بھی دلی کو ضرورت ہوگی ہم آدمی لائینگے۔” واضح رہے کہ دو برس قبل دلی میں ہوئے فرقہ وارانہ فساد کے تعلق سے کچھ حلقوں کا الزام ہے کہ اس میں بھگوا تنظیموں کے اتر پردیش سے وابستہ کارکنان تشدد پھیلانے دلّی آئے تھے۔ اب نند کشور گوجر کا مبینہ ویڈیو اس الزام کی تصدیق کررہا ہے۔حالانکہ جب گوجر سے میڈیا نے سوال کیے تو انھوں نے یہ صفائی بھی دی کہ وہ دلی فساد کی بات نہیں کر رہے تھے بلکہ لونی میں ہوئے تشددکی بات کر رہے تھے۔گوجر اسی ویڈیو میں دادری کے اخلاق کے قتل پر بھی زہر اگلتے ہوئے نظر آتے ہیں اور کئی اپوزیشن لیڈروں کو اس معاملے میں نشانہ بناتے ہیں۔اسی جلسے میں پرویش ورمانے مسلمانوں کے مکمل بائیکاٹ کی اپیل بھی کی۔مہنت نول کشور داس نے تو جلسے میں موجود ہندوؤں سے باقاعدہ بندوقیں اٹھانے کی اپیل بھی کی۔
بہرحال مذکورہ ‘وراٹ ہندو سبھا‘ کے انعقاد کے تعلق سے دلّی پولیس نے ایک رپورٹ درج کی ہے،لیکن دلچسپ اور حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ایک عوامی مقام پر کافی دیر تک چلے مذکورہ جلسے کے تعلق سے جو رپورٹ درج کی گئی ہے اس میں نامعلوم منتظمین جلسہ کو ملزم بنایا گیا ہے۔یہ بڑی مضحکہ خیز اور شرمناک بات ہے کہ اقلیتی فرقے کے تعلق سے چھوٹی سے چھوٹی معلومات رکھنے والی پولیس کو ایک ایسے جلسے کے منتظمین اور مقررین کے بارے میں نہیں معلوم کہ جن کا تعلق حکمراں جماعت سے ہے اور جو پارٹی کے اہم و ذمہ دار لیڈر شمار کیے جاتے ہیں۔ پولیس نے اس بات کے لیے ایف آئی آر درج کی ہے کہ منتظمین نے جلسے کی اجازت نہیں لی۔اگر ایسا ہے تو پھر دی پولیس کو امن و قانون کی محافظ ہونے کے اپنے دعوے سے دسبتردار ہو جانا چاہیے،اس لیے کہ اگر بغیر پولیس کی اجازت کے منعقد کیے گئے جلسے کے نتیجے میں کوئی پر تشدد واقعہ رونما ہوجاتا تو کون ذمہ دار ہوتا؟اقلیتی فرقے کے خلاف محض امکانات کی بنا پر کارروائی کرنے والے اگر اس جلسے کے مقررین کی زہر افشانی سے بے خبر رہے تو ان کے خلاف وزارت داخلہ کو سخت کارروائی کرنی چاہیے۔
دوسری اہم بات یہ کہ معاملہ صرف یہ نہیں کہ جلسے کا انعقاد بغیر پولیس کی اجازت کے کیا گیا،بلکہ زیادہ اہم بات یہ ہے کہ جلسے میں ایک خاص فرقے کے خلاف زہر اگلا گیا،اس کے خلاف اشتعال انگیز تقاریر کی گئیں،اور یہ دھمکی بھی دی گئی کہ ضرورت پڑنے پر لونی سے پچاس ہزار فسادیوں کو پھر دلّی لایا جا سکتا ہے۔اسی لیے یہ سوال اہم ہے کہ پولیس کے ذریعہ درج ایف آئی آر میں کسی کا نام کیوں شامل نہیں کیا گیا؟کسی فسادی یا منافرت پر مبنی تقریر کرنے والے کو گرفتار کیوں نہیں کیا گیا؟شائد اس کا سبب یہ ہے کہ پولیس کے لیے قانون کی پاس داری اور اس کے تحفظ سے زیادہ اہم حکمراں جماعت کی خوشنودی ہے۔یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ جلسے کا انعقاد کرنے والوں کا دعویٰ ہے کہ انھوں نے پولیس کو جلسے کے بارے میں مطلع کیا تھا۔اگر منتظمین جلسہ کے اس دعوے کو درست مانا جائے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ جلسے کے تعلق سے پولیس کوصرف مطلع کیا گیا لیکن اس کی باقاعدہ اجازت کسی خاص سبب یا مصلحت کے تحت نہیں لی گئی،یا خود پولیس نے اس معاملے کو محض زبانی سطح تک محدود رکھا۔
بہرحال صورتحال یہ ہے کہ اس معاملے میں تمام ملزمان کے سامنے ہونے کے باوجود نہ تو پولیس نے انھیں ایف آئی آر میں نامزد کیا ہے اور نہ ہی کسی کی گرفتاری ہوئی ہے۔اس لیے دلی پولیس کی ذمہ داری ہے کہ وہ بتائے کہ شرپسند عناصر اب تک کیوں آزاد ہیں،اور انھیں کس لیے نامزد نہیں کیا گیا۔
sirajnaqvi08@Gmail.com Mobile:9811602330