qaumikhabrein
Image default
ٹرینڈنگسیاستقومی و عالمی خبریں

’ظلم‘ پر’فرض شناسی‘ کا نقاب ڈالنے کی کوشش۔۔تحریر سراج نقوی

گجرات کے ضلع کھیڑا میں گذشتہ برس ہوئے ایک واقعہ میں پولیس کے کچھ اہلکاروں کاایک ویڈیو وائرل ہوا تھا۔اس میں یہ پولیس اہلکار کچھ مسلم نوجوانوں کو ایک کھمبے سے باندھ کر پیٹتے نظر آرہے ہیں۔واقعہ گذشتہ برس تین اکتوبر کا ہے۔دراصل معاملہ یہ تھا کہ کھیڑا ضلع میں گربا ڈانس کا ایک پروگرام مسجد کے بہت قریب ہو رہا تھا۔مسلمانوں نے پروگرام مسجد کے قریب رکھے جانے پر اعتراض کیا۔ شائد اس کا سبب یہ تھا کہ کسی بھی ممکنہ تنازعہ سے بچا جائے۔بہرحال مسلمانوں کا اعتراض یا احتجاج اس معاملے میں غلط تھا یا صحیح یہ الگ بحث ہے۔اہم بات یہ ہے کہ مسلمانوں کے اس طرز عمل کے جواب میں مقامی پولیس نے انھیں جو سزا دی اور ان پر جو ظلم اس بہانے کیا گیا اب اس کا دفاع گجرات ہائی کورٹ میں پولیس افسران کر رہے ہیں۔ ان افسران نے عدالت میں دلیل دی ہے کہ مسلم نوجونوں کو کھمبے سے باندھ کر مارنے والے پولیس اہلکار دراصل اپنا فرض ادا کر رہے تھے تاکہ قیام امن و امان کو یقینی بنایا جا سکے۔

گجرات ہائی کورٹ

گجرات ہائی کورٹ میں زیر سماعت اس کیس میں ضلع کھیڑا کے ایس پی راجیش کمار گڑیا نے اپنے حلف نامے میں ملزم پولیس اہلکاروں کا دفاع کیا ہے اور ان کے ذریعہ مسلم نوجوانوں پر کیے گئے تشدد کو درست ٹھہرانے کی کوشش کی ہے۔اپنے حلف نامے میں مذکورہ ایس پی نے کہا ہے کہ،”یہ صرف امن اور بھائی چارہ برقرار رکھنے کے مد نظر کیا گیاکہ مشتبہ افراد کو پکڑا گیا۔”واضح رہے کہ اس معاملے کا جو ویڈیو وائرل ہوا تھا اس میں کچھ لوگ مسلم جوانوں کو ایک کھمبے سے باندھ کر پیٹتے نظر آرہے تھے۔ بعد میں یہ پتہ چلا کہ ملزمان کا تعلق کھیڑا ضلع کی مقامی کرائم برانچ سے تھا۔یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اس سے قبل کاپڑ گنج ڈویزن کے ایس پی نے بھی اس معاملے میں داخل کی گئی اپنی عبوری رپورٹ میں کہا تھا کہ،”ذمہ دار پولیس افسران کے طور پر ملزم پولیس افسران کو ضرورت تھی کہ وہ ’دیگر وسائل‘ کا استعمال کرکے ملزم مسلم نوجوانوں کو کنٹرول کرتے اور انھیں محفوظ مقام پر لے جاتے۔”
بہرحال اس وقعہ کے بعد ملزم پولیس اہلکاروں کے خلاف متاثرہ مسلم نوجوانوں نے گجرات ہائی کورٹ میں ایک عرضی داخل کی جس میں پندرہ پولیس اہلکاروں کو ملزم بنایا گیا۔ان میں آئی جی،کھیڑا کے ایس پی،10کانسٹبل اور مقامی کرائم برانچ کے تین پولیس افسر شامل ہیں۔عرضٰی میں پولیس کے ذریعہ ان ہدایات کی خلاف ورزی کا الزام لگایا گیا ہے کہ جو سپریم کورٹ نے ’ڈی کے بسو بنام مغربی بنگال‘ معاملے کی سماعت کے دوران پولیس کو دی تھیں،اور جن میں گرفتاری اور حراست کے دوران پولیس کے طرز عمل کو طے کیا گیاہے۔عدالت سے عرضی گزاروں نے یہ بھی درخواست کی ہے کہ ملزم پولیس اہلکاروں کے خلاف توہین عدالت کا مقدمہ چلایا جائے اور متاثرین کو معاوضہ دلایا جائے۔اس عرضی کے جواب میں ملزم پولیس اہلکاروں نے دو حلف نامے عدالت میں داخل کیے ہیں ان میں سے ایک میں پولیس اہلکاروں کے ذریعہ مسلم نوجوانوں کی پٹائی کودرست ٹہراتے ہوئے الزام لگایا گیا ہے کہ متاثرہ افراد مجرمانہ ریکارڈ رکھتے تھے اس لیے قانون اور نظم و نسق کی حفاظت کرنا ضروری تھا۔دوسرے حلف نامے میں کہا گیا ہے کہ توہین عدالت کی عرضی بھی قابل سماعت نہیں ہے،اس لیے کہ پولیس اہلکار صرف اپنے فرض کی ادائیگی کر رہے تھے۔یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ مذکورہ واقعے کے فوراً بعد ریاست کے وزیر داخلہ ہرش سانگھوی نے پولیس اہلکاروں کے عمل کو ‘اچھا کام’ بتاتے ہوئے اس کی ستائش بھی کی تھی۔

گجرات وزیر اعلیٰ۔بھوپیندر پٹیل

گجرات حکومت اور انتظامیہ کے سابقہ ریکارڈ اور مسلم اقلیت کے تعلق سے ان کے طرز عمل کے بارے میں زیادہ کچھ کہنے کی ضرورت اس لیے نہیں ہے کہ ملک بھر اور اس سے باہر تک میڈیا اور ذمہ دار طبقے میں اس کی جو امیج ہے وہ جگ ظاہر ہے۔ریاست سے لیکر مرکز تک کی حکومتیں ایسے معاملوں میں اپنے گناہوں کی پردہ پوشی کے لیے خواہ کتنے ہی ہتھکنڈے استعمال کریں لیکن اس کے باوجود بھی ’قاتلوں کے ہاتھ میں پہنے گئے دستانے‘ان کی گناہوں کو چھپانے میں ناکام ہوئے ہیں اور سچائی آج بھی وقفے وقفے سے کسی نہ کسی طرح سامنے آرہی ہے۔اس بات کی طرف اشارہ کرنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ ریاستی پولیس اور انتظامیہ کے ذہن اور ان کے عمل کو ایک خاص لائن کئی دہائی پہلے دی جا چکی ہے اور اس نے یہ مان لیا ہے کہ اقلیتوں کے خلاف تشدد ان کا فرض منصبی ہے۔مسلمانوں کے کسی بھی جائز احتجاج کو روکنا ان کے فرائض میں شامل ہے،اور ہر طریقے سے انھیں بنیادی حقوق سے محروم رکھنے کی کوشش روا ہے۔اس بات کو بھول جایئے کہ آر ایس ایس سربراہ کہہ چکے ہیں کہ مسلمان ہندوستان میں پوری طرح محفوظ ہے۔حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں کو احساس عدم تحفظ میں مبتلا کرنے کی کوششوں کو کچھ قانونی ادارے یا اہلکار قطعی جائز مان چکے ہیں۔اگر ایسا نہ ہوتا تو زیر بحث معاملے کے ملزم پولیس اہلکار عدالت میں داخل کیے گئے حلف نامے میں نہایت بے شرمی سے یہ نہ کہتے کہ انھوں نے جو کچھ کیا اس کا مقصد قیام امن تھا۔ان سے یہ کو ن پوچھیگا کہ کیا قیام امن کا مطلب کسی اقلیت کی آواز کو دباناہے؟ سوائے عدالت کے کس میں یہ ہمت ہے کہ یہ طے کرے کہ پولیس اہلکاروں نے مسلم نوجوانوں کے ساتھ جو کچھ کیا وہ قانونی فرائض کو پامال کرنے کے مترادف تھایا نہیں؟

کس میں یہ ہمت ہے کہ کہے دنیا کا کوئی بھی قانون کسی پولیس اہلکار یا کسی بھی سلامتی ایجنسی کو یہ اختیار نہیں دیتا کہ کسی ملزم کو کسی شارع عام پر کھمبے سے باندھ کر مارا جائے اور اس کا مقصد قیام امن و امان بتاکر قانون کا مذاق اڑایا جائے۔اگر متاثرہ مسلم نوجوانوں نے قانون کے خلاف کوئی عمل کیا بھی تھا تو ان کو گرفتار کیا جا سکتا تھا،ان کے خلاف مناسب دفعات کے تحت مقدمہ قائم کیا جا سکتا اور انھیں اس کے لیے مناسب عدالت میں پیش کرکے کارروائی کو قانونی شکل دی جا سکتی تھی،لیکن اگر کسی ریاست کا وزیر داخلہ ہی پولیس مظالم کا دفاع کرتے ہوئے اپنے پولیس اہلکاروں کے عمل کو ‘اچھا کام’ بتا دے تو سمجھ لیجیے کہ قانون اپنا کام نہیں کر رہا بلکہ قانون کے نام پر ’اقتدار کا جبر‘اور قانون کے محافظوں کے نام پر فسطائیوں کا سرکاری ٹولہ نظام عدل کو پامال کر رہا ہے۔طاقت کو قانون ماننے اور ظلم و تشدد کو فرض کی ادائیگی کا جامہ پہنانے والوں کونہ تو اس ملک کی جمہوری قدار کا کوئی پاس و لحاظ ہے اور نہ ہی اپنے بد ترین عمل پر شرمندہ ہیں۔
ملزم پولیس اہلکاروں کا دفاع کرنے والوں کے تعلق سے عدالت کیا موقف اختیار کرتی ہے اس پر کوئی تبصرہ یا قیاس آرائی کسی بھی طرح ناسب نہیں۔قانون پر بھروسہ رکھنے والے کسی بھی شہری یا کسی بھی میڈیا پرسن کو ایسے معاملے میں میڈیا ٹرائل سے بچنا ہی چاہیے۔لیکن گجرات کے وزیر داخلہ کے مذکورہ بیان اور ریاستی پولیس کے ذریعہ ملزم پولیس اہلکاروں کے دفاع میں دیے گئے دلائل بہرحال اس بات کا ثبوت ہیں کہ موجودہ حکمراں اور ان کے ماتحت سلامتی ایجنسیوں نے ’فرض شناسی‘ کی جو نئی لغت تیار کی ہے اس میں ملک کی اقلیتوں اور کمزور طبقات کے تئیں حکومت کے کارندوں کے فرائض کی تشریح ’ہندوتو‘ کے تئیں ان کے فرائض کے تناظر میں کی گئی ہے،اور موہن بھاگوت اگر یہ کہتے بھی ہیں کہ مسلمان اس ملک میں پوری طرح محفوظ ہیں تو اس کے بین السطور یہ مفہوم بھی پوشیدہ ہے کہ مسلمان اس ملک میں اسی وقت تک محفوظ ہیں جب تک کہ وہ بھگوا ٹولے کی ہر شرارت کے سامنے سر تسلیم خم نہیں کرلیتے،ورنہ انھیں بھی اسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑیگا کہ جس کا سامناکھیڑا کے مظلوم مسلمانوں کو کرنا پڑا۔اس کا مطلب یہ بھی ہوا کہ موجودہ حکمرانوں نے ایک خاص منصوبے کے تحت اپنے مظالم پر ’فرض شناسی‘ کا پردہ ڈالنے کو ہی اپنا شعار بنا لیا ہے۔
sirajnaqvi08@gmail.com Mobi:-9811602330

Related posts

اس سال کا پہلا سورج گرہن 10 جون کو ۔ہندستان میں نہیں ہوگا نظارہ۔

qaumikhabrein

مولانا عباس مسعود محفوظ کر رہے ہیں علمی آثار کو

qaumikhabrein

آرمی کی جانب سے طلبا کے لئے پینٹنگ کے مقابلے کا اہتمام۔

qaumikhabrein

Leave a Comment