qaumikhabrein
Image default
ٹرینڈنگسیاستقومی و عالمی خبریں

دو ریاستوں اور ضمنی انتخابات کے نتائج کا پیغام۔۔۔ سراج نقوی

د و ریاستوں گجرات اور ہماچل پردیش کے علاوہ ایک لوک سبھا سیٹ اور مختلف ریاستوں کی پانچ اسمبلی سیٹوں یا پھر دلی ایم سی ڈی کے لیے ہوئے ا لیکشن کے نتائج بہت چونکانے والے نہیں ہیں۔ خصوصاگجرات کے انتخابی نتائج میں ایک مرتبہ پھر بی جے پی کی جیت ہماری جمہوریت کی ایک الگ ہی کہانی بیان کرتی ہے۔
فی الحال انتخابی نتائج کے تفصیلی جائزے کا موقع نہیں کہ اس کے لیے تمام نتائج کی تفصیلات کا سامنے ہونا ضروری ہے۔جو فی الحال نہیں ہیں۔لیکن موٹے طور پر جو ایک بات سامنے آرہی ہے اس میں انتخابی نتائج پر عام آدمی پارٹی کے اثر کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔یہ پارٹی نہ ہوتی تو بی جے پی اور کانگریس کے راست مقابلے میں تصویرکچھ الگ ہو سکتی تھی۔اس کا یہ مطلب قطعی نہیں کہ کانگریس جیت سکتی تھی،لیکن بی جے پی کے لیے اب تک کی سب سے بڑی جیت حاصل کرنا شائد ممکن نہ ہوتا۔
اسی لیے یہ بات بھی سمجھنی ہوگی کہ گجرات میں بی جے پی سے ناراض ووٹ تقسیم ہوگئے اور بی جے پی کو ایک مرتبہ پھر گجرات کا اقتدار حاصل ہو گیا۔اس بات کو چھوڑ دیجیے کہ گجرات امبانی اور اڈانی کی ریاست بھی ہے،اور یہ دونوں مودی کے مقربین میں شمار ہوتے ہیں۔اصل بات یہ ہے کہ میڈیا میں عآم آدمی پارٹی کی انتخابی مہم کو اس طرح بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیاکہ جیسے کانگریس مقابلے میں نہیں ہے،اور بی جے پی و عآم آدمی پارٹی کے درمیان مقابلہ ہے۔جس میڈیا میں بی جے پی کے علاوہ کسی کو مشکل سے ہی جگہ ملتی ہے اس میں اگر کیجریوال اور ان کی پارٹی بھی کچھ جگہ لے رہی ہے تو اس کے پس پشت اسباب پر غور کرنا ہوگا۔کیا یہ ممکن نہیں ہے کہ ہندوتو وادی طاقتیں عآم آدمی پارٹی کو کسی خاص منصوبے کے تحت آگے بڑھا رہی ہیں۔یہ مضمون لکھے جانے تک انتخابی نتائج کی جو غیر مکمل تصویر سامنے آئی ہے اس میں عآم آدمی پارٹی ووٹ حاصل کرنے کے اعتبار سے کانگریس سے پیچھے ہی ہے۔اس حقیقت کو بی جے پی کی ’تاریخی‘ جیت کے تناظر میں دیکھیں تو بہت کچھ سمجھ میں آ جائیگا۔البتہ
کیجریوال اس بات سے خوش ہیں کہ ان کی پارٹی کو اتنے ووٹ بہرحال مل گئے کہ اس بناء پر اسے قومی پارٹی کا درجہ مل گیا ہے،اور’کانگریس مکت بھارت‘کی دوڑ میں وہ بھی شامل ہوگئے ہیں۔

جہاں تک ہماچل کا تعلق ہے تو یہاں کانگریس کی جیت پہلے ہی سے طے مانی جا رہی تھی،اور نتائج امید کے مطابق ہی ہیں۔ہماچل میں عوام کا مزاج بدلتا رہتا ہے ا ور یہاں تقریباً ہر الیکشن میں عوام اپنی پسند بدل دیتے ہیں۔انتخابی نتائج کو پہلے مرحلے میں ہی یہاں پر متاثر کرنا آسان نہیں۔البتہ مستقبل میں وفاداریاں خریدنے کی کوشش اگر کی گئی تو کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ویسے یہاں کانگریس کو واضح اکثریت ملی ہے۔اس لیے وفاداریاں خریدنے کے لیے کافی ’سرمایہ کاری‘ کی ضرورت ہوگی۔بہرحال فی الحال موضوع گفتگو یہ نہیں ہے۔اصل بات یہ ہے کہ مودی کا جادو صرف اپنی ریاست تک ہی محدود رہا ہے، اور ہماچل یا دوسری ریاستوں میں ہوئے ضمنی انتخابات میں عوام نے بی جے پی کو مسترد کر دیا ہے۔

البتہ اتر پردیش کے رامپور میں ایک اسمبلی سیٹ کے لیے ہوئے الیکشن میں بی جے پی کی جیت کو اس معاملے میں مستثنیٰ قرار دیا جا سکتا ہے۔لیکن کیا یہ عجیب بات نہیں کہ ہمیشہ سے زبردست پولنگ والی اس سیٹ پر اس مرتبہ35فیصد سے بھی کم ووٹ ڈالے گئے؟کیا اس کا سب ووٹروں کی الیکشن میں کم دلچسپی رہی یا پھر یوگی کی پولیس کے سر اس حیران کن جیت کا سہرا باندھا جائے؟اس لیے کہ سماجوادی پارٹی نے صاف طور پر الزام لگایاہے کہ پولیس نے اس کے ووٹروں کو ووٹ ڈالنے سے جبراً روکا۔ان کے ساتھ مارپیٹ کی گئی جس میں کئی خواتین تک زخمی ہو گئیں۔ریاستی حکومت او راعظم خاں کے درمیان اس وقت جس طرح کی کشیدگی ہے اسے دیکھتے ہوئے سماجوادی پارٹی کے الزام کو پوری طرح مسترد نہیں کیا جا سکتا۔عام طور پر یہاں اب تک ہوتی رہی ووٹنگ سے بہت کم ووٹ پڑنا بھی سوال تو کھڑے کرتا ہی ہے۔بی جے پی میں انتقامی جذبہ جس شدت سے پایا جاتا ہے اسے بھی اعظم خاں کے خلا ف قائم کیے گئے بے شما ر مقدمات میں دیکھا جا سکتا ہے۔بہرحال ان تمام باتوں سے کچھ حاصل نہیں،اور سچ بہرحال یہی ہے کہ ’کسی بھی طرح‘ بی جے پی نے اعظم خان کے اس گڑھ پر قبضہ کرکے اپنے ارمان پورے کر لیے ہیں۔البتہ مین پوری کی لوک سبھا سیٹ پر بی جے پی امیدوار کی زبردست شکست نے ایک مرتبہ پھ یہ ثابت کر دیا ہے کہ ملائم سنگھ کی موت سے خالی ہوئی اس سیٹ پر ان کے ہی خاندان کا قبضہ رہیگا۔واضح رہے کہ اس سیٹ پر یادو ووٹوں کی تعداد چالیس فیصد سے زیادہ ہے،اور وہ یادو ووٹ بھی سماجوادی پارٹی کو ہی ملتے ہیں کہ جو عام حالات میں بی جے پی کی طرف شفٹ ہوجاتے ہیں۔ رامپور ہارنے کے باوجود سماجوادی پارٹی کی حلیف جینت چودھری کی پارٹی کو کھتولی میں جیت حاصل ہو گئی ہے۔اس سیٹ پر جاٹ اور مسلم ووٹوں نے جینت کی پارٹی کو جتانے میں بڑا رول ادا کیا۔مین پوری سیٹ کے انتخابی نتیجے نے سماجوادی پاٹی کو ایک اور فائدہ یہ پہنچایا ہے کہ اس جیت کے بعد شیوپال یادو نے اپنی پارٹی کو سماجوادی پارٹی میں ضم کرنیکا اعلان کر دیا ہے۔
واضح رہے کہ شیو پال یادو نے اس الیکشن میں اکھیلیش کی اپیل پر ان کی اہلیہ ڈمپل کے لیے انتخابی مہم میں اسٹار کمپینر کے طور پر حصہ لیا تھا۔شیو پال کے اکھیلیش کے ساتھ آنے کا فائدہ سماجوادی پارٹی کو آئیندہ پارلیمانی الیکشن میں مل سکتا ہے۔

واضح رہے کہ شیو پال یادو نے اس الیکشن میں اکھیلیش کی اپیل پر ان کی اہلیہ ڈمپل کے لیے انتخابی مہم میں اسٹار کمپینر کے طور پر حصہ لیا تھا۔شیو پال کے اکھیلیش کے ساتھ آنے کا فائدہ سماجوادی پارٹی کو آئیندہ پارلیمانی الیکشن میں مل سکتا ہے۔
باقی اسمبلی سیٹوں کی بات کریں تو ان میں کوئی بھی ایسی بات نہیں کہ جو چونکانے والی ہو۔شائد بی جے پی نے بھی ان ضمنی انتخابات پر ہماچل اور گجرات اسمبلی الیکشن کے سبب اتنی توجہ نہیں دی تھی جتنی کہ عام طور پر دیتی ہے۔چھتیس گڑھ،اڑیسہ اور بہار میں ہوئے اسمبلی انتخابات میں بھی بی جے پی کو شکست کا منھ دیکھنا پڑا ہے۔ان تینوں ہی ریاستوں میں بی جے پی اقتدار میں نہیں ہے۔عموماً ایسے حالات میں عوام حکمراں جماعت کے امیدوار کو ہی ووٹ دینا پسند کرتے ہیں۔۔
مجموعی طور پر دیکھیں تو مذکورہ انتخابی نتائج بی جے پی کے لیے بہت زیادہ خوش کن نہیں کہے جا سکتے۔

البتہ ان انتخابات کا ایک اہم پہلو عآم آدمی پارٹی کا پھیلتا ہوا دائرہ ہے۔گذشتہ کسی کالم میں راقم اس بات کی طرف اشارہ کر چکا ہے کہ ’ہندوتو وادی‘طاقتیں بی جے پی کے متبادل کے طور پر عآم آدمی پارٹی کا دامن تھام سکتی ہیں۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ بشمو ل کانگریس سیکولر پارٹیوں کے لیے خطرہ صرف بی جے پی ہی نہیں بلکہ عآم آدمی پارٹی بھی ہے جس کی فرقہ پرستی اب کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔شائد یہی وجہ ہے کہ دلی میں ایم سی ڈی الیکشن میں بی جے پی کی شکست اور عآدمی پارٹی کی جیت کے باوجود بیشتر مسلم علاقوں میں عآم آدمی پارٹی کوحمایت نہیں ملی۔اس لیے کہ دلی فسادات سے لے کریکساں سول کوڈ،دفعہ370۔سی اے اے اور ایسے تمام معاملات میں اس پارٹی کا موقف وہی رہا ہے جو سنگھ پریوار یا بی جے پی کا ہے۔اس سے صاف ہے کہ عآم آدمی پارٹی کا راستہ سیکولرزم نہیں ہے۔یہ الگ بات کہ کیجریوال نے بطور دلی کے وزیر اعلیٰ کے ایسے کئی کام کیے ہیں کہ جنھیں مفاد عامہ کے زمرے میں رکھا جا سکتا ہے،اور ان کا فائدہ بہرحال مسلمانوں کو بھی ملا ہے،لیکن یہ بات بھی ذہن نشین رکھنی ہوگی کہ موجودہ حالات میں بڑا یشو سیکولرزم اور آئین و جمہوریت کا تحفظ ہے۔جو پارٹی خواہ وہ بی جے پی ہو یا عآم آدمی پارٹی یا پھر دیگر کوئی بھی پارٹی اگر ان ایشوز کو نظر انداز کرتی ہے تویہ جمہوریت کے مفاد میں نہیں ہے۔گجرات وہماچل پردیش کے اسمبلی انتخابات،پانچ اسمبلی اور ایک سیٹ کے پارلیمانی انتخابات اور دلی ایم سی ڈی الیکشن کے نتائج کو سامنے رکھ کر اس پہلو پر سنجیدگی سے غور کرنا اور آئیندہ کے لیے لائحہ عمل طے کرنا ہوگا۔
sirajnaqvi08@gmail.com Mobile: 09811602330

Related posts

احمد آباد۔۔ کسان لیڈروں کو پریس کانفرنس نہیں کرنے دی گئی

qaumikhabrein

اب گھر میں با جماعت نماز پڑھنا بھی جرم ہوگیا

qaumikhabrein

مودی ہیں تو سب کچھ ممکن ہے۔

qaumikhabrein

Leave a Comment