
دلتوں کے تعلق سے سنگھ پریوار کا جو نظریہ ہے وہ جگ ظاہر ہے۔شائد یہی سبب ہے کہ سنگھ کی ماڈل ریاست کہے جانے والے گجرات میں دلتوں پر مظالم کے تعلق سے اکثر ایسی باتیں سامنے آتی رہتی ہیں جو اس بات کی تصدیق کرتی ہیں کہ اس ریاست میں دلت آج بھی مبینہ اعلیٰ ذاتوں کے مظالم کے شکار ہیں۔اس کا تازہ ثبوت چند روز قبل گجرات کے ضلع پاٹن کے گاؤں کاکوشی میں پیش آیا ایک واقع ہے۔بتایا جاتا ہے کہ گاؤں کے ایک اسکول کے میدان میں کرکٹ میچ چل رہا تھا۔اس دوران آٹھ سال کے ایک بچّے نے گیند کو اٹھا لیا۔اعلیٰ ذات کے کچھ لوگ بچّے کی اس حرکت پر اس قدر ناراض ہوئے کہ انھوں نے بچّے کے چچا کو اس بات پر اپنے غصّے کا نشانہ بناتے ہوئے لاٹھی،ڈنڈوں اور تلوار سے حملہ کر دیااور اس کا انگوٹھا کاٹ دیا۔

کسی دلت کے خلاف گجرات میں ظلم کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے۔کبھی کسی دلت دولھا کو گھوڑی پر سے اتار کر مارنے،کبھی کسی کو کسی اعلیٰ ذات شخص کو چھونے اور اسی نوعیت کے دیگر واقعات کی پاداش میں نشانہ بنانے کے واقعات اکثر سامنے آتے رہتے ہیں۔ایسے واقعات میں پولیس اور انتظامیہ کا رویہ کیا ہوتا ہے اس پر کوئی سوال اٹھانے کی بجائے صرف سامنے کی سچّائی پر غور لینا کا فی ہے کہ ملک کی یہ ریاست دلتوں پر مظالم کے معاملے میں دیگر ریاستوں سے کافی آگے ہے۔حالانکہ وزیر اعظم مودی خود کو پسماندہ سماج کا بتا کر پورے ملک میں پسماندہ طبقات اور دلتوں کو پارٹی سے جوڑنے کے لیے اس بات کو بہت شدّت سے اٹھاتے رہے ہیں۔گجرات کے مسلم کش فسادات میں بھی دلتوں کو سنگھ کے ذریعہ خوب استعمال کیا گیا تھا۔اس کے باوجود حالات یہ ہیں کہ اگر دلت کا کوئی بچّہ بھی کھیل کے میدان میں کسی اعلیٰ ذات کے کھلاڑی نہیں بلکہ گیند کو بھی چھو لیتا ہے تو اس کے چچا کو مارا پیٹا جاتا ہے اور اس کا انگوٹھا کاٹ دیا جاتا ہے۔

حالانکہ گجرات میں دلتوں پر مظالم کا یہ سلسلہ بہت پرانا ہے۔جون2018میں گجرات کے ضلع گاندھی نگر کی تحصیل مانسا کے گاؤں پارسا میں گھوڑی پر بارات لیکر پہنچے ایک دلت کو اعلیٰ ذات کے مدعی افراد نے گھوڑی سے نیچے اتار دیا تھا اور بعد میں پولیس کی موجودگی میں شادی کی رسومات انجام پائی تھیں۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ نیشنل کرائم بیورو نے 2016کے تعلق سے اپنی ایک رپورٹ میں کہا تھا کہ اس سال درج فہرست ذاتوں پر مظالم کے واقعات میں اضافہ ہوا اور یہ تعدا د سال گذشتہ میں پیش آئے دلت مخالفت 1010واقعات کے مقابلے میں بڑھ کر 1322ہوگئی۔ریاست میں کبھی کسی دلت خاتون کو اس لیے پیٹا جاتا ہے کہ وہ کرسی پر کیوں بیٹھی،کبھی ان کے ذریعہ کسی اعلیٰ ذات کے شخص کو چھونے پر زد وکوب کیا جاتا ہے۔کبھی کسی اعلیٰ ذات کی لڑکی یا لڑکے سے شادی کے معاملے پرانھیں ظلم کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔گجرات ملک کی ان پانچ ریاستوں میں شامل ہے کہ جہاں دلتوں پر سب سے زیادہ مظالم ہوتے ہیں۔کچھ لوگ اس بات پر معترض ہو سکتے ہیں کہ جب دیگر چار ریاستوں میں بھی دلتوں کے حالات گجرات جیسے یا اس سے بھی زیادہ خراب ہیں تو پھر گجرات پر ہی نشانہ کیوں؟ لیکن یہ یاد رکھنا چاہیے کہ گجرات کو سنگھ پریوار اور بی جے پی اپنی ماڈل اسٹیٹ کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ دوسری اہم بات یہ کہ وزیر اعظم نریندر مودی اور بی جے پی حکومت میں دوسرے سب سے طاقتور لیڈر اور وزیر داخلہ امت شاہ کا تعلق بھی اسی گجرات سے ہے۔اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ دلتوں پر مظالم کے واقعات میں سب سے زیادہ اضافہ بی جے پی کے دور اقتدار میں ہی ہوا ہے۔قارئین اس سے خود نتائج اخذ کر سکتے ہیں۔یہ حقائق بھی گجرات میں دلتوں کے حالات بتانے کے لیے کافی ہیں کہ یہا ں سال در سال دلتوں پر ظلم کے واقعات میں اضافہ ہی ہو رہا ہے،اور یہ اس بات کاثبوت ہے کہ دلتوں پر ظلم کرنے والے موجودہ حکومت میں خود کو بے لگام مان چکے ہیں۔

ریاست میں گزشتہ برس ہی اسمبلی انتخابات ہوئے ہیں۔ان انتخابات میں بی جے پی نے شاندار جیت درج کی ہے،لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ بی جے پی کی مخالفت میں بولنے والے اور اسے ووٹ نہ دینے کی بات کرنے والے بھی پارٹی کی جیت نہیں روک سکے۔جبکہ دلتوں اور مسلمانوں کی مخالفت کو دیکھتے ہوئے ریاست کے اقتدار سے بی جے پی کوبے دخل ہو جانا چاہیے تھا،لیکن اگر ایسا نہیں ہو سکا تو پھر اپوزیشن پارٹیوں کو اس کے اسباب پر غور کرنے اور ایسے حالات کے خلاف لڑنے کی بھی ضرورت ہے کہ جس میں بی جے پی تمام منفی حالات کے باوجود جیت درج کرنے میں کامیاب ہوئی۔اس جیت کے پس پشت واقعی عوامی حمایت کا رول تھا یا پھر دبے کچلے طبقات کے ووٹروں کو پولینگ باتھ تک نہیں آنے دیا گیا،یا پھر کسی ڈر،خوف یا لالچ کے سبب یہ طبقات کھلے ذہن کے ساتھ ووٹ نہیں ڈال سکے اس پر 2024کے پارلیمانی الیکشن سے پہلے اپوزیشن کو سنجیدگی سے غور کرنا ہوگا۔

واضح رہے کہ گجرات میں دلت آبادی آٹھ فیصدی کے قریب ہے جبکہ مسلمانوں کی آبادی دس فیصدی سے بھی کچھ زیادہ ہے۔ایسے میں اگر اٹھارہ فیصدی ووٹ بھی بی جے پی کو ریاست کے اقتدار سے بے دخل کرنے میں کامیاب نہیں ہوا تو اس پر بی جے پی مخالف پارٹیوں کو سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔ایک اور قابل ذکر بات یہ ہے کہ دلت مخالف واقعات میں احمد آباد سر فہرست ہے جو ریاستی راجدھانی سے ملا ہوا شہر ہے۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ ریاستی انتظامیہ دلتوں پر مظالم کے تعلق سے حساس نہیں ہے،ورنہ ریاست کے سب سے اہم شہروں میں سے ایک اس شہر میں حالات اتنے خراب نہ ہوتے۔دراصل گزشتہ برس ہی ریاستی پولیس نے دلتوں پر مظالم کے تعلق سے جو اعداد و شمار جاری کیے تھے ان میں بتایا گیا تھا کہ صرف احمد آباد میں ہی دلتوں کے خلاف مظالم کے سب سے زیادہ 1425واقعات درج کیے گئے تھے

اسی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ روزانہ اوسطاًچار دلت مخالف واقعات اس شہر میں پیش آئے۔
دلتوں پر ہونے والے ان مظالم کا ہی نتیجہ ہے کہ ریاست میں وقفے وقفے سے دلتوں کے بودھ مذہب اختیار کرنے کی خبریں بھی آتی رہتی ہیں۔اس کا دوسرا اور بیحد اہم پہلو یہ ہے کہ دلتوں پر ہونے والے ان مظالم کی رپورٹیں درج ہونے اور مقدمات قائم ہونے کے باوجود بھی ملزمان کو سزائیں بہت کم ہی مل پاتی ہیں۔صورتحال یہ ہے کہ گجرات میں دلتوں سے متعلق مقدمات میں سزا پانے والے مجرموں کااوسط باقی ملک سے کافی کم ہے۔یہی وجہ ہے کہ2018سے2021کے دوران دلتوں پر مظالم سے متعلق 5,369مقدمات درج کیے گئے لیکن ان میں صے صرف 32مقدمات میں ہی ملزمان کے خلاف جرم ثابت ہو سکا۔سوال یہ ہے کہ اس کا سبب کیا ہے؟دراصل اس نوعیت کا کوئی واقعہ ہونے پر مختلف حلقوں سے پڑنے والے دباؤ کے سبب پولیس مقدمہ تو درج کر لیتی ہے لیکن بعد میں ملزم کو کیفر کردار تک پہنچانے میں دلچسپی کا مظاہرہ نہیں کیا جاتا۔نتیجہ یہ ہے کہ قصور واروں کو سزا نہیں مل پاتی۔ان میں بہت سے مقدمے سنگین جرائم سے متعلق بھی ہوتے ہیں۔
لیکن مذکورہ بالا حقائق کے باوجود یہ بات بھی ناقابل فہم ہے کہ دلتوں کی ایک بڑی تعداد کے بارے میں یہ کہا جا رہا ہے کہ وہ ہندو راشٹر اور مساوات کے قیام کے لیے بی جے پی کے ساتھ ہیںاور اسے ہی ووٹ ڈالتے ہیں۔اب یہ کہنا مشکل ہے کہ یہ صورتحال دلتوں پر کسی دباؤ کا نتیجہ ہے یا پھر واقعی دلت طبقات بی جے پی کے مبینہ دلت پریم سے متاثر ہیں۔
sirajnaqvi08@gmail.com Mobile:9811602330