qaumikhabrein
Image default
ٹرینڈنگسیاستقومی و عالمی خبریں

زہر کی کھیتی کر رہا ہے ’حاشیہ بردار میڈیا‘۔۔۔ سراج نقوی

’دی وائر‘ میں شائع ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ایک سروے میں 82فیصدی صحافیوں نے
اعتراف کیا ہے کہ ان کے ادارے بی جے پی اور اس کی حکومتوں کی حمایت کرتے ہیں۔اس صورتحال کے سبب صحافیوں کا بڑا طبقہ نہ صرف یہ کہ اپنی ملازمتوں سے مستعفی ہوچکا ہے یا پھر اسے ہٹا دیا گیا بلکہ ہے۔ایسے صحافیوں کی بھی بڑی تعدا د ہے کہ جنھوں نے اس پیشے سے ہی علیحدگی اختیار کرلی ہے، اور روزگار کے دیگر وسائل تلاش کر لیے ہیں یا کر رہے ہیں۔ظاہر ہے یہ صورتحال ہمارے ملک میں حقیقی صحافت کے زوال کی طرف اشارہ کرتی ہے،اور اسے جمہوریت کے لیے ایک بڑے خطرے سے بھی تعبیر کیا جا سکتا ہے۔اس لیے کہ بیباک صحافت ہی جمہوریت کا چوتھا ستون کہلانے کی حقدار ہے اور ملک کے ’مین اسٹریم میڈیا‘ میں اس کا فقدان نظر آتا ہے۔
دراصل مودی حکومت کے اقتدار سنبھالنے کے بعد ہندوستانی میڈیا نے جس طرح اپنا وقار گنوایا ہے اس کی کوئی مثال آزاد ہندوستان کی تاریخ میں نہیں ملتی۔حتیٰ کہ ایمرجنسی کے جس دور کو مودی اور ان کی پارٹی پانی پی پی کر کوستے ہیں اس دور میں بھی میڈیا کے ایک حصّے نے پامردی سے حالات کا مقابلہ کیا تھا اور عصر حاضر کے ہندوستانی میڈیا کی طرح حکومت کے سامنے خود سپردگی نہیں کی تھی۔سب سے اہم بات تو یہ ہے کہ ایمرجنسی کے دور میں میڈیا نے حکومت کی خواہ کتنی ہی حاشیہ برداری کی ہو لیکن حکمرانوں کے سیاسی فائدے کے لیے نفرت کی کھیتی بہرحال نہیں کی گئی۔جبکہ مودی حکومت کے اب تک اقتدار میں مین اسٹریم میڈیا نے بھگوا طاقتوں کے سیاسی مفادات کا آلۂ کاربنتے ہوئے بی جے پی اور غیر بی جے پی عناصر کے درمیان صرف خط فاصل کھینچنے کا کام ہی نہیں کیا،بلکہ سنگھ اور بی جے پی کے ’ہندو راشٹر‘ کے خواب کو شرمندہء تعبیر کرنے کے لیے تمام صحافتی دیانتداری کو بھی بالائے طاق رکھ دیا گیا۔ملک کی مذہبی اقلیتوں و اکثریت کے درمیان تقسیم کی ایسی لائن کھینچنے کی بھی کوشش کی گئی کہ جس کے نتیجے میں ہماری صدیوں پرانی مذہبی رواداری،فرقہ وارانہ اتحاد اور یکجہتی کا بھی جنازہ نکل گیا۔

قومی میڈیا نے جس طرح گذشتہ ۹ سال میں حکمرانوں کے اشارے پر نفرت کی کھیتی کی ہے اسی کا نتیجہ ہے کہ آج یہ ملک فرقہ وارانہ تشدد کی آگ میں جل رہا ہے۔بے قصوروں کو حکمرانوں کے پالے ہوئے غنڈوں اور قاتلوں کے ذریعہ تہہِ تیغ کیا جا رہا ہے۔ لیکن میڈیا اس مسئلے پر یا حکومت کی غلط پالیسیوں کے نتیجے میں پیدا دیگر مسائل پر ایک لفظ تک بولنے یا لکھنے سے گریز کرتا ہے۔حالانکہ قومی میڈیا کی اس پالیسی نے خود اسے کتنا نقصان پہنچایا ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ آج ملک کے بڑے ٹی وی چینلوں کو دیکھنے والوں کی تعداد میں بڑی کمی آئی ہے جبکہ بی جے پی کے بھونپو چینلوں کو چھوڑ کر اپنے اپنے یو ٹیوب چینل شروع کرنے والے کئی نامور صحافیوں کے ان چینلوں کے ناظرین کی تعدا د قومی چینلوں کے ناظرین سے کافی زیادہ ہو چکی ہے۔
’لوک نیتی‘ اور ’سینٹر فار دی اسٹڈی آف ڈیولپنگ سوسائٹیز‘(سی ایس ڈی ایس) کے مذکورہ سروے میں شامل صحافیوں میں سے نصف سے زیادہ کا کہنا تھا کہ وہ اپنے اداروں کے سیاسی جھکاؤ کے سبب اپنی ملازمت کھونے کے تعلق سے فکر مند ہیں۔ظاہر ہے ہر غلط کو حکومت کی حاشیہ برداری کے سبب صحیح قرار دینا اور اس کے حق میں ہٹ دھرمی پر آمادہ ہونے کا ذلّت آمیز رویہ اختیار کرنا ہر صحافی کے بس کا کام نہیں۔اس کے لیے جس سطح کی بے ضمیری اور بے غیرتی کی ضرورت ہوتی ہے وہ دلالوں کے پاس تو ہو سکتی ہے لیکن حقیقی صحافیوں کے پاس نہیں۔نتیجہ یہ ہے کہ غیرتمند صحافی ملازمت کے تعلق سے پریشان ہیں تو صحافت کے نام پر دلالی کرنے والے ضمیروں کی فوج نے قومی میڈیا پر قبضہ کر لیا ہے۔ المیہ یہ بھی ہے کہ قومی میڈیاکا بڑا حصہ ان سرمایہ داروں نے خرید لیا ہے جو فرقہ پرستوں کی سازشوں کو اپنی دولت کے توسط سے کامیاب بنا رہے ہیں،اور جس کے نتیجے میں سیاست دانوں کے ضمیروں کی خرید و فروخت نے تما م سابقہ ریکارڈ توڑ دیے ہیں۔یہ بات دوہرانے کی ضرورت نہیں کہ سماج دشمن طاقتوں کا اقتدار پر قبضہ بر قرار رکھنے میں سرمایہ داروں،صحافی نما دلالوں اور مجرم پیشہ عناصر کا مثلث کیا رول اداکر رہا ہے۔ سی ایس ڈی ایس کی سروے رپورٹ میں اس صورتحال کے صحافیوں سے متعلق پہلو کوا ٓسانی سے دیکھا اور سمجھا جا سکتا ہے۔

مذکورہ سروے میں شامل 16فیصد سے زیادہ صحافیوں نے یہ اعتراف کیا کہ ان کے ادارے میں لوگوں کو سیاسی جھکاؤ کے سبب ملازمت سے سبکدوش ہونے کے لیے کہا گیا۔سروے میں شامل صحافیوں میں سے 82فیصدی صحافیوں نے یہ اعتراف بھی کیا کہ ان کا ادارہ حکمراں بی جے پی کی حمایت کرتا ہے۔یہ حمایت پیسوں کے سبب کی جاتی ہے یا پھر فرقہ پرست طاقتوں کے غنڈے ایسا کرنے کے لیے مجبور کرتے ہیں یہ تو واضح نہیں ہے لیکن کسی بھی صحافتی ادارے کا کسی بھی سیاسی پارٹی سے وابستہ ہونا درحقیقت جمہوریت کے اس چوتھے ستون کی بنیادیں کمزور کر رہا ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ ایک طرف ہندی صحافیوں میں سے 64فیصدی نے جبکہ انگریزی میں 81فیصدی نے یہ مانا کہ نیوز میڈیا ایک خاص پارٹی کی حمایت کر رہا ہے۔اس سے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ ہندی کے صحافی حکومت کے یا تو زیادہ دباؤ میں ہیں یا پھر ’ہندو راشٹر‘ کا فرقہ پرستوں کا نعرہ انھیں زیادہ متاثر کر رہا ہے، اسی لیے وہ حکمرانوں کی جی حضوری کا اعتراف کرنے سے گریز کرتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ سروے میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ انگریزی کے 88فیصدصحافی ’پریس کی آزادی‘ کے تعلق سے زیادہ فکر مندہیں ایک اہم پہلو اس سروے کا یہ ہے کہ صحافیوں کی بڑی تعداد نے اس میں شرکت سے گریز کرنے میں ہی عافیت سمجھی۔ ان میں خواتین صحافیوں کی تعداد مردوں سے کافی زیادہ تھی۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ درباری صحافیوں پر حکمرانوں کا خوف اس حد تک غالب ہے کہ وہ کسی سروے میں نام ظاہر نہ کیے جانے کے باوجود یا پھر کسی مفاد کے تحت شامل ہونے سے گریزاں رہے۔سروے سے یہ بات بھی سامنے آئی کہ تقریباً 70فیصدی صحافیوں نے اپنی موجودہ ملازمت کے سبب ذہنی صحت متاثر ہونے کا بھی اعتراف کیا۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ موجودہ حکمراں خود تو لاعلاج نفسیاتی بیماریوں کے شکار ہیں ہی،لیکن ان کی آمرانہ پالیسیوں نے ملک کے صحافیوں کی ذہنی صحت کو بھی خراب کرنے کا کام کیا ہے،اور ایسا صرف اقتدار پر قابض رہنے و اپنی مخالفت میں اٹھنے والی آوازوں کو خاموش کرنے کے مقصد سے کیا گیا۔

حکمرانوں کی اس سنک میں ان کا ساتھ دینے والے حاشیہ بردار میڈیا یا گودی میڈیا نے فرقہ پرستوں کی شروع کی گئی ’نفرت پھیلاؤ،الیکشن جیتو مہم‘ کو کس مقام تک پہنچا دیا اس کے نتائج سامنے آرہے ہیں۔منی پور میں جو کچھ ہوا یا اب تک ہو رہا ہے اسے میڈیا اور حکمرانوں کے اسی گٹھ جوڑ کا نتیجہ کہا جا سکتا ہے۔ممبئی جانے والی ایک ٹرین میں تین مسلمانوں اور ایک آر پی ایف افسر کا آر پی ایف کے ہی ایک کارکن کے ذریعہ قتل بھی نفرت کی اسی کھیتی کا نتیجہ ہے۔اسی نفرت کی کھیتی نے ہریانہ کے اس میوات کو بھی تشدد کی آگ میں جھونک دیا کہ جو میوات بابری مسجد کی شہادت کے موقع پر بھی پر امن رہا تھا۔جس میوات نے آزادی سے اب تک ملک کے لیے اتنی قربانیاں دی ہیں کہ جس کا عشر عشیر قربانیاں دینے کا تصور بھی فرقہ پرست غنڈے نہیں کر سکتے۔اس وقت ملک میں جو فضا بنانے کی مجرمانہ سازشیں ہو رہی ہیں اس کے لیے صرف کسی سیاسی پارٹی کو ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ ملک کو اور خصوصاً مسلمانوں کو خاک و خون میں غلطاں کرنے کے لیے بھگوا عناصر کے ساتھ ساتھ مفاد پرست سرمایہ دار اور نفرت کی کھیتی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والا دلال میڈیا بھی ذمہ دارہیں۔ البتہ یہ طے ہے کہ جب احتساب کا وقت آئیگا تو اسے بھی اس سنگین جرم کی سزا بھگتنی پڑیگی۔
sirajnaqvi08@gmail.com Mobile:9811602330

Related posts

جستن بیبر کے چہرے پر گرا فالج۔ حجاب کا اڑایا تھا مذاق

qaumikhabrein

سبزی فروش فیصل کو پولیس اہلکاروں نے پیٹ پیٹ کر مار ڈالا۔

qaumikhabrein

مولانا کلیم الدین کی گرفتاری کے خلاف اورنگ آباد میں احتجاجی دھرنا۔

qaumikhabrein

Leave a Comment