حماس کے سیاسی بیورو کے رکن محمد نزال کا جنگ بندی سے متعلق مذاکرات کے بارے میں کہنا ہے کہ یہ مذاکرات جاری ہیں،لیکن یہ نہیں کہا جا سکتا کہ پیرس 2کے مذاکرات پر ایک معاہدہ ہوگا یا نہیں۔کیونکہ ہم ایک سخت مذاکرات کی جنگ لڑ رہے ہیں۔نزال کا کہنا ہے کہ پیرس 2کے اجلاس کے ذریعہ جاری کردہ مسودے میں غزہ کو امداد پہنچانے کے معاملے کو یقینی بنانے کی بات ہے،لیکن ابھی تک اس کو اپنایا نہیں گیا ہے۔اس صورتحال پر نزال کا تبصرہ تھا کہ حماس،”زمین پر ہونے والی فوجی جنگ کی طرح ایک شدید اور سخت مذاکرات کی جنگ بھی لڑ رہی ہے۔“
نزال کا مذکورہ بیان حماس کی سخت جد و جہد اور اسرائیل کی عیاریوں سے مقابلہ کرنے میں اس کی قوت ارادی اور مزاحمت کی نشاندہی کرتا ہے۔یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ اسرائیل زمینی جنگ میں حماس سے مسلسل شکست کا سامنا کر رہا ہے۔اس بات کو راقم الحروف نے اس سے پہلے بھی کئی کالموں میں دوہرایا ہے اور ایک مرتبہ پھر اسے دوہرانا غلط نہ ہوگا کہ غزہ کی جنگ میں اسرائیل کی فوج کو حماس کے فوجی ونگ سے زیادہ نقصان اٹھانا پڑا ہے۔اس نقصان یا شکست کا ازالہ مظلوم فلسطینی شہریوں خصوصاً بچوں او خواتین کا قتل کرکے کرنا چاہتا ہے۔اس جنگ کی تفصیلات پر نگاہ رکھنے والے تقریباً تمام ذرائع اس بات کی تصدیق کر سکتے ہیں کہ حماس کو اس جنگ میں ا پنے مجاہدین کی بہت چھوٹی تعداد کو گنوانا پڑا ہے،جبکہ اسرائیل کو کثیر تعداد میں فوجیوں کی ہلاکت کے ساتھ بڑی مقدار میں اپنے فوجی ساز و سامان سے بھی ہاتھ دھونا پڑا ہے۔جنگ کو ان حقائق کی روشنی میں دیکھا جائے تو اس بات میں کوئی شبہ نہیں رہ جاتا کہ اپنی طاقت پر گھمنڈ کرنے والی اسرائیلی فوج کو حماس جیسی چھوٹی سی تنظیم نے دھول چٹا دی ہےاور اب بھی حماس کے ارادوں کونیتن یاہو یا اسرائیلی فوج کی ضد کے باوجود شکست نہیں دی جا سکی ہے۔
دوسری طرف اس جنگ میں اب تک دو مرتبہ کی گئی عارضی جنگ بندی کا معاملہ ہے تو یہاں بھی اسرائیل کی مکاری اور امریکہ کی سفارتکاری حماس کی سیاسی حکمت عملی کو شکست دینے میں ناکام رہی ہے۔دونوں ہی مرتبہ حماس نے اپنی شرائط پر ہی جنگ بندی کی ہے۔حالانکہ حماس نے بار بار اس بات کو بھی دوہرایا ہے کہ جنگ بندی کے تعلق سے وہ مثبت ہے لیکن اسے فلسطینیوں کے مفادات کی قیمت پر جنگ بندی منظور نہیں جبکہ اسرائیل اور امریکہ دونوں ہی کی یہ کوشش رہی ہے کہ وہ کسی بھی طرح دباؤ میں لیکر حماس کو جنگ بندی کے لیے مجبور کریں۔کچھ عرصہ قبل پیرس میں ہوئے مذاکرات کی ناکامی کا سبب بھی یہی تھا کہ حماس نے فلسطینیوں کے مفادات کی روشنی میں جو شرائط جنگ بندی کے لیے پیش کی تھیں انھیں امریکہ اور اسرائیل نے امید سے زیادہ بتا کر مسترد کر دیا تھا۔نزال کے مذکورہ بیان کو ان حالات کے تناظر میں بہتر طور پر سمجھا جا سکتا ہے۔ مشکل حالات کے باوجود نزال نے اپنی تنظیم کے اس موقف کو بھی دوہرایا کہ،”صہیونی ریاست فلسطینی مزاحمت کو شکست دینے میں ناکام رہی ہے۔“ نزال یہ بھی کہتے ہیں کہ اسرائیل زمین پر ہماری فوجی فتح کے نتائج ہم سے چھیننے کی کوشش کر رہا ہے۔“اسی لیے نزال اس بات کو بھی دوہراتے ہیں کہ”حماس اسرائیلی دشمن کو میدان جنگ میں اپنی فتح کو مذاکرات کی میز پر شکست میں تبدیل کرنے کی اجازت نہیں دیگا۔“حماس کے سیاسی بیوو کے سر براہ اسماعیل ہانیہ نے بھی تقریباً اسی طرح کے موقف کا اظہار اپنے ایک بیان میں کیا ہے۔اسماعیل ہانیہ کا کہنا ہے کہ جو چیز دشمن امریکہ اور اسرائیل میدان میں مسلط نہیں کر سکے وہ سیاسی سازشوں اور چالوں کے ذریعے حاصل نہیں کرسکیں گے۔“القدس انٹر نیشنل فاؤنڈیشن کی سالانہ رپورٹ کے اجراء کے موقع پر اپنے خطاب میں ہانیہ نے پورے عزم کے ساتھ کہا کہ،”ہم صہیونیوں اور ان کی جارحیت میں ان کے ساتھی امریکہ کو یقین دلاتے ہیں کہ جس چیز کو وہ میدان میں مسلط کرنے میں ناکام رہے ہیں اسے اپنی سیاسی چالوں سے حاصل نہیں کر پائینگے۔
۔“اسماعیل ہانیہ نے اپنے خطاب میں زور دے کر کہا کہ فلسطیبی قوم اور حماس دشمن کے کسی فریب میں نہیں آئینگے۔“اسماعیل ہانیہ نے اپنی تحریک کی کامیابی کا ذکر کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ،”فلسطینی تحریک مزاحمت نے طاقت کے عدم توازن کے باوجود تاریخی بہادری کے ساتھ اسرائیلی جارحیت کا مقابلہ کیا ہے۔“
دراصل اسماعیل ہانیہ نے اپنے بیان کے آخری حصے میں جو بات کہی ہے اسرائیل کو اسی نے سب سے زیادہ پریشان کیا ہے۔یہ کون سوچ سکتا تھا کہ جو اسرائیل گزشتہ75برسوں سے فلسطینیوں پر اپنے مظالم کو روا رکھے ہوئے ہے،اور ایک آزاد فلسطین کے جائز مطالبے کو اپنی دہشت گردی کے بل پر دبانے کے لیے فلسطینیوں کا خون بہانے کا عادی ہو چکا ہے اس کے تکبر کو حماس جیسی تنظیم خاک میں ملا سکتی ہے۔طاقت کے جس عدم توازن کا ذکر اسماعیل ہانیہ نے کیا وہی اسرائیل کو فلسطین کے خلاف سفاکیت پر اکسا رہا ہے،اور اس بات کی کوشش صہیونی حکمراں کر رہے ہیں کہ فلسطینیوں کا وجود ہی اس خطے میں ختم کر دیا جائے۔موجودہ حالات میں بھی فلسطین کی سرزمین پر نئی یہودی بستیاں بسانے کا اسرائیل کا اعلان اسی بات کا ثبوت ہے۔چند روز قبل ہی اسرائیل نے اعلان کیا ہے کہ وہ مغربی کنارے میں آئیندہ دس ماہ میں دس ہزار نئے یہودی آبادکاروں کو بسائے گا۔اس طرح کے اعلانات ثابت کرتے ہیں کہ اسرائیل فلسطینیوں کے حقوق غصب کرنے کے اپنے رویے پر اب بھی عمل پیرا ہے اور اگر وہ حماس کے ساتھ جنگ بندی چاہتا بھی ہے تو اپنی شرائط پر۔یہ شرائط کیا ہو سکتی ہیں یہ بتانے کی ضرورت نہیں۔اگر نزال یہ کہہ رہے ہیں کہ حماس کو اسرائیل کے خلاف میدان میں بھی اور مذاکرات کی میز پر بھی جنگ لڑنی پڑ رہی ہے تو اس کا سبب دراصل اسرائیل کا مذکورہ رویہ ہی ہے۔اسی طرح اگر اسماعیل ہانیہ یہ کہہ رہے کہ اسرائیل جو چیز حماس پر جنگ کے میدان میں مسلط نہیں کر سکا وہ سیاسی سازشوں اور چالوں کے ذریعے بھی حاصل نہیں کر سکیگا تو اس کا مطلب بھی یہی ہے کہ اسرائیل کے خلاف حماس کی موجودہ جنگ دونوں سطح پر جاری رہیگی۔اسماعیل ہانیہ نے اپنے بیان میں یہ بھی کہا ہے کہ فلسطینی مزاحمت نے غزہ اور اس کے شمال سے نقل مکانی کرانے کے اسرائیلی منصوبوں کو ناکام بنا دیا ہے اور سات لاکھ لوگ اب بھی وہاں تعینات ہیں۔
اسماعیل کی بیان کردہ صورتحال اس بات کی دلیل ہے کہ تقریباً ڈیڑھ سودن کی جنگ لڑنے کے باوجود اسرائیل فلسطینیوں کے ارادوں کو کمزور کرنے اور ان کے حقوق غصب کرنے کی اپنی سازشوں میں نہ تو میدان جنگ میں کامیاب ہو سکا ہے اور نہ مذاکرات میں ہی فلسطین کا موقف اپنے طے نشانوں کے تعلق سے کمزور ہوا ہے۔بلکہ سچ تو یہ ہے کہ حماس مذکورہ دونوں محاذوں پر اسرائیل کو شکست دینے کے ساتھ ساتھ ایک تیسرے محاذ پر بھی اسرائیل سے اپنی طاقت کا لوہا لے رہا ہے اور یہ تیسرا محاذ ہے اسرائیل کے خلاف اعصابی جنگ۔اسرائیل کے فوجی اور عام شہری جس بڑی تعدا دمیں ذہنی امراض کے شکار ہو رہے ہیں وہ اعصابی جنگ میں بھی فلسطینیوں کی برتری کا ہی ثبوت ہے۔