غزہ پٹی کے دیر البلاح کے تنگ سے کمرے ہیں روز کی طرح آج بھی ابو سحر المغاری بہت مصروف ہیں۔7اکتوبر سے اسرائیلی حملے کے بعد سے 53 سالہ اس شخص کی مصروفیت کئی گنا بڑھ گئی ہے۔ بلکہ اسے کچھ اضافی کام بھی کرنا پڑ رہے ہیں۔ المغاری 15 برس سے غزہ کے الاقصیٰ شہید اسپتال سے وابستہ ہیں۔ وہ اسپتال میں دم توڑنے والوں کو کفنانے کا کام کرتے ہیں۔ کبھی کبھی تو انہیں میتوں کی نماز جناہ بھی پڑھانی پڑ تی ہیں۔
۔اسرائیلی حملے سے پہلے انہیں دن بھر میں 30 سے50 میتوں کو کفنانا پڑتا تھا لیکن آجکل المغاری کو دن بھر میں ایک سو اور کبھی کبھی تو دو سو میتوں کو کفنانا پڑ رہا ہے۔ اب سے پہلے میتیں صحیح و سالم حالت میں ملتی تھیں لیکن اب بیشتر میتیں خون اور مٹی میں لت پت اور مسخ شدہ حالت میں ملتی ہیں۔
المغاری کا کہنا ہیکہ کبھی کبھی تو میتوں کی حالت دیکھ کر وہ چیخ مار کر رو پڑتے ہیں۔
خون میں لت پت اور مسخ شدہ حالت میں ملنے والی بیشتر لاشیں بچوں اور خواتین کی ہوتی ہیں۔المغاری کا کام محض میتوں کو کفنانا نہیں ہے بلکہ میت کے اعضا کو بھی یکجا کرنا ہوتا ہے۔ انکے چرے کو خون اور دھول مٹی سے صاف بھی کرنا ہوتا ہے تاکہ میت کے ورثا جو پہلے ہی غم میں ڈوبے ہوتے ہیں میت کی مسخ شدہ حالت دیکھ کر آپا نہ کھو بیٹھیں۔ المغاری کے ساتھ اکثر ایک معاون ہوتا ہے لیکن کبھی کبھی انہی کو سارا کام اکیلے کرنا ہڑتا ہے۔
۔کبھی کبھی میتں تباہ شدہ عمارتوں کے ملبے سے کئی کئی روز کے بعد برامد ہو پاتی ہیں۔ وہ بہت خراب حالت میں ہوتی ہیں۔ میتوں سے بد بو بھی آتی ہے لیکن وہ دل کو مضبوط کرکے ان میتوں کو بھی کفنانے کا کام کرتے ہیں۔المغاری کا اہم کام کفنانے کے بعد میت کے اوپر اسکا نام لکھنا بھی ہوتا ہے۔ اگر نام نہ لکھا جائے تو میتوں کی خرا ب حالت کے سبب انکو شناخت کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔
غزہ میں اسرائیلی حملے کے بعد لاشوں کو کفنانے کے کام میں المغاری اتنے مصروف رہتے ہیں کہ انہیں وسطی غزہ سٹی میں نصیرت رفوجی کیمپ میں رہنے والے اپنے اہل خانہ کی خیریت معلوم کرنے تک کی فرصت نہیں ملتی ہے۔انہوں نے اپنی اہلیہ اور پانچ بچوں کو اللہ کے بھروسے چھوڑ رکھا ہے۔