
ایک طرف اسرائیل اقوام متحدہ سلامتی کونسل پر اس بات کے لیے دباؤ ڈال رہا ہے کہ وہ حماس کے ذریعہ یرغمال بنائے گئے اسرائیلیوں کی رہائی کے لیے قدم اٹھائے،اور دوسری طرف صہیونی فوج کی فلسطین کے اسپتالوں میں زیر علاج شہریوں پر بربریت جاری ہے۔اس طرح تمام بین الاقوامی قوانین اور انسانی قدروں کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں۔
بی بی سی نے صہیونی فوجیوں کی غزہ کے اسپتال میں سفاکیت کے تعلق سے اپنی رپورٹ میں جو ثبوت پیش کیے ہیں وہ کسی بھی صحت مند انسانی ذہن کو بے چین کر سکتے ہیں۔اس سلسلے میں جو تصاویر اور ویڈیو بی بی سی نے جاری کی ہیں وہ بھی دل دہلانے والی ہیں۔یہ رپورٹ دراصل غزہ کے ناصر اسپتال میں گزشتہ ماہ کی گئی صہیونی فوجیوں کی کارروائی سے متعلق ہے۔رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ،”بی بی سی کو اس بات کے ثبوت ملے ہیں کہ اسرائیلی فوج نے اسپتال کے ڈاکٹروں،نرسوں اور اسٹاف کے باقی ممبران کو حراست میں لیا،انھیں پیٹا اور مریضوں کا علاج کرنے سے روکا۔“اسی رپورٹ میں یہ الزام بھی لگایا گیا ہے کہ صہیونی دہشت گرد فوج نے حراست میں لیے گئے لوگوں کے کپڑے اتارے اورانھیں کئی گھنٹے تک پریشان کیاگیا۔“ان الزامات کے تعلق سے اسرائیل کا کہنا ہے کہ اس نے یہ مانتے ہوئے اسپتال پر قبضہ کیا تھا کہ حماس اس اسپتال کواپنے مقاصد کے لیے استعمال کر رہا ہے، اور رہا کیے گئے یرغمالیوں کا کہنا ہے کہ انھیں اسی اسپتال میں رکھا گیا تھا۔
اسرائیل اسپتال پر اپنی فوجی کارروائی کے تعلق سے جو دلیل دے رہا ہے اسے اس لیے تسلیم نہیں کیا جا سکتا کہ اگر اس بات کے پختہ ثبوت بھی تھے کہ حماس اسپتال کا استعمال جنگی مقاصد کے لیے کر رہا ہے تو بھی اسپتال کے عملے کو برہنہ کرنے کا جواز قابل قبول نہیں ہو سکتا۔حالانکہ اسرائیل کی دلیل ہے کہ حراست میں لیے گئے افراد کا لباس اس لیے اتروایا گیا کہ یہ شبہ تھا کہ لباس میں ہتھیار چھپائے گئے ہیں۔لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اسپتال میں داخل بچوں کے تعلق سے بھی اس دلیل کو تسلیم کیا جا سکتا ہے؟

اسرائیل اسپتال پر کارروائی کے تعلق سے جو دلیل دے رہا ہے وہ اس لیے بھی ناقابل قبول ہے کہ اسپتال میں داخل مریضوں کے علاج سے ڈاکٹروں کو روکنا تمام بین الاقوامی قوانین کے خلاف ہے۔خواہ یہ زیر علاج مریض حماس سے وابستہ ہی کیوں نہ ہوں۔جب کہ بی بی سی کی رپورٹ بتاتی ہے کہ اسپتال کے جن لوگوں کو صہیونی فوج نے یرغمال بنایا وہ سب طبّی عملے کے افراد ہیں اور انھیں تادم تحریر نہیں چھوڑا گیا ہے۔اس کا مقصد بظاہر سوائے اس کے کچھ نہیں ہو سکتا کہ فلسطین سے اتنی بڑی تعداد میں شہریوں اور طبی عملے کو یرغمال بنا لیا جائے کہ جنگ بندی کی کسی بھی تجویز پر بات کرتے وقت
حماس پر دباؤ بڑھایا جا سکے اور کسی بھی ممکنہ جنگ بندی میں اپنا پلڑا بھاری رکھا جائے۔بی بی سی کی رپورٹ یہ بھی بتاتی ہے کہ ’اسپتال کے جو افراد یرغمال بنائے گئے ہیں انھوں نے کئی روز تک صہیونی فوجیوں کو آہستہ آہستہ اسپتال کی طرف بڑھتے دیکھا۔‘ اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اگر اسپتال حماس کے استعمال میں ہوتا تو فوجیوں کو اسپتال کی طرف بڑھتے دیکھ کر حماس کے حریت پسند صہیونی فوج کے
خلاف لازمی طور پر یا تو مزاحمت کرتے یا پھر اسپتال چھوڑ دیتے۔ایسی صورت میں جب صہیونی فوج اسپتال میں داخل ہوئی تو کسی طرح بھی یہ نہیں مانا جا سکتا کہ اسپتال میں حماس کے جنگجو موجود تھے۔ جن لوگوں کو صہیونی درندے مریضوں کے علاج سے روک رہے تھے انھیں کس طرح حماس کے جنگجو تسلیم کیا جا سکتا ہے؟

رپورٹ میں یہ دعویٰ بھی کیا گیا کہ’آپریشن تھئیٹر کے اندر ایک نرس کو کھڑکی سے گولی مار دی گئی۔‘تو کیا یہ تسلیم کر لیا جائے کہ آپریشن میں ڈاکٹروں کی مدد کرنے والی نرس بھی حماس
سے تعلق رکھتی تھی؟بی بی سی نے جو ویڈیو جاری کیا ہے اس میں دکھایا گیا ہے کہ کس طرح اسپتال کا عملہ صہیونی فوج کی اسپتال میں کی گئی دہشت گردی کے بعد لاچار مریضوں کو اسٹریچر پر لے کر بھاگنے کی کوشش کر رہا ہے۔ایک شخص کو اسپتال کے دروازے پر گولی مار دی گئی۔اور اس سے یہ جاننے یا پوچھنے کی بھی کوشش نہیں کی گئی کہ اس کا تعلق اسپتال کے عملے سے ہے،یا وہ مریض ہے، یا پھر واقعی حماس کارکن۔ایسی ویڈیو بھی بی بی سی نے جاری کی ہیں کہ جو خود آئی ڈی ایف یعنی اسرائیلی فوج نے بنائی ہیں۔ان میں دکھایا گیا ہے کہ یرغمال بنائے گئے مریضوں یا اسپتال کے عملے کو رسن بستہ کر دیا گیا ہے۔
اسپتال کے تقریباً پچاس اہلکاروں سے ان کے اسپتال کے کپڑے اتروا لیے گئے۔دلیل یہ ہے کہ ایسا اس لیے کیا گیا کہ کہیں ان لوگوں نے اپنے کپڑوں میں ہتھیار چھپا کر نہ رکھے ہوں۔ایک معمولی عقل رکھنے والا بھی یہ بات سمجھ سکتا ہے کہ اگر ان لوگوں کے پاس واقعی ہتھیار ہوتے تو مزاحمت بھی کی جاتی۔

ظاہر ہے جو حالات ہیں ان میں ہتھیار شوق میں رکھنے کا تو کوئی جوا نہیں ہو سکتا۔اسرائیل کا الزام ہے کہ اس نے اسپتال سے طبی عملے کے جن لوگوں کو گرفتار کیا ہے ان میں حماس کے کارکن بھی شامل ہیں،لیکن یہ انتہائی منھ زوری کے سوا کچھ نہیں۔اگر واقعی ایسا ہوتا تو کیا ایسے افراد اسرائیلی فوج پر حملہ نہیں کرتے؟ جس تنظیم کے لوگ پانچ ماہ سے زیادہ سے دنیا کی بہترین فوج ہونے کی مدعی اسرائیلی
فوج کی دہشت گردی کا مقابلہ کامیابی سے کر رہے ہوں ان کے تعلق سے یہ مان لینا کم عقلی ہی ہوگی کہ وہ اسپتال میں اسرائیلی فوج کی کارروائی کے دوران معمولی سی مزاحمت بھی نہ کر سکے۔ اسپتال کی ایک خاتون ڈاکٹر امیرا اصولی نے بی بی سی کو بتایا کہ اس کے ساتھی ڈاکٹروں کے ہاتھ پشت پر باندھ دیے گئے، ان کے کپڑے اتارے گئے اور پیٹا بھی گیا۔ایک اور ڈاکٹراحمد صباح جنھیں اسرائیلی فوج نے رہا کر دیا انھوں نے بتایا کہ ان پر حراست کے دوران تشددکیا گیااور گھنٹوں تک دھوپ میں رکھا گیا۔ڈاکٹر صباح کا ہاتھ بھی اسرائیلی قید میں توڑ دیا گیا۔یہ بربریت کی بدترین مثال ہے۔اگر اسپتال میں اسرائیلی فوج کی کارروائی کو کسی طرح درست بھی مان لیا جائے تب بھی جیل میں بند ڈاکٹر پر تشدد کا کوئی جواز نہیں ہو سکتا۔جبکہ اسرائیل حماس کے خلاف یہی الزام لگاکر سلامتی کونسل سے مدد کی اپیل کر چکا ہے کہ اسرائیلی یرغمالیوں پر حماس کارکن تشدد کر رہے ہیں۔اسی بات کا سہارا لیکر اسرائیل غزہ میں شہریوں کو بھی نشانہ بنانے سے گریز نہیں کر رہا ہے۔اسپتال کے 46ملازمین کے اب بھی اسرائیل کے قبضے میں ہونے یا غائب ہونے کی خبر ہے۔اس صورتحال نے اسپتال کے طبی عملے میں مزید کمی کر دی ہے،جس کے سبب فی الحال اسپتال کو بند کر دیا گیا ہے،لیکن ظاہر ہے اس سے غزہ کے چرمرائے ہوئے بنیادی ڈھانچے کو ایک اور دھکا لگا ہے،جس کی سزا مظلوم مریضوں یا زخمیوں کو بھگتنی پڑ رہی ہے۔امریکی صدر بائیڈن نے بھی اس صورتحال کے لیے نیتن یاہو کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے،یہ الگ بات کہ اسرائیل کے خلاف کسی سخت قدم سے امریکہ اب بھی گریزاں ہے۔
اسرائیل کی بربریت کا یہ کھیل رمضان کے مقدس ماہ میں بھی نہیں رکا ہے۔جب کہ اس پر اس بات کے لیے عالمی دباؤ تھا کہ کم از کم رمضان میں جنگ بندی کے لیے تیار ہو جائے۔ایک طرف غزہ بھیانک بھکمری کی گرفت میں ہے تو دوسری طرف جنگ کا سلسلہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔شائد اسرائیل چاہتا بھی یہی ہے کہ حماس کو کسی بھی طرح گھٹنے ٹیکنے کے لیے مجبور کیا جائے خواہ اس کے لیے تمام اخلاقی اور جنگی اصولوں کو بالائے طاق کیوں نہ رکھنا پڑے۔حد تو یہ ہے کہ روزہ داروں کے قتل عام کا سلسلہ جاری ہے اور غزہ کے روزہ داروں تک انسانی امداد کو پہنچنے سے بھی اسرائیل روک رہا ہے۔جبکہ دوسری طرف مسلم ممالک رمضان کے بہانے زبان کی عیاشیوں اور شکم پری میں بے حسی کے ساتھ مصروف ہیں۔
sirajnaqvi08@gmail.co Mobile:9811602330