qaumikhabrein
Image default
uncategorized

حسین الحق کے ناول کے سرے ڈپٹی نذیر احمدسے جا ملتے ہیں:خالد جاوید

بر صغیر کے معروف فکشن نگار اور دائرہ حضرت وصیؒ کے سابق سجادہ نشین پروفیسر حسین الحق کی وفات کے تین سال مکمل ہونے پر مولانا انوار ؒ الحق اردو لائبریری، گیابہار اور میران فاؤنڈیشن ٹرسٹ کے زیر اہتمام ایک ویبیناربعنوان”حسین الحق:ناول نگار، کہانی کار، اور صوفی“ کا انعقاد کیا گیا۔ آن لائن پروگرام میں متعدد اہم شخصیات اور ریسرچ رسکالروں نے شرکت کی۔ اس موقع پر کلیدی گفتگو کرتے ہوئے منفرد لب و لہجہ کے فکشن نگار اورجامعہ ملیہ اسلامیہ شعبہ اردو کے استاذ پروفیسر خالد جاوید نے حسین الحق کی تخلیقی صلاحیتوں کے حوالے سے کہا کہ حسین الحق کا معاملہ یہ ہے کہ انہوں نے قرۃ العین حیدر کے بعد اردو ناول کو جس عروج پہ پہنچایا وہ شاید کسی اور نے نہیں پہنچایا.

انہوں نے یکے بعد دیگرے ناول لکھے۔ ’بولو مت چپ رہو‘ اور ’فرات‘ ناول کی تاریخ میں سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ جو مسلمان پاکستان نہیں گئے، ان پر ہندوستان میں کیا گزری، اس کی داستان جتنے بہتر طریقے سے حسین الحق نے اپنے ناولوں میں بیان کی، ایسی کہیں بیان نہیں کی گئی، یہ بات میں پورے دعوے کے ساتھ کہہ سکتا ہوں۔ حسین الحق کے بیانیے کا کمال ہے کہ وہ مختلف پہلوؤں کو علامتی انداز میں بیان کرتے ہیں۔ نئی اور پرانی نسل کا جو ٹکراؤ ہے، اس میں فلیش بیک کا وہ خوبصورتی سے استعمال کرتے ہیں۔ایک طرف ناد علی پڑھی جا رہی ہے تو دوسری جانب انگریزی گیت ہے۔ تاریخ، تہذیب اور ثقافت اہم عناصر ہیں۔ حسین الحق جب ناول لکھ رہے تھے اور جن تکنیکوں کا استعمال کر رہے تھے،وہ اس وقت اردو ناول میں کہیں تھی ہی نہیں۔ خالد جاوید نے مزید زور دیتے ہوئے کہاکہ اگر ہم اردو معاشرہ کہہ لیں یا مسلم معاشرہ کہہ لیں اور اگر اس کی بات ہم کریں تو حسین الحق کے ناول ڈپٹی نذیر احمدکے ناول ”ابن الوقت“ سے اس کے سرے جا کر مل جاتے ہیں.

ڈپٹی نذیر احمد نے جو کام اپنے دور میں کیا وہ کام حسین الحق نے اپنے دور میں کیا ہے۔ فکشن میں تصوف کے وجودی عناصر کو جس طریقے سے استعمال کیا ہے، وہ لطیف قسم کا رمز ہے، اس سے پہلے تصوف کے اخلاقی پہلو کی عکاسی فکشن میں ہم نے کہی نہیں دیکھی۔

شعبہ اردو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے استاذ پروفیسر صغیر افراہیم نے کہاکہ حسین الحق سے میرے بہت اچھے تعلقات تھے۔ انہیں اللہ نے بہت صلاحیت دی تھی۔ میں ان کے افسانوں کا انتخاب کر رہا تھاتو انہوں نے کہاکہ دوستی کو کنارے رکھ کر انتخاب کرنا۔ جس کا نتیجہ یہ رہا کہ حسین الحق کے افسانوں کے انتخاب کو کافی مقبولیت ملی۔ ڈاکٹر علی امام نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ مجھے ایک بات یہ محسوس ہوتی ہے کہ مضامین جتنے بھی لکھے جا رہے ہیں، ان سارے مضامین میں فنکار کے اندر  جو تخلیقی اشارات موجود ہیں،  اس کا ذکر کم ہوتا ہے۔ اور لوازمات پر بہت زیادہ بات کی جاتی ہے۔

معروف مترجم اور کنگ سعود یونیورسٹی، ریاض کے پروفیسر سرور حسین نے کہاکہ قربانی صبر اور محبت ان کے ناول ”اماوس میں خواب“ کا تھیم ہے۔ حسین الحق اس ناول سے ہندو مسلم اتحاد کا ایک نیا آغاز کرتے ہیں۔ 

پروگرام کی صدارت مرزا غالب کالج،گیابہارکے سابق صدر شعبہ انگریزی پروفیسر عین تابش نے کی۔ اور نظامت کے فرائض نئی نسل کے نمائدہ افسانہ نگار اور شعبہ اردو دہلی یونیورسٹی سے وابستہ ڈاکٹرنورین علی حق،دہلی اور جے این یو کی طالبہ ثمن رضوی نے انجام دیے۔

دوران گفتگو حسین الحق کے بڑے فرزند شارع علی حق نے ریسرچ اسکالروں کو مخاطب کرتے ہوئے کہاکہ جو حسین الحق پر ریسرچ کر رہے ہیں انہیں کسی بھی قسم کی مدد چاہئے وہ ہم سے رابطہ کریں۔ ہماری کوشش ہے کہ حسین الحق کی تمام کتابوں کو ری پرنٹ کرایا جائے اور ری پرنٹ کا کام شروع بھی ہوچکا ہے۔حسین الحق کے افسانوں کا آٹھواں مجموعہ”مسافر کا خواب“ جسے ڈاکٹر سید عینین علی حق ترتیب دے رہے ہیں، بہت جلد منظر عام پر آنے والا ہے۔حسین الحق سے متعلق بچوں کو کتابیں چاہئے وہ انہیں فراہم کی جائیں گی ۔

Related posts

ہندستان میں مسلمان اور انکی عبادت گاہیں کتنی محفوظ؟۔ضیغم مرتضیٰ

qaumikhabrein

شیعہ نوجوان تشیع دشمن علما سے ہوشیار رہیں۔ مولانا عباس مہدی خاں افتخاری۔

qaumikhabrein

ایران نے تیار کیا خفیہ جانکاری فراہم کرنے والا بحری جہاز۔

qaumikhabrein

Leave a Comment