
ملک میں روز افزوں ہوتی مذہبی منافرت اور فرقہ وارانہ تصادم کے واقعات کے درمیان سو سے زیادہ سابق سینئیر نوکر شاہوں نے وزیر اعظم نریندر ودی کو ایک خط لکھ کر ان سے اپیل کی ہے کہ وہ موجودہ حالات میں خاموش نہ رہیں۔ایک سو آٹھ ریٹائرڈ نوکر شاہوں نے ”کانسٹی ٹیوشنل کنڈکٹ گروپ“ کے تحت وزیر اعظم نریندر مودی کو لکھے گئے اس خط میں ملک میں بڑھ رہی فرقہ وارانہ منافرت پر سخت تشویش کا اظہار کرتے ہوئے انھیں خبر دار کیا ہے کہ،”نفرت سے بھری تباہی کا جنون صرف اقلیتوں کو ہی نہیں بلکہ آئین کو بھی نشانہ بنا رہا ہے۔“ خط میں اس بات پر فکرمندی کا اظہار کیا گیا ہے کہ ملک کے اقلیتی گروپوں خصوصاً مسلمانوں کے خلاف نفرتی تشدد کے حالیہ واقعات اکثریت وادی طاقتوں کو ہمارے آئین کے بنیادی اصولوں سے بالاتر ظاہر کر رہے ہیں۔خط میں اس معاملے کے تعلق سے مبینہ طور پر سرکار کی ملی بھگت پر بھی انگلی اٹھائی گئی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ گزشتہ کچھ عرصے میں کرناٹک،مدھیہ پردیش،ہماچل پردیش،اتر کھنڈ،مہاراشٹر و
دلّی سمیت ملک کے کئی حصوں میں ایسے واقعات رونما ہوئے ہیں جن سے ہماری آئینی قدروں اور فرقہ وارانہ یکجہتی کی روایات خطرے میں پڑ گئی ہیں۔ایسے بیشتر معاملات میں حکومت کا راست یا بالواسطہ ملوث ہونا حالات کو مزید بگاڑنے کا سبب بنا ہے۔مثلاً کرناٹک میں حجاب سمیت مسلم اقلیت سے تعق رکھنے والے معاملات میں شدت پسند ہندو تنظیموں نے جس طرح شرانگیزی کی اس پر ریاستی حکومت کی سرپرستی نے حالات کو اس حد تک بگاڑا کہ خود بی جے پی کے سینئر اور ریاست کے سابق وزیر اعلیٰ یدیورپا تک کو کہنا پڑا کہ مسلمانوں کو پر امن طریقے سے رہنے دیا جائے۔اتر پردیش،ہماچل پردیش اور پھر دلّی میں ’دھرم سنسد‘ کے نام پر منعقد پروگراموں میں مسلمانوں کے خلاف ہندو اکثریت کو مشتعل کرنے اور ان کا قتل تک کرنے کی اپیلیں کی گئیں،لیکن ریاست سے لیکر مرکزی حکومت تک نے ان واقعات کے خلاف کارروائی تو درکنار محض لب کشائی تک کی زحمت نہیں کی۔پولیس اور دیگر سلامتی فو رسز نے شرپسند عناصر کو تشدد کاکھیل کھیلنے کی جس طرح کھلی چھوٹ دی اسے بھی حکومت اور ہندوتو وادی طاقتوں کی ملی بھگت کے طور پر ہی دیکھا گیا۔کئی معاملوں میں تو ریاستی ہائی کورٹس نے بھی ایسے فیصلے دیے جو ملک کی اقلیت خصوصاً مسلمانوں کے لیے مایوس کن ہیں،اور عدالتوں سے حصول انصاف کی ان کی امیدوں پر پانی پھیرتے ہیں۔مدھیہ پردیش کے کھرگون میں رام نومی کے جلوس پر پتھراؤ کے ملزمان کو جرم ثابت کیے بغیر جو سخت سزا دی گئی وہ ہمارا آئین قتل کے ملزمان کو بھی نہیں دیتا۔ تقریباً پچاس مکانات کو بلڈوزروں نے زمیں دوز کر دیا اور ریاست کے وزیر اعلیٰ اور وزیر داخلہ اس پر اظہار ندامت کے بجائے اب تک فخر سے سینا ٹھوک رہے ہیں۔مہا راشٹر میں اذان پر ہناگامے کو ہنومان چالیسا سے جوڑ کر ریاست کی شیو سینا حکومت کے سامنے سخت چیلنج کھڑا کر دیا گیا۔یہ الگ بات کہ وزیر اعلیٰ ادھو ٹھاکرے نے بی جے پی اور ایم این ایس کی سازشوں کے سامنے جھکنے سے انکار رکرتے ہوئے جب ان پارٹیوں کو ان کی ہی زبان میں جواب دینے کی دھمکی دی توشر پسندوں کے تیور ڈھیلے پڑ گئے۔لیکن رکن پارلیمنٹ رانا کے خلاف ریاستی حکومت کی کارروائی پر مرکز کے ذریعہ ریاستی حکومت سے جواب طلب کرنا بتاتا ہے کہ ان تماشوں کے پس پشت کون ہے۔

کیا یہ عیجیب بات نہیں ہے کہ اپوزیشن پارٹی کی حکومت والی کسی ریاست میں اگر پتّا بھی کھڑکتا ہے تو مرکزی وزارت داخلہ فوراً جواب طلب کر لیتی ہے لیکن دوسری طرف بھگوا عناصر کسی ریاست میں زہر پھیلانے کی کوششوں میں ملوث ہوتے ہیں اور نقص امن پیدا کرتے ہیں تو حکمراں جماعت کی اعلیٰ ترین قیادت بھی ایسے معاملوں میں خاموشی اختیار کر لیتی ہے۔دلّی کے جہانگیر پوری میں پولیس اور شرپسندوں کی ملی بھگت سے جو کچھ ہوا اس کی گواہی علاقے کے ہندو بھائیوں نے بھی دی ہے۔ ناجائز تعمیرات اور تجاوزات کو ہٹانے کے نام پر دہلی کے اقلیتی علاقوں میں جس طرح دلی کارپوریشن کے حکام سرگرم نظر آتے ہیں اور ان علاقوں کا سروے کیا جا رہا ہے کیا وہ خوف و ہراس پھیلانے کی کوشش نہیں ہے؟غیر قانونی تجاوزات کو یقینی طور پر سختی کے ساتھ ہٹایا جانا چاہیے،لیکن اس معاملے میں اقلیتی اور اکثریتی علاقے میں فرق کرنا دراصل مذہبی منافرت کی ہی ایک شکل ہے اور اس پر حکمرانوں کی خاموشی سازش میں ان کے شامل ہونے کا شک پیدا کرتی ہے۔
ان تمام حالات کو ملک کے وہ سیکولر مزاج نوکرشاہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ جنھوں نے برسوں آئین اور قانون کی حفاظت میں اپنی اپنی خدمات دی ہیں،اور اعلیٰ عہدوں پر کام کیا ہے۔وزیر اعظم نریندر مودی کو خط لکھنے والے ایک سو آٹھ نوکر شاہوں میں صرف سات یا آٹھ نوکر شاہ مسلمان ہیں۔اس کے باوجود یہ تمام نوکر شاہ اگر حکومت کی اکثریت نوازی اور بھگوا طاقتوں کے اقلیت پر بڑھتے ہوئے مظالم کے خلاف کھڑے ہوئے ہیں تو اس کا بنیادی سبب وہی ہے جو وزیر اعظم کو لکھے گئے خط میں بیان کیا گیا ہے۔یعنی معاملہ صرف مسلم اقلیت پر مظالم کا نہیں بلکہ اس ملک کے سیکولر اورجمہوری ڈھانچے کی حفاظت کا بھی ہے۔اس آئین کی حفاظت کا بھی ہے کہ جو ملک کے ہر شہری کو بلا لحاظ مذہب یا فرقہ جینے اور قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنے مذہب پر عمل کرنے کی آزادی دیتا ہے۔اپنے علاقائی،لسانی یا مذہبی حقوق کے تحفظ کا یقین دلاتا ہے،لیکن موجودہ حکمرانوں کے دور میں ان حقوق کو پامال کرنے اور اس طرح آئین کی روح کو زخمی کرنے کی سازشیں ہو رہی ہیں۔ہندوستان کو ایک ایسی انتہاپسند ہندو اسٹیٹ بنانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں کہ جہاں اقلیتوں کو دوئم درجے کا شہری بنا دیا جائے۔سنگھ سربراہ دھمکی دیتے ہیں کہ دنیا طاقت کی زبان سمجھتی ہے،اور اس دھمکی کو عملی جامہ پہنانے کے لیے شرپسندوں کے ٹولے ہاتھوں میں لاٹھیاں،تلواریں،چھرے اور بندوقیں لے کر اقلیتی آبادی میں خوف و ہراس کا ماحول پیدا کرتے ہیں، اور پولیس ان کی سرپرستی کرتی ہے۔کہیں کہیں تو پولیس کے جوان ان عناصر کے ساتھی بن جاتے ہیں۔حیرت اور افسوس کی بات یہ ہے کہ ان تمام واقعات پر وزیر اعظم کا ایک مذمتی بیان تک نہیں آتا۔وزیر اعظم کی اس خاموشی کو آخر کیا سمجھا جائے۔بی جے پی کے کسی معمولی کارکن کے جسم پر اپوزیشن کی حکومت والی کسی ریاست میں کھرونچ تک آجائے تو مرکز سے ریاستی حکومت کو جواب طلبی کانوٹس بھیج دیا جاتا ہے لیکن دلی میں ہی جب مسلمانوں کے گھروں پر غیر قانونی تجاوزات کے بہانے بلڈوزر چلا یا جاتا ہے،جب انھیں پولیس مظالم کا شکار بنایا جاتا ہے تو سب کو سانپ سونگھ جاتا ہے۔

وزیر اعظم کو خط بھیجنے والے نوکر شاہوں کا درد یہ ہے کہ وہ ہندوستان جیسے سیکولر قدروں کے مدعی ملک میں اس صورتحال کو مسلمانوں سے زیادہ آئین کے خلاف محسوس کر رہے ہیں۔برسوں تک مختلف پارٹیوں کی سیاسی قیادت کے دور میں اپنے فرائض منصبی ادا کرنے والے یہ نوکرشاہ محسوس کر رہے ہیں کہ ملک پر ایسا برا وقت کبھی نہیں پڑا کہ جب اعلیٰ ترین سیاسی قیادت اس طرح کے واقعات پر خاموشی اختیار کر لے اور اس کے نتیجے میں شرپسندوں کے بڑھے ہوئے حوصلے اقلیتوں کے لیے عرصہ حیات تنگ کردیں۔ان کے جان و مال اور عقائد کو پامال کرنے لگیں۔یہی سبب ہے کہ مذکورہ نوکر شاہوں نے ان معاملات پر وزیر اعظم کی خاموشی کو”ناقابل برداشت“ قرار دیتے ہوئے ان سے یہ توقع بھی ظاہر کی ہے کہ وہ نفرت کی اس سیاست کو ختم کرنے کی اپیل کرینگے جو ان کے دور اقتدار میں ہو رہی ہے۔خط میں کہا گیا ہے کہ،”جس تیز رفتارسے ہمارے اجداد کے ذریعہ تیار آئینی عمارت کو تباہ کیا جا رہا ہے،وہ ہمیں بولنے اور اپنا غصہ و کرب ظاہر کرنے کے لیے مجبور کرتا ہے۔“ نوکر شاہوں کی اس اپیل پر وزیر اعظم کیا موقف اختیار کرتے ہیں یہ وہ جانیں،لیکن ملک کے ہر سیکولر شہری کے لیے نوکوشاہوں کی یہ اپیل روشنی کی ایک کرن کے مترادف ہے۔
sirajnaqvi08@gmail.com Mobile;09811602330