qaumikhabrein
Image default
ٹرینڈنگسیاستقومی و عالمی خبریں

اقلیتوں کو مرکزی دھارے میں لانے کا پر فریب وعدہ۔ سراج نقوی

جس حکومت میں ایک بھی مسلم  وزیر شامل نہیں ہے اس کے وزیرِ اقلیتی امور کرن رجیجو کا کہنا ہے کہ مودی حکومت اقلیتی سماج کو مرکزی دھارے میں لانے کے لیے ترجیح کے ساتھ اقدامات کریگی۔ لیکن اس گمراہ کن وعدے کی حقیقت یہ ہے کہ جب بی جے پی یا اس کا کوئی لیڈر اقلیت کی بات کرتا ہے تو اس کے ذہن میں مسلمان قطعی نہیں ہوتے۔شائد بی جے پی مانتی ہے کہ کیونکہ مسلمان اس ملک کی دوسری سب سے بڑی آبادی ہے  اس لیے اسے اقلیت کا درجہ نہیں دیا جا سکتا۔بی جے پی کے پالیسی ساز مختلف ریاستوں کی آبادی کو سامنے رکھ کر بھی اقلیت اور اکثریت کا پیمانہ طے کرتے ہیں۔یعنی اگر کسی ریاست مثلاً جموں کشمیر یا پھر شمال مشرق کی کسی ریاست میں ہندو ٓابادی اقلیت میں ہے تو اسے اقلیت کو ملنے والے تمام فائدے پہنچائے جائینگے،لیکن کل ہند سطح پر اگر مسلمان اقلیت میں ہیں تو انھیں کسی نہ کسی بہانے سے اقلیت کو ملنے والے فائدوں سے محروم کر دیا جائیگا۔اپنے گزشتہ دور اقتدار میں مودی حکومت نے جس طرح مسلم طلباء کو ملنے والے سرکاری وظائف کو ختم کیا۔جس طرح دیگر اقلیتی  مفادات کے موضوع پر مسلم مخالف رخ اپنایا اس سے واضح ہو جاتا ہے کہ مودی یا ان کی حکومت کے نزدیک اقلیت کا مطلب مسلمان نہیں بلکہ دیگر چھوٹی آبادی  والی اقلیتیں ہی ہیں۔

یہی سبب ہے کہ اپنے تیسری وزارت عظمیٰ میں مودی نے کسی بھی مسلمان کو اپنی کابینہ میں جگہ نہیں دی ہے،اور ایسا آزادی کے بعد پہلی مرتبہ ہوا ہے۔جبکہ اس کے برعکس دو کروڑ کی سکھ آبادی سے دو  وزیر بنائے گئے ہیں۔عیسائی آبادی سے ایک وزیر اور بودھ  آبادی میں سے دو کو وزارت ملی ہے۔ایسے میں کرن رجیجو کا یہ کہنا کہ مودی حکومت اقلیتی سماج کو مرکزی دھارے میں لانے کو ترجیح دیگی ایک گمراہ کن وعدے سے زیادہ کچھ نہیں۔رجیجو کے اس بیان کو ذہن میں رکھتے ہوئے ہمیں سکھ اقلیت کے تعلق سے مودی حکومت کے رویے کو بھی دیکھنا ہوگا۔ این ڈی اے کی پالیسیوں سے نالاں ہوکر اکالی دل اس محاذ سے قطع تعلق کر چکا ہے۔کئی دیگر ایشوز پر بھی سکھ آبادی مودی حکومت سے خوش نہیں ہے۔دوسری طرف عیسائیوں سے متعلق مودی حکومت کے رویے کا معاملہ ہے۔عیسائیوں میں بھی مودی حکومت سے اس لیے ناراضگی ہے کہ ملک کے کئی حصوں میں گزشتہ کچھ برسوں میں گرجا گھروں پر ہندوتو وادی عناصر نے حملے کرکے انھیں نقصان پہنچایا ہے،لیکن ان عناصر کے خلاف کوئی موثر کارروائی حکومت  یا انتظامیہ کی طرف سے نہیں ہوئی،لیکن حکومت کے سامنے مسئلہ یہ ہے کہ اپنی کم آبادی کے باوجود ملک کی کئی چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں عیسائی آبادی کی اکثریت ہے اور وہاں ان کی حکومت بھی ہے۔ظاہر ہے جس طرح مسلم اکثریت والی ریاست جموں و کشمیر کے ساتھ رویہ اختیار کیا گیا وہ رویہ ان عیسائی اکثریت والی کئی ریاستوں میں مختلف اسباب سے نہیں کیا جا سکتا۔اسی لیے اس اقلیت کو بھی مطمئن کرنے کی کوشش سیاسی اسباب سے کی جا سکتی ہے۔

لیکن جہاں تک مسلم اقلیت کا معاملہ ہے ا سے رجیجو کے مذکورہ بیان میں اپنے لیے کوئی خوشکن پہلو تلاش کرنے میں احتیاط سے کام لینا ہوگا۔اس لیے کہ حال ہی میں اختتام پذیر ہوئے پارلیمانی انتخابات میں مودی  یا بی جے پی کے کسی لیڈر نے عیسائی یا سکھ اقلیت کو نشانہ نہیں بنایا۔نہ ہی ان اقلیتوں کے خلاف منافرت پر مبنی کوئی بات کہی گئی۔اس طرح کی منافرت اور دشمنی کے حقدار تو وہ مسلمان ہی ٹھہرے ہیں کہ جنھوں نے ملک کی تعمیر و ترقی میں کسی بھی اقلیت ہی نہیں بلکہ اکثریت سے بھی زیادہ اہم رول دا کیا ہے،لیکن جسے ہندوتو وادی طاقتیں ”غیر ملکی“ ٹھہرانے پر آمادہ ہیں۔آپ بی جے پی کی پوری انتخابی مہم اور خصوصاً مودی  و امت شاہ کے اس دوران دیے گئے بیانات پر غور کریں تو واضح ہو جائیگا کہ سب سے زیادہ زہر مسلمانوں کے خلاف ہی اشاروں اشاروں میں اگلا گیا ہے۔مودی جب دراندازی کی بات کرتے ہیں تو نشانہ مسلمان ہی ہوتے ہی،جب ہ زیادہ بچے پیدا کرنے والوں کی بات کرتے ہیں تو اس کے پس پشت یہ باطل پروپگنڈہ ہی ہوتا ہے کہ مسلمان ہی زیادہ بچے پیدا کرتے ہیں۔جب سی اے اے  یا یکساں سول کوڈ کے نفاذ کی بات ہو تی ہے تب بھی پیش نظر مسلم اقلیت میں خوف و ہراس پیدا کرنا ہی مقصدہوتا ہے۔اس لیے یہ مان لینا کہ اقلیتی و زارت کے وزیر کرن رجیجو نے  اقلیتی سماج کو مرکزی دھارے میں لانے کی جو بات کہی ہے وہ مسلمانوں کو بھی ذہن میں رکھ کر کہی گئی ہے درست نہ ہوگا۔

سب سے اہم بات تو یہ کہ مودی حکومت کے آنے کے بعد مختار عباس نقوی ہی ایسے لیڈر تھے کہ جنھیں اقلیتی امور کی وزارت کی ذمہ داری دی گئی تھی،اور ان کے راجیہ سبھا سے ریٹائر ہونے کے بعد نہ تو انھیں یا کسی دوسرے مسلمان کو یہ وزارت  سونپنے کے لیے کوشش ہی نہیں کی گئی۔یہ رویہ تادم تحریر برقرار ہے۔یہ درست ہے کہ بی جے پی یا اس کی حلیف پارٹیوں میں کسی میں بھی کوئی مسلمان رکن پارلیمنٹ نہیں بنا ہے،لیکن اس کے باوجود بیس کروڑ سے زیادہ کی آبادی  میں سے کسی کو بھی  یہ وزارت دی جا سکتی تھی اور چھ ماہ کے اندر اسے دونوں میں سے کسی بھی ایوان کا رکن بنایا جا سکتا تھا۔لیکن ایسا نہ کرکے مسلمانوں کے تعلق سے مودی سرکار نے ایک مرتبہ پھر اپنا منافرت پر مبنی رویہ ظاہر کر دیا۔جس حکومت نے اقلیتی اکمیشن سے لیکر دیگر ایسے ہی اداروں اور وزارت سے مسلمانوں کو دور رکھا،اس سے یہ توقع کس طرح کی جا سکتی ہے کہ وہ مسلم اقلیت کی فلاح و بہبود کے لیے واقعی کوئی ٹھوس قدم اٹھائیگی؟بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ مسلمانوں کو مرکزی دھارے سے کاٹنے کی وہ کوششیں جو اب سے دس سال پہلے شروع ہوئی تھیں وہ بھی بدستور جاری رہ سکتی ہیں۔یہ الگ بات کہ مسلم ووٹوں کے سہارے اپنے کئی ممبران پارلیمنٹ جتانے  والی پارٹیوں میں سے کوئی اپنے سیاسی مفادات کو ذہن میں رکھتے ہوئے مودی حکومت کو اس راہ پر جانے سے روک دے۔ حالانکہ اس معاملے میں بھی کوئی زیادہ خوش فہمی پالنے سے مسلم اقلیت کو بچنا ہی ہوگا۔اور یہ یاد رکھنا ہوگا کہ جو پارٹی اور سرکار مسلمانوں کو مرکزی  یا قومی دھارے سے الگ کرنے کی کوششیں کرتی رہی ہے  وہ  اپنا راستہ بدلنے پر شائد ہی خود کو آمادہ کر سکے۔حالانکہ یہاں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ کرن رجیجو نے یہ بھی کہا ہے کہ،”حکومت کا مقصد تمام چھ اقلیتی برادریوں کو مرکزی دھارے میں لانا ہے۔“ لیکن رجیجو کی اس بات پر کیسے یقین کر لیا جائے جبکہ اس راہ کا پہلا قدم اٹھانے کے لیے  اور نیک نیتی ثابت کرنے کے لیے ضروری تھا کہ کسی مسلمان کو ہی اقلیتی وزارت کی ذمہ داری دی جاتی۔اس لیے کہ ان چھ برادریوں میں مسلمان بھی شامل ہیں۔اپنے بیان میں کرن رجیجو نے یہ بھی کہا کہ ملک کا ہر کام ’سب کا ساتھ سب کا وکاس‘کے بنیادی اصول کی بنیاد پر متحد ہو کر کیا جائیگا۔لیکن رجیجو جس بنیادی اصول کی بات کر رہے ہیں اس کا راگ تو مودی سرکار اس سے پہلے بھی الاپتی رہی ہے

لیکن زمینی سطح پر اس اصول کو کس حد تک عمل میں لایا گیا یہ بتانے کی ضرورت نہیں۔اس اصول کو عمل میں نہ لانے کی بات چھوڑیں اس کے برعکس صورتحال یہ ہے کہ ترقی کے مبینہ ایجنڈے میں صرف مسلمانوں ہی نہیں بلکہ دیگر غریب طبقات کو بھی نظر انداز کر دیا گیا،اور صرف چند لوگوں کو ہی اس کا فائدہ پہنچایا گیا۔رجیجو کہتے ہیں کہ سماج کے تمام طبقات کو جوڑنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جائیگی،لیکن اب تک تو یہی ہوا ہے کہ سماج کے مختلف طبقات کو آپس میں  لڑا کر اپنا سیاسی مفاد حاصل کرنے کی پالیسی پر ہی عمل کیا گیا ہے۔ایسے میں یہ امید کرنا کہ اپنے تیسرے دور اقتدار میں مودی اور بیساکھیوں پر ٹکی ان کی سرکار اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں کو ان کے واجب حق دلا پائیگی خود فریبی ہی ہوگی۔ naqvisiraj58@gmail.com     Mobile:9811602330  

Related posts

سکینہ بنت حسین کی شان میں محفل مقاصدہ

qaumikhabrein

مہاراشٹر ۔ اقلیتی تعلیمی اداروں میں 1474 اسامیوں پر بھرتی ہوگی۔

qaumikhabrein

اسلامی اقدار کو پس پشت ڈالنے سے مسلمان پستی کا شکار ہوئے۔ولی رحمانی

qaumikhabrein

Leave a Comment