
آٹھویں صدی ہجری کے معروف شیعہ عالم، فقیہ، متکلم، شاعر، ادیب، مجاہد، شہید محمد جمال الدین المکی العاملی رحمۃ اللہ علیہ سن 734 ہجری میں جبل عامل لبنان کے ایک دیندار اور علمی خانوادہ میں پیدا ہوئے۔ آپ کو شیخ الطائفه، علامه زمان، ابن مکی، امام الفقیه، شیخ شهید، شهید اول کے القاب سے یاد کیا جاتا ہے۔ آپ کی زوجہ ام علی رحمۃ اللہ علیہا بھی عالمہ اور فقیہا تھیں، آپ کے تینوں بیٹے رضی الدین ابوطالب محمد، ضیاءالدین ابوالقاسم علی اور جمال الدین ابومنصور حسن عالم اسلام کے عظیم اور نامور عالم و فقیہ تھے۔ آپ کی بیٹی فاطمہ رضوان اللہ علیہا بھی فقیہ و عالمہ تھیں اور انھیں ’’ست المشائخ‘‘ یعنی فقہاء کی استاد کہا جاتا تھا۔
شہید محمد جمال الدین فخرالمحققین رحمۃ اللہ علیہ جیسے عظیم عالم و فقیہ کے شاگرد تھے اور فاضل مقداد رضوان اللہ تعالیٰ علیہ جیسے عظیم علماء و فقہاء نے آپ کے سامنے زانوئے ادب تہہ کئے۔ نیز مختلف موضوعات پر کتابیں تالیف فرمائیں۔ آپ کی کتابوں کی طویل فہرست ہے جسمیں الدروس الشرعیه اور اللمعه الدمشقیه کی شہرت زباں زد خاص و عام ہے۔

شہید اول نہ فقط شیعہ فقہ کے عالم تھے بلکہ اہلسنت کی بھی چاروں فقہوں کے عالم تھے۔ ظاہر ہے آپؒ باب مدینۃ العلم امیرالمومنین امام علی علیہ السلام کے سچے شیعہ اور پیروکار تھے۔جب بھی کوئی فقہی سوال کیا جاتا تو آپ پوچھنے والے کو اسی کی فقہ کے مطابق جواب دیتے تھے۔حکومت و سیاست کے سلسلہ میں شہید اول رضوان اللہ تعالیٰ علیہ کا ماننا تھا کہ چونکہ لوگوں کے مفادات ایک دوسرے سے متصادم ہیں، اس لئے ایک قانون ہونا چاہئیے اور وہ شریعت ہے اور حاکم معصوم امام یا ان کا نائب ہو۔ (القواعد و الفوائد، جلد 1، صفحہ 36 )شہید اول رحمۃ اللہ علیہ حاکم کی تقرری اور اس کی شرعی حیثیت کو (انتخاب) الٰہی سمجھتے تھے اور ان کا ماننا تھا کہ ولی اور رہبر کے تقرر کا معاملہ دوسرے معاملات سے بہت مختلف ہے اور چونکہ اس سلسلہ میں الہی حکم معاشرے کے ایک مخصوص فرد (معصوم) کی طرف اشارہ کرتا ہے اس لئے آپ انکی اطاعت کو واجب سمجھتے تھے اور ان ہی کو معاشرے کا جائز رہنما سمجھتے تھے۔ لہٰذا جو کوئی اس معیار (نص الہی) کے علاوہ معاشرے پر حکومت کرے وہ غیر شرعی ہے۔ (القواعد و الفوائد، جلد 2، صفحہ 183 )

9 جمادی الاول سن 786 ہجری کو انہیں سلطان برقوق کی حکومت نے رفض اور بی عائشہ۔ ابو بکر اور عمر کی توہین کے الزام ایک سال کی قید با مشقت کی سزا دی گئی۔ انکے اوپر شیعہ عقائد کی تبلیغ کا بھی الزام لگایا گیا۔ انہیں دردناک طریقے سے دمشق میں شہید کیا گیا ۔پہلے سر و تن میں جدائی کی گئی، پھر لاش کو سولی پر چڑھایا گیا اور لوگوں کو جمع کر کے عصر تک سنگبارانی کی گئی اور آخر میں لاش کو اتار کر نذر آتش کر دیا گیا۔ دشمن یہ سمجھ رہا تھا کہ اس طرح وہ آپ کو ختم کر دے گا لیکن جب تک حوزات علمیہ و مدارس علمیہ قائم ہیں ، آپ کی کتابیں خصوصاً ’’لمعہ‘‘ پڑھائی جاتی رہے گی آپ کا نام اور ذکر زندہ و جاوید رہے گا۔ہاں ! آپ کے دشمن تاریخ کے قبرستان میں ضرور گمنام ہو گئے۔
شہید اول رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب لمعہ جو آج حوزات علمیہ کے نصاب کی زینت ہے اسے آپ نے اذیت ناک قید خانہ میں فقط سات دن میں لکھا اور بعض روایات کے مطابق شہید اول ؒنے یہ کتاب اپنے خون سے لکھی ہے۔ اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حدیث ’’علماء کے قلم کے روشنائی شہدا کے خون سے افضل ہے‘‘ پر غور کیا جائے تو ہمارے لئےشہید کی عظمت واضح ہو گی۔ اور خون سے تحریر کے ذریعہ شہید اولؒ نے بتا دیا کہ میرے قلم کی روشنائی اور خون میں فرق نہیں۔ شہدا کے خون پر علماء کے قلم کی روشنائی کو فضیلت حاصل ہے لیکن میرا خون ہی میرے قلم کی روشنائی ہے۔