
چین ایغور مسلمانوں کی نسل کشی، انسانیت کے خلاف جرائ اور ایذا رسانی کا مرتکب ہوا ہے۔ برطانیہ میں قائم ایک غیر سکاری آزاد ایغور ٹرائبیونل نے یہ فیصلہ دیا ہے۔ حقوق انسانی کے معروف وکیل اور ٹرائبیونل کے سربراہ سر جیوفری نائس کا کہنا ہیکہ چین نے ایغور مسلمانوں کی آبادی محدود رکھنے کے لئے انکی زبردستی نس بندی کی پالیسی اختیار کرکھی ہے۔

ٹرائبیونل بلا کسی شبہ کے یہ فیصلہ کرنے میں مطمئن ہیکہ چینی حکومت نے سنکیانگ صوبے میں ایغور مسلمانوں کے ایک بڑے طبقے کو نابود کرنے کے لئے نسل کشی کی۔ چینی حکومت کی یہ حرکت سربیا کے صدر سلوبودام میلاسوچ کی طرز پر ہے جس نے مسلمانوں کے خلاف نسل کشی اور جنگی جرائم کاارتکاب کیا تھا۔جیوفری نائس کے مطابق اتنے بڑے پیمانے پر سرکاری منصوبہ اس وقت تک وجود میں نہیں آسکتا جب تک اعلیٰ سطح سے منظوری نا حاصل ہو۔

۔ایغور ٹرائبیونل کے پاس چین کو سزا دینے اور پابندیاں لگانے کا اختیار نہیں ہے۔ لیکن ماہرین کا کہنا ہیکہ اس کے فیصلے سے دنیا بھر کی حکومتوں کو چین کی حرکتوں کے بارے میں باور کرنے میں مدد ضرور ملےگی۔ چینی حکومت نے سنکیانگ میں 300 سے 400 مرکزوں میں دس لاکھ سے زیادہ ایغور مسلمانوں کو زبردستی قید کررکھا ہے۔

دوسری جنگ عظیم کے بعد مذہبی اقلیت کی اتنی بڑی ابادی کو محصور کرنے کا یہ پہلا واقعہ ہے۔ ایغور مسلمانوں کے خلاف چین کے سلوک کو امریکہ اور دیگر کئی مالک نسل کشی قرار دے چکے ہیں لیکن برطانیہ نے ابھی تک ایسا نہیں کیا ہے۔(بشکریہ۔ الجزیرہ نیوز)