qaumikhabrein
Image default
ٹرینڈنگسیاستقومی و عالمی خبریں

انصاف کے بنیادی تصور کو بدلنے کی کوشش۔۔سراج نقوی

حکمرانوں کے ذریعہ بلڈوزر کے بڑھتے استعمال اور انصاف کا خون کرتے ہوئے عدالتی اختیارات کو بالواسطہ غصب کرنے کی کوششوں نے ملک کے سابق نوکوشاہوں کو ایک مرتبہ پھر اس بات کے لیے مجبور کیا ہے کہ وہ انصاف کی آواز بلند کرنے کے لیے سامنے آئیں۔حکمرانوں کی آمرانہ روش کے خلاف ان نوکرشاہوں نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو جو خط لکھا ہے وہ اس کا ثبوت ہے۔
گذشتہ منگل کو سابق نوکرشاہوں کے ایک گروپ نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس این وی رمنّا کو خط لکھ کر ان سے درخواست کی ہے کہ وہ ‘بلڈوزر کے ذریعہ کیے جا رہے انصاف کے معاملے میں مداخلت کریں اور ان کوششوں کو ختم کریں۔’خط میں چیف جسٹس کی توجہ اس بات کی طرف دلائی گئی ہے کہ یہ چلن(یعنی بلڈوزر کا استعمال)اب استثنائی معاملوں کے بجائے کئی ریاستوں میں عام ہوتا جا رہا ہے۔خط میں بجا طور پرسپریم کورٹ سے یہ درخواست بھی کی گئی ہے کہ ‘پیغمبر محمدؐ پر بی جے پی ترجمانوں کے تبصروں کے خلاف مظاہروں کے بعداتر پردیش میں غیر قانونی حراست،بلڈوزر سے لوگوں کے مکان گرانے اور مظاہرین پر پولیس کے تشدد کا سپریم کورٹ کو از خود نوٹس لینا چاہیے تھا۔’

واقعہ یہ ہے کہ اتر پردیش ہو یا بی جے پی حکمرانی والی دیگر ریاستیں ان میں بلڈوزر کو ملک کی سب سے بڑی اقلیت کے خلاف ’دمن کاری ہتھیار‘کے طور پر غیر اعلانیہ منظوری مل گئی ہے۔ اس معاملے میں عدالتوں نے ایسا لگتا ہے کہ اپنے اختیارات سے از خود سبکدوشی اختیار کر لی ہے۔ورنہ ایسی بے شمار مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں کہ جب کسی ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ نے مفاد عامہ سے متعلق کسی معاملے کا از خود نوٹس لیتے ہوئے حکومت یا انتظامیہ سے جواب طلب کیا ہو۔بی جے پی کے موجودہ دور اقتدار میں بھی اس کی کئی مثالیں موجود ہیں،لیکن حیرت کی بات ہے کہ جب حکمرانوں کے ذریعہ آئین و قانون کو یرغمال بنانے کی کوششیں ہورہی ہوں،نظام انصاف کو عدلیہ کے بجائے انتظامیہ کا پابند بنایا جا رہا ہو،اور سزائیں دینے کا اختیار غیر اعلانیہ طور پر عدلیہ سے لیکرسیاسی قیادت نے اپنے ہاتھ میں لے لیا ہو تو ملک کے تمام ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ تک اس معاملے میں اس وقت تک خاموش رہے کہ جب تک متاثرین یا ان کے پیروکاروں نے ہی عدالت کا دروازہ نہ کھٹکھٹا دیا۔

واضح رہے کہ گذشتہ 14جون کو سپریم کورٹ اور کئی ہائی کورٹس کے سابق ججوں اور کئی سینئیر وکیلوں نے بھی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو ایک عرضی بھیجی ہے جس میں اتر پردیش کے حالیہ واقعات اور پولیس کارروائیوں کا از خود نوٹس لینے کی درخواست کی گئی ہے۔انوکوشاہوں نے اپنے خط میں اس عرضی کی بھی حمایت کی ہے۔اتر پردیش ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس گووند ماتھر نے بھی ’دی وائر‘ کو دیے گئے ایک انٹر ویو میں صاف طور پر کہا ہے کہ ‘جیسا اتر پردیش میں چل رہا ہے،ایسا ہی چلتا رہا تو قانون یا پولیس کی ضرورت ہی نہیں رہیگی۔جو بھی ہو رہا ہے وہ منمانا ہے۔’جسٹس ماتھر نے دس جون کو الہ آباد میں جاوید محمد کے گھر کو گرائے جانے کی کارروائی کو بھی غیر قانونی بتایا ہے۔انھوں نے یہ بھی کہا کہ اس کے لیے ذمہ دار افسران کی پہچان کی جانی چاہیے اور انھوں نے جو کیا اس کے لیے انھیں جواب دہ ٹھہرایا جانا چاہیے۔ دوسری طرف ناجائز تعمیرات گرانے کے نام پر اتر پردیش میں بلڈوزر کی دہشت پھیلانے کے خلاف جمیعتہ العلماء ہند نے مفاد عامہ کی جو عرضی سپریم کورٹ میں دائر کی ہے، اس پر عدالت میں داخل کیے گئے اپنے حلف نامے میں یوگی سرکار نے کہا ہے کہ کانپور اور الہ آباد میں غیر قانونی ڈھانچوں کو مقامی بلدیہ کے ذریعہ قانون کے مطابق گرایا گیا اور اس کا اہانت رسولؐ کے معاملے میں ہوئے پر تشدد مظاہروں میں شامل مظاہرین کو سزا دیے جانے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ریاستی حکومت کی اس دلیل پر زیادہ کچھ کہنے کی گنجائش اس لیے نہیں کہ یہ معاملہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے،لیکن کیا یہ بات باعث حیرت نہیں کہ جن لوگوں کے نام مظاہرین میں شامل تھے ان کے گھر پر ہی بلڈو زر چلانے کی کارروائی ہوئی۔دوسری اہم بات یہ کہ اس سلسلے میں انتظامیہ کی طرف سے متاثرین کو جو نوٹس دیے گئے اس کے جواب کا انتظار کیے بغیر اور صرف کچھ گھنٹوں بعد ہی بلڈوزر چلا دیے گئے۔اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ ریاست بھر میں ناجائز اور غیر قانونی تعمیرات کا جال پھیلا ہوا ہے لیکن کیا سرکار یا مقامی انتظامیہ نے سب کے معاملے میں مساوی پالیسی اختیار کی؟

ظاہر ہے ایسا نہیں ہے۔اور ایسا اس لیے نہیں ہے کہ بی جے پی حکومتیں ایک طے شدہ ایجنڈے کے تحت ملک کی مسلم اقلیت کو مختلف بہانوں سے نشانہ بنانے کے شرمناک کھیل میں مصروف ہیں۔یہ حکومتیں اس بات سے بھی بے شرمی کی حد تک چشم پوشی اختیار کیے ہوئے ہیں کہ اس کے نتیجے میں ہندوستان کی سیکولر اور روادار ملک کی شبیہہ کو بھی نقصان پہنچ رہا ہے۔
90سے زیادہ نوکوشاہوں کے سپریم کورٹ کو لکھے گئے خط میں بلڈوزر کے استعمال کے جس چلن کی بات کہی گئی وہ بے بنیاد نہیں ہے۔اتر پردیش کے علاوہ بھی کئی ریاستوں کی بی جے پی سرکاروں نے یوگی کے ’بلڈوزر ماڈل‘ کو اپنا کر مسلمانوں کو ہراساں کرنے اور ظلم و ستم کا نشانہ بنانے کی کارروائیاں کی ہیں۔مدھیہ پردیش کے کھرگون میں ریاستی حکومت نے جس طرح پتھر بازی کے ملزم چند اقلیتی طبقے کے افراد کے گھروں کو بلڈوزر سے مسمار کیا وہ سب کے سامنے ہے۔زیادہ افسوس کی بات یہ ہے کہ بلڈوزر چلانے سے پہلے ریاست کے وزیر داخلہ نے نہایت بے شرمی سے او ر کسی مجرم کی طرح دھمکی بھرے انداز میں یہ بیان دیا کہ جنھوں نے پتھر بازی کی ہے ان کے گھروں کو پتھروں میں بدل دیا جائیگا۔اس بیان کے خلاف ریاستی وزیر اعلیٰ سے لیکر مرکز کی مودی حکومت تک میں کسی نے لب کشائی نہیں کی۔حتیٰ کہ کسی عدالت کو بھی اس معاملے کا از کود نوٹس لینے کی توفیق نہیں ہوئی۔حالانکہ یہ قانون اور عدالتی انصاف کی دھجیاں اڑانے کے مترادف عمل تھا اور اس پر فوری کارروائی ہونی چاہیے تھی۔
اس طرح کے واقعات ہی دراصل یہ پیغام دیتے ہیں کہ حکمراں قانون اور انصاف کے بھی ٹھیکیدار بننے کی راہ پر گامزن ہیں اور اپنے انتظامی اختیارات سے تجاوز کرتے ہوئے ملک کی اقلیت کے معاملے میں وہ فیصلے بھی خود لے رہے ہیں جنھیں لینے کی مجاز صرف عدالتیں ہیں۔
یہی سبب ہے کہ سابق نوکر شاہوں کے ‘کانسٹی ٹیوشنل کنڈکٹ گروپ’ نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو لکھے گئے مذکورہ خط میں صرف حکمرانوں کی طرف سے کیے جا رہے بلڈوزرکے استعمال پر ہی اعتراض نہیں کیا ہے بلکہ یہ بھی کہا ہے کہ،’اب مسئلہ صرف مقامی سطح پر پولیس اور انتظامیہ کی زیادتیوں کا نہیں ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ قانون کی حکمرانی،مناسب ضابطہ اور ملزم ثابت نہ ہونے تک بے قصور ماننے کے نظریے کو ہی بدلا جا رہا ہے،اور یہ انصاف کے بنیادی تصور کو بدلنے کے مترادف ہے۔’ ظاہر ہے یہ رجحان اس لیے خطرناک ہے کہ اس کے نتیجے میں قانون کی حکمرانی کا تصور پامال ہو رہا ہے۔اس کے نتیجے میں عدلیہ کے حقوق اور اختیارات پر ڈاکہ زنی کی جو کوششیں کی جا رہی ہیں وہ جمہوریت کے فاشزم کی راہ پر بڑھنے کی طرف اشارہ کرتی ہیں،جس سے ہندوستانی سماج کاصدیوں پرانا فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور یک جہتی کا ماحول تباہ ہونے کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے۔
sirajnaqvi08@gmail.com Mobile:9811602330

Related posts

فوجی ساز و سامان سے لدے سیکڑوں امریکی ٹرک شام کیوں بھیجے گئے ہیں۔

qaumikhabrein

مولا علی کی ولادت کے موقع پرکوئز مقابلہ

qaumikhabrein

آسام کے سماجی کارکن اکھل گوگوئی کو20کروڑ کی پیشکش کس نے کی؟

qaumikhabrein

Leave a Comment