ملک کے جو سیاسی حالات ہیں انھیں دیکھتے ہوئے یہ خدشہ پیدا ہوتا ہے کہ ہو سکتا ہے کسی دن بی جے پی یا سنگھ کے کارکن آپ کے اور ہمارے دروازے پر آئیں اور ہمارے ہاتھوں میں پارٹی پرچم اور بی جے پی حکومت کی مبینہ حصولیابیوں کی ایک فہرست تھما کر ہم پر دباؤ ڈالا جائے کہ ہم اگر سچّے ”راشٹر وادی“ہیں تو حکومت کی ان حصولیابیوں کی تشہیر کا ’قومی فریضہ‘ ادا کریں،اور ایسا نہ کرنے کی صورت میں ہمیں ’راشٹر دروہ‘ کا ملزم بنا دیا جائے۔دراصل یہ خدشہ اس لیے پیدا ہوتا ہے کہ بی جے پی قیادت والی مرکزی حکومت مختلف آئینی اور قانونی اداروں کی خود مختاری کو داؤ پر لگانے کے بعد اب اس کوشش میں بھی ہے کہ آئیندہ پارلیمانی الیکشن سے قبل ملک کی فوج کے ایک حصے اور نوکر شاہی کو بھی اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرے۔
کچھ دن پہلے ہی یہ خبر آئی تھی کہ اپنی سالانہ تعطیل پر آئے ہوئے فوجیوں کو اپنے علاقے میں عوام سے رابطہ کرنے اور سرکاری منصوبوں کے بارے میں انھیں جانکاری دینے کے لیے کہا گیا ہے۔ظاہر ہے اگر ایسا ہوا تو یہ فوج کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی بد ترین مثال ہوگی۔اس لیے کہ ہماری فوج ہمیشہ سرحدوں پر تو اپنے منصبی فرائض بخوبی ادا کرتی رہی ہے،لیکن اسے کبھی بھی کسی بھی حکومت نے سرکاری منصوبوں کا ڈھول پیٹنے کے لیے استعمال نہیں کیا۔یہ کام سرکاری اشتہارات کے ذریعہ ہی کیا جاتا رہا ہے۔دوسری بات یہ کہ تعطیل پر آئے ہوئے فوجیوں کو بھی اگر حکومت کسی کام پر لگا دے تو پھر ان بیچاروں کی تعطیل کا مطلب ہی کیا رہ جائیگا۔ایسا کوئی بھی سرکاری حکم نامہ یا تھوپا جانے والا مشورہ نہ صرف غیر قانونی ہوگا بلکہ غیر اخلاقی بھی اور اس سے فوج کے سیاسی استعمال کی غلط اورخطر ناک روایت کا آغاز ہو جائیگا۔اس کے دور رس نتائج کے بارے میں تو فی الحال کوئی بات کرنا بھی مناسب نہ ہوگا۔یہ سوال بھی اہم ہے کہ تعطیل پر آئے ہوئے فوجیوں سے یہ کام پارلیمانی الیکشن سے کچھ پہلے ہی لینے کی کوشش کیوں ہے؟ظاہر ہے اس کا مقصدحکومت نہیں بلکہ بی جے پی کی انتخابی تشہیر ہی ہو سکتاہے۔حکومت کا یہ ارادہ ثابت کرتا ہے کہ فوجیوں کے سیاسی استعمال کے معاملے پر اس کی نیت میں کھوٹ ہے۔اس سلسلے میں مرکزی وزارت دفاع نے جو ہدایت نامہ حال ہی میں جاری کیا ہے اس میں کہا گیا ہے کہ’تعطیل پر جا رہے ہندوستانی فوج کے فوجیوں کو ملک کی تعمیر کے کام میں حصہ لینا چاہیے اور مقامی گروپوں کے ساتھ تعمیری طریقے سے رابطے میں رہنا چاہیے اور یہ کام کرتے ہوئے سرکاری منصوبوں کی تشہیر میں حصہ لینا چاہیے۔‘
کیا یہ انتہائی درجے کی خود غرضی نہیں ہے کہ سرحدوں پر دن رات اپنا خون پسینا بہانے والے جوان جب چند روز کے لیے اپنے اہلِ خانہ سے ملاقات کے لیے تعطیل پر آئیں تو انھیں ’ملک کی تعمیر‘ کے بہانے سرکاری پروپگنڈے کے کام میں جھونک دیا جائے؟کیا سرحدوں کی حفاظت کم تعمیری کام ہے جو یہ جوان پورے سال اپنے اہل خانہ سے دور رہ کر کرتے ہیں؟ ہر سماج میں ہر شخص کی ملک و قوم کی خدمت کے تعلق سے الگ ذمہ داریاں ہوتی ہیں۔فوج بھی سرحدوں پر اپنی ذمہ داری نبھاتی ہے،
ایسے میں اسے تعطیل میں بھی چین سے نہ بیٹھنے دینا ان کے ساتھ نا انصافی نہیں تو کیا ہے۔کیا ہماری فوج گزشتہ75سال سے ملک کی تعمیر میں اپنا کردار ادا نہیں کر رہی تھی کہ جو اس کے جوانوں کو اس بہانے حکمراں جماعت کی سیاست کا حصہ بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے؟
سرکاری منصوبوں کو مشتہر کرنے میں نوکر شاہی کے استعمال کی کوششیں بھی بی جے پی قیادت والی حکومت کے بد نیتی پر مبنی ارادوں کا حصہ ہیں۔دراصل مودی حکومت نے 2014سے اب تک کی اپنی مبینہ حصولیابیوں کی تشہیر کے لیے ایک منصوبہ بنایا ہے۔اس کے تحت ملک کے ہر ضلع میں ایک رتھ یاترا نکالی جائیگی جس میں مودی حکومت کے فلاحی منصوبوں کے تعلق سے عوام کو بتایا جائیگا۔مسئلہ یہ نہیں کہ ان منصوبوں کو بتانے کا حکومت یا پارٹی کو حق نہیں ہے،بلکہ مسئلہ یہ ہے کہ کیا اس کے لیے ملک بھر کی نوکر شاہی کا استعمال ایسے موقع پر کیا جا سکتا ہے کہ جب پارلیمانی الیکشن قریب ہوں؟کہنے کی ضرورت نہیں کہ یہ سرکاری ملازمین اور سرکاری وسائل کے غیر قانونی استعمال کی بد ترین مثال ہوگی،اور اس سے نوکر شاہی کی غیر جانبداری پر حرف آئیگا۔جبکہ کسی بھی جمہوریت کی مضبوطی کے لیے نوکوشاہی کا غیر جانبدار رہنا ضروری ہے۔لیکن اگر یہ نوکر شاہی الیکشن کے موقع پر سرکاری اشتہار بازی کا حصہ بن جائے تو پھر آپ کس طرح غیر جانبدارانہ انتخابات کی توقع کر سکتے ہیں۔لیکن شائد مودی حکومت کو ان سب باتوں کی پرواہ نہیں۔یہی سبب ہے کہ سرکار چاہتی ہے کہ اس کی حصولیابیوں کو عوام تک پہنچانے کے لیے جو رتھ یاترائیں ہر ضلع میں نکالی جائیں ان میں کسی آئی اے ایس افسر کو انچارج کے طور پر ذمہ داری سونپی جائے۔اس سلسلے میں گزشتہ 18اکتوبر کو وزارت خزانہ کی طرف سے ایک سرکلر جاری کیے جانے کی خبر ہے،جس میں مبینہ طور پر مختلف محکموں سے رتھ یاترا کے لیے ضلع انچارج کے طور پر جوائینٹ سکریٹری،ڈائیریکٹر اسسٹنٹ سکریٹری سطح کے افسران کے نام مانگے گئے ہیں۔اس سرکلر میں کہا گیا ہے کہ 20نومبر سے25جنوری2025تک گرام پنچایت سطح پر اطلاعات کی تشہیر،بیداری اور خدمات کی توسیع کے لیے ملک بھر میں ”ترقی یافتہ بھارت سنکلپ یاترا“ کے توسط سے حکومت ہند کی گزشتہ 9برس کی حصولیابیوں کی نمائش تقریبات منعقد کرنے کی تجویز ہے۔
ان ضلع رتھ یاتراؤں کے انچارجوں کی تعیناتی تمام 765اضلاع میں کی جانی ہے،جن میں 2.69لاکھ گرام پنچایتیں کور ہو جائینگی۔سرکلر میں کہا گیا ہے کہ رتھ یاترا کی تیاریوں،منصوبے پر عمل درآمد اور نگرانی کے لیے تال میل قائم کرنے کی غرض سے حکومت ہند کے جوائینٹ سکریٹریز،ڈائیریکٹروں،اسسٹنٹ سکریٹریز کو رتھ انچارج بنانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔‘اپنے مذکورہ سرکلر پر عمل درآمد کرانے میں مودی حکومت کامیاب ہوتی ہے یا نہیں اس پر فی الحال کچھ کہنا اس لیے جلد بازی ہوگی کہ اس کے خلاف عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے کا راستہ ابھی کھلا ہے۔لیکن اپوزیشن پارٹیوں ہی نہیں بلکہ سابق نوکر شاہوں نے بھی اس سرکلر پر سوال اٹھا کر یہ واضح کر دیا ہے کہ حکومت کی منشا اس معاملے میں درست نہیں ہے،اور وہ نوکر شاہوں کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔اس لیے کہ جب یہ مجوزہ یاترائیں جنوری کے آخری ہفتے میں ختم ہونگی اس کے کچھ دن بعد ہی پارلیمانی انتخابات کی تاریخوں کا اعلان کیا جا سکتا ہے۔ایسے میں حکومت کا یہ قدم سرکاری وسائل کے غلط استعمال کے زمرے میں ہی آئیگا۔اسی لیے کانگریس ترجمان پون کھیڑا نے اس سرکلر پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا ہے کہ،”سِوِل سروینٹس کو چناؤ میں جانے والی سرکار کے لیے سیاسی پروپگنڈہ کرنے کا حکم کیسے دیا جا سکتا ہے؟“کانگریس صدر کھڑگے نے اس سرکاری حکم نامے کو نہ صرف فوراً واپس لیے جانے کا مطالبہ کیا ہے بلکہ یہ بھی الزام لگایا ہے کہ،”مودی سرکار کے لیے تمام سرکاری ایجنسیاں،
ادارے،ونگ اور محکمے اب باقاعدہ پرچارک ہیں۔“کھڑگے نے وضاحت کے ساتھ یہ بھی کہا ہے کہ،”سرکاری ملازمین کے لیے اطلاعات کی تشہیر کرنا قابل قبول ہے،لیکن حصولیابیوں کا جشن منانا اور نمائش کرنا انھیں واضح طور پر برسر اقتدار پارٹی کے کارکنوں میں بدل دیتا ہے۔“کھڑگے نے فوجیوں کے معاملے میں جاری کیے گئیے ہدایت نامے پر بھی سخت اعتراض کیا ہے۔مرکزی حکومت کے ایک سابق سکریٹری ای اے ایس شرما نے بھی ’دی وائر‘ کو دیے گئے انٹرویو میں مودی حکومت کے مذکورہ سرکلر کو ”انتخابی قوانین کی خلاف ورزی“ قرار دیا ہے۔شرما نے اس معاملے میں الیکشن کمیشن کو خط بھی لکھا ہے۔بہرحال مودی حکومت اپنے مذکورہ دو ارادوں میں کس حد تک کامیاب ہوتی ہے یہ کہنا تو مشکل ہے البتہ اس میں کوئی شک نہیں کہ اپنی شکست کے خوف سے گھبرائی ہوئی بی جے پی اور اس کی مرکزی حکومت اب فوج اور نوکر شاہی کو بھی سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرکے جمہوریت کو ایک غلط سمت لے جا رہی ہے۔
sirajnaqvi08@gmail.com Mobile:9811602330