
حضرت خدیجہ ، مکہ کی ایک معزز، مالدار، عالی نسب خاتون تھیں۔جن کا تعلق عرب کے قبیلے قریش سے تھا۔ بی بی خدیجہ حسن صورت و سیرت کے لحاظ سے “طاہرہ” کے لقب سے مشہور تھیں۔ حضرت خدیجہ نے اسلام کے فروغ میں پیغبمر اکرم کا بھر پور ساتھ دیا ، انھوں نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو تجارتی کاروبار میں شریک کیا اور کئی مرتبہ اپنا سامانِ تجارت دے کر بیرون ملک بھیجا۔ وہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی تاجرانہ حکمت، دیانت، صداقت، محنت اور اعلی اخلاق سے اتنی متاثر ہوئیں کہ خود حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو شادی کا پیغام بھجوایا۔ جس کو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے بڑوں کے مشورے سے قبول فرمایا۔ اس وقت ان کی عمر چالیس سال تھی جبکہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم صرف پچیس سال کے تھے۔ حضرت خدیجہ نے سب سے پہلے اسلام قبول کیا اور پہلی ام المومنین ہونے کی سعادت حاصل کی۔

رسول اکرم (ص) کی شریک حیات حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا نے 10 رمضان سنہ 10 بعثت کو مکہ میں وفات پائی ۔آپ قریش کی دولت مند اور نامور خاتون تھیں اور بعثت سے 15 سال قبل رسول اکرم (ص) کی زوجیت میں آئیں ۔حضرت خدیجہ(س) پہلی فرد تھیں جو رسول اکرم (ص) پر ایمان لائیں اور ایمان لانے کے بعد پوری قوت کے ساتھ دین اسلام کی ترویج میں لگ گئیں ۔آپ نے اپنی تمام دولت و ثروت دین الٰہی کی ترویج و اشاعت کے لئے رسول اکرم (ص) کے حوالے کردی اور ہمیشہ آپ (ص) کی مونس و مددگار رہیں ۔حضرت خدیجہ (س) کی ذات گرامی رسول اکرم (ص) کے لئے اتنی زيادہ اہم تھی کہ اس عظیم خاتون کی رحلت کو رسول اکرم (ص) نے بڑی مصیبت قراردیا ۔حضرت خدیجہ (س) کی رحلت پر رسول اکرم (ص) نے فرمایا تھا کہ : خدا کی قسم خدیجہ (س) سے بہتر خدا نے مجھے کوئی چیز عطا نہیں کی ، وہ اس وقت مجھ پر ایمان لائیں جب لوگ کفر میں مبتلا تھے اور انھوں نے اس وقت میری آواز پر لبیک کہا جب لوگ مجھے جھٹلاتے تھے اور اس وقت اپنے مال و ثروت میں برابر کا شریک قراردیا جب لوگوں نے مجھ سے رشتہ توڑ لیاتھا ۔واضح رہے کہ اسی سال رسول اکرم (ص) کے چچا حضرت ابوطالب کی بھی وفات ہوئی تھی اور ان دونوں کے شدید غم کے سبب رسول اکرم (ص) نے اس سال کو ” عام الحزن ” غم کا سال قراردیا تھا۔ حضرت خديجہ (س) كے احسانات آج بھي اسلام پر سايہ كئے ہوئے ہيں۔

رسول اللہ نے جناب خدیجہ کو مکہ مکرمہ میں جنت معلیٰ میں سپرد لحد کیا تھا جس پر بعد میں ایک شاندار روضہ تعمیر کیا گیا تھا لیکن 21 اپریل 1926 کو ابن سود نے ابن عبدالوہاب کے حامیوں کی مدد سے اس روضہ مبارک کو مسمار کردیا۔ جنت معلیٰ میں رسول اللہ کے دادا اور انکے دیگر اجداد کی بھی قبریں تھیں انہیں بھی مسمار کردیا گیا تھا۔