امام زادہ سید محمد حضرت امام علی نقی علیہ السلام اور حضرت سوسن سلام اللہ علیہا کے عظیم المرتبت فرزند اور حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کے بھائی تھے۔ آپ کے ایمان، تقوی، اخلاص اور اطاعت کو دیکھ کر عوام تو عوام خود خواص بھی اس شبہ میں مبتلا تھےکہ امام علی نقی علیہ السلام کے بعد آپ ہی امام ہوں گے۔لیکن آپ امام علی نقی علیہ السلام کی شہادت سے دو برس پہلے ہی 29 ؍ جمادی الثانی 252 ؍ ہجری کو اپنے خالق جا ملے۔ روایات میں آیا ہے کہ جب آپ کی وفات ہوئی اور غسل و کفن انجام پا گیا تو امام علی نقی علیہ السلام نے امام حسن عسکری علیہ السلام سے فرمایا’’يَا بُنَيَّ أَحْدِثْ لِلَّهِ شُكْراً فَقَدْ أَحْدَثَ فِيكَ أَمْراً (ائے میرے بیٹے! اللہ نے تمہارے لئے نیکی کی تم بھی اس کا شکر ادا کرو۔الغيبہ (للطوسي)، صفحہ203 )
امام زادہ سید محمد علیہ السلام جہاں اپنے امام اور والد ماجدامام علی نقی علیہ السلام کے مطیع اور فرماں بردار تھے وہیں اپنے بھائی امام حسن عسکری علیہ السلام کے اسی طرح سے وفادار تھے جیسے حضرت عباس علیہ السلام امام حسین علیہ السلام کے وفادار تھے۔ آپ کو “سبع الدجیل” کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔ امام زادہ حضرت سید محمد علیہ السلام کا سامرہ کے نزدیک شہر بلد میں موجود روضہ مبارک عاشقان آل محمد کی زیارت گاہ ہے۔ جہاں کرامات کا ظہور ہوتا ہے ۔ پریشاں حال آپ کی بارگاہ سے مرادیں پاتے ہیں۔ عراق میں کوئی آپ کی جھوٹی قسم نہیں کھاتا اور اگر کوئی آپ کی قسم کھا لے تو لوگ اس کا یقین کرتے ہیں۔اولاد کی نعمت سے محروم افراد انکے روضے پر اپنی مرادیں پاتے ہیں۔سید محسن الامین اپنی کتاب (اعیان الشیعہ) میں لکھتے ہیں:سید ابو جعفر محمد ابن امام علی نقی ہادی علیہ السلام، جنکی 252 ہجری میں وفات ہوئی وہ ایک جلیل القدر سید اور عظیم انسان تھے۔
ثقۃ الاسلام شیخ نوریؒ کو امام زادہ حضرت سید محمد علیہ السلام سے خاص عقیدت تھی ۔ انھوں نے روضہ مقدس کی تعمیر میں نمایاں کوششیں کی اور ضریح مبار ک پر مندرجہ ذیل عبارت تحریر فرمائی۔ ھذا مَرقَدُ السَّیّدُ الجَلیلِ، أبی جَعفَر، مُحَمَّد بنِ الإِمامِ أبِی الحَسَنِ، عَلی الهادی عَلَیهِ السَّلام، عَظیمِ الشَّأنِ، جَلیلِ القَدرِ، و کانَتِ الشّیعَةُ تَزعُمُ أَنَّهُ الإمامُ بَعدَ أبیهِ عَلَیهِ السلام، فَلما تُوفی، نَصَّ أبُوهُ عَلى أخیهِ أبی مُحَمَّدٍ الّزکی عَلَیهِ السَّلامُ، و قالَ لَهُ: أَحْدِثْ ِللِه شُکْرَاً، فَقَدْ أَحْدَثَ فیکَ أمرًا. خَلَّفَهُ أبُوهُ فی المَدینَةِ طِفلاً، وَ قَدِمَ عَلَیهِ فی سامِراء مُشْتَدْاً، وَ نَهَضَ إلى الُّرجُوع إلَى الحجازِ، وَ لَمّا بَلَغَ بَلَدَ عَلى تسعَةِ فَراسِخَ، مَرِضَ و تُوُفّی، وَ مَشهَدُهُ هُناکَ وَ لَمَّا تُوُفیَ، شَقَّ أبُو مُحَمَّدٍ عَلَیهِ ثَوبَهُ، وَ قالَ فی جَوابِ مَن عابَهُ عَلَیهِ: قَد شَقَّ موسى عَلى أخیهِ هارون، و کانَت وَفاتُهُ فی حُدُودِ اثْنَینِ و َخَمسینَ بَعدَ المِائَتَینِ۔ یہ امام ابو الحسن علی نقی علیہ السلام کےفرزندحضرت ابو جعفرسید محمد علیہ السلام کا مزار ہے۔جب ان کا انتقال ہوا تو ان کے والد نے انکے بھائی حضرت ابو محمد امام حسن عسکری علیہ السلام کی امامت کو واضح کیا اور ان سے فرمایا: خدا کا شکر ادا کرو کہ اس نےتمہارے سلسلہ میں تجدید حکم کیا ، ان کے والد نے انہیں بچپن میں ہی مدینہ منورہ میں چھوڑ دیا۔جب وہ جوان ہوئے تو سامرا میں اپنے والد سے ملاقات کے لئے تشریف لے گئےاور جب وہ سامرا سے مدینہ واپس جا رہے تھے تو سامرا سے نو میل دور مقام بلاد میں بیمار ہو گئے اور اسی بیماری میں ان کا انتقال ہو گیا اوروہیں (بلادمیں) دفن ہوئے۔جب انکی وفات ہوئی تو حضرت ابو محمدامام حسن عسکری علیہ السلام نے اپنا گریبان چاک کر دیا ، لوگوں نے جب اعتراض کیا توآپؑ نے فرمایا: حضرت موسیٰ نے اپنے بھائی ہارون کے غم میں اپنا گریبان چاک کیا تھا،سید محمد کی وفات 252 ہجری میں ہوئی ۔
امام زادہ سید محمد ؑ کی عظمت کے فقط شیعہ قائل نہیں ہیں بلکہ اہل سنت کو بھی آپ کی فضیلتوں کااقرار ہے اور وہ بھی اپنی مرادیں پانے کے لئے آپ کے مزار مقدس پر حاضر ہوتے ہیں۔ جب داعش دہشت گرد عراق میں ہر جانب تباہی مچا رہے تھے اور ہر روضہ کو منہدم کرنا چاہتے تھے تو انھوں نے آپؑ کے روضہ پر بھی حملہ کیا تھا لیکن اس وقت سب کی حیرت کی انتہا نہ رہی جب داعش کے تمام حملے آپ کے روضہ کے قریب ناکام ہوتے نظر آئے اور آپ کے روضہ کو کوئی نقصان نہ پہنچا۔
(تحریر۔۔ مولانا سید علی ہاشم عابدی)