qaumikhabrein
Image default
uncategorized

اورنگ آباد۔ مطلع ادب کی ادبی نشست ۔ایک شام نثر نگاروں کے نام۔

اورنگ آباد میں ادبی روایات کی ایک طویل تاریخ ہے ۔ ان ادبی روایات کو پروان چڑھانے میں مطلع ادب کی ادبی خدمات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ، مطلع ادب کی کاویشوں کی ہی دین ہیکہ نورالحسنین جیسے ادیب کو آج ادبی دنیا میں مقام ملا ، ان خیالات کا اظہار معروف ادیب و ناول نگار نورالحسنین نے کیا ۔ نور الحسنین کی صدارت میں مطلع ادب کی ادبی نشست ایک شام نثر نگاروں کے نام منعقد ہوئی ۔ اپنے صدارتی خطاب میں انھوں نے کہا کہ اسی وزیر منزل میں انھوں نے اپنا پہلا افسانہ کالے ہاتھ پڑھا تھا، استاد شاعر جے پی سعید کی ادبی خدمات سے ادبی دنیا اچھی طرح سے واقف ہے ، ان ہی کی کاویشوں سے مطلع ادب کا قیام عمل میں آیا اور اپنے والد کی ادبی روایات کو اب صدیقی برادران آگے بڑھا رہے ہیں ۔ یہ ادبی دنیا کے لیے نیک فال ہے ،

ڈاکٹر شکیل خان نے اپنے مزاحیہ مضمون میں غالب کو ان کے کلام کے آئینے میں سمجھا نے کی کوشش کی اسی طرح ڈاکٹر صدیقی صائم نے اپنے پہلے افسانے ، دو دھ پاؤڈر‘‘کے ذریعے کورونا سے لیکر بھوک مری تک کے حالات کا نقشہ کھینچا ،اسی طرح طنز ومزاح کے استاد سعید زیدی نے گڈھے عنوان کے تحت شہر کی سڑکوں کے گڑھوں کی وجہ سے عوام کو کن مسائل کا سامنا ہے اور ڈاکٹروں کی کیسے دکانیں چل پڑیں ہیں اس پر روشنی ڈالی تو گڑھوں کی اہمیت و افادیت کو بھی اپنے منفرد اور مخصوص انداز میں پیش کیا، معروف صحافی ابو بکر رہبر نے اپنے مضمون الرجی کو اس سلیقے سے پیش کیا کہ نورالحسنین نے برملا تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ اب تومجھے ادبی پروگراموں کی صدارت سے الرجی ہوگئی ہے ۔ اپنے صدارتی خطاب میں نورالحسنین نے کہا کہ مطلع ادب کی ہی دین ہیکہ اورنگ آباد میں ادبی فضا برقرار ہے ، اس نشست میں جو افسانے ، انشائیے اور طنز و مزاح کے مضامین پڑھے گئے وہ ہر لحاظ سے قابل تعریف رہے ،

ان مضامین اور افسانوں کو اس طرح سے سمجھا جاسکتا ہے کہ ہر مضمون دوسرے مضمون سے یا تو بہتر تھا یا پہلے مضمون کو ذہن سے مٹا کر نیا تاثر چھوڑتا تھا جہاں تک افسانوں کی بات ہے تو نئے لکھنے والوں کے لیے آج بھی یہ مسئلہ ہیکہ شروعات تو بہت اچھے ڈھنگ سے ہوتی ہے لیکن اختتام کیسے کرنا ہے اس سے وہ واقف نہیں ہوتے لیکن سلیم احمد کا جو افسانہ ہے وہ ایک بھر پور افسانہ تھا زبان کا افسانہ تھا اور سوچنے پر مجبور کرنے والا افسانہ تھا ، اس افسانے میں کئی ایسے خوبصورت جملے تھے محاورے کی طرح لوگوں کے ذہنوں میں محفوظ ہوگئے ہونگے ، اس موقع پر معروف ادیب ،شاعر و دانشور ڈاکٹر ارتکاز افضل نے کہا کہ نثر ایک مشکل کام ہے ، دونوں صورتوں میں چاہے آپ نثر لکھیں یا افسانہ یا سنجیدہ مضمون لکھنا اس لحاظ سے مشکل ہیکہ جملے سے لیکر پورا مضمون بامعنی ہونا چاہیئے ، اس لیے نثر کا لکھنا بہت مشکل ہے، میری دانست میں ہم لوگوں کو شاعری کی محفلوں کے ساتھ ساتھ نثر کی محفلوں کا پابندی سے انعقاد کرنا چاہیئے کیونکہ ایسی ہی محفلوں سے مشق ہوتی ہے او ر لکھنے والوں کی اصلاح بھی کی جاسکتی ہے ۔ اس لحاظ سے مطلع ادب کی ابن کاویشوں کی جتنی ستائش کی جائے کم ہے ۔ اس ادبی نشست میں معروف صحافی تحسین احمد خان نے بھی اپنا مزاحیہ مضمون پہلی مرتبہ سنایا اور خوب داد بٹوری اسی طرح معیز ہاشمی نے اپنا مزاحیہ مضمون نان قلیہ سناکر سامعین کا دل جیت لیا ، جاوید صدیقی نے پروگرام کی نظامت کے فرائض انجام دیئے جبکہ ڈاکٹر نوید صدیقی کے اظہار تشکر پر پروگرام اختتام کو پہنچا۔ پروگرام کے کنوینر ڈاکٹر نوید صدیقی کا کہناہیکہ اس طرح کے پروگراموں کا مقصد نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرنا اور انھیں پلیٹ فارم مہیا کرنا ہے ، ڈاکٹر نوید صدیقی نے عزم کیا کہ مستقبل قریب میں بڑے پیمانے پر ایک پروگرام منعقد کیا جائیگا اور اس میں قومی سطح کے ادیبوں کو مدعو کیا جائیگا ۔ مطلع ادب کی یہ نشست کافی رات تک جاری رہی ۔(رپورٹ۔شیخ اظہر الدین۔اورنگ آباد)

Related posts

امروہا۔۔۔ ہے آفتاب مرثیہ خوانی عروج پر

qaumikhabrein

سہارنپور۔۔غریبوں کے کھانے کاپیسہ اللہ کے کھاتے سے ادا ہوتا ہے۔

qaumikhabrein

روی کیاسرام کو امریکی بزنس ایوارڈ۔

qaumikhabrein

Leave a Comment