کیا یہ ممکن ہیکہ محض آڈھا کلو میٹر کے فاصلے پر کورونا ٹیسٹ کی رپورٹ پازیٹیو سے نگیٹیو ہو جائے۔ نہیں نا۔ یقیناؕ اس میں کوئی گڑ بڑ جھالا ہے۔ یا تونیگیٹیو بتانے والی رپورٹ غلط ہے یا پازیٹیو بتانے والی رپورٹ جھوٹی۔کیونکہ دونوں رپورٹیں تو صحیح نہیں ہو سکتیں خاص طور سے اس وقت کہ جب دونوں ٹیسٹ کئے جانے میں ایک سےدو گھنٹے کا ہی فرق ہو۔ یہ خبرپڑھنے والے لوگ یہ ضرور جاننا چاہیں گی کہ قصہ کیا ہے۔ تو جناب پڑھئے اور ذرا غور سے پڑھئے۔ معاملہ ہے ہندستان پاکستان کے اٹاری اور واگہ بارڈر کا۔
پاکستانی حکام نے واگہ پرہندستان سے پاکستان جانے والے کچھ افراد کا کورونا ٹیسٹ کیا۔ اور بتایا کہ انکی رپورٹ پازیٹیو ہے اور انہیں پاکستان جانے کی اجازت نا دیتے ہوئے واپس کردیا۔ جب یہ لوگ واپس اٹاری بارڈر آئے اور وہاں موجود ڈاکٹروں نے ان افراد کے کورونا ٹیسٹ کئے تو سب نیگیٹیو نکلے۔ یعنی صرف آدھا کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنے کے بعد لوگ پازیٹیو سے نگیٹیو ہو گئے۔ پورا معاملہ ذرا تفصیل سے پڑھئے تو واگہ پر موجود پاکستانی حکام کی بد دیانتی، بے ایمانی، بے غیرتی، غیر انسانی سلوک، جھوٹ اور پاکھنڈ سمجھ میں آجائے گا۔
شمالی ہندستان کے تاریخی شہر امروہا سے نو افراد کا ایک قافلہ14 جنوری2022 کو مراد آباد سے ٹرین کے ذریعے روانہ ہوا۔15 جنوری کو امرتسر پہونچا اور وہاں سے کرایہ کی ٹیکسیوں کے ذریعے اٹاری بارڈر پہونچا۔ اس قافلے میں دو خاندانوں کے افراد تھے۔ ایک خاندان کے سات افراد اور دوسرے خاندان کے دو افراد۔ عاصم رضا، انکی اہلیہ کنیز نرجس، بہن ترانہ نوشابہ،
بیٹا ارسم ، بیٹی عبا، بزرگ پھوپی شمیم زہرا اور کنیز فاطمہ۔دوسرے خاندان کے افراد تھے سید سبط سجاد اور انکی اہلیہ۔ سبط سجاد اپنی اہیلہ کو انکے اہل خانہ سے ملوانے کے لئے پاکستان جا رہے تھے جبکہ عاصم رضا اپنی بھانجی کی شادی کے سسلے میں کراچی جارہے جارہے تھے۔ کم عمر ہونے کے سبب ارسم اور عبا کو چھوڑ کر دونوں خاندانوں کے تمام افراد پوری طرح vaccinated تھے یعنی سب کے ویکسین کے دونوں انجکشن لگ چکے تھے۔ روانگی سے بہتر گھنٹے پہلے سب کے ٹیسٹ ہو چکے تھے۔ اٹاری بارڈر پر ہندستانی حکام نے ویکسی نیشن کے سرٹی فکیٹ چیک کئے۔سامان کی تلاشی لی ، پاسپوٹ ویزا چیک کیا اور وزارت داخلہ کے اجازت نامے چیک کئے اور دونوں قافلوں کو پاکستانی سرحد کی جانب جانے کی اجازت دیدی۔
واگہ بارڈر پر موجود پاکستانی حکام کا رویہ ان لوگوں کے ساتھ ابتدا سے ہی خراب رہا۔ سب لوگ بڑے جھلائے ہوئے سے لگ رہے تھے۔ قافلے کے لوگوں نے ویکسی نیشن کے سرٹی فکیٹ دکھائے لیکن وہ انکو ماننے کو تیار نہیں ہوئے ۔انہوں نے شمیم زہرا، کنیز نرجس اور ارسم کے کورونا ٹیسٹ کرائے اور بتایا کہ رپورٹیں پازیٹیو ہیں۔۔ اس لئے یہ لوگ نہیں جا سکتے۔ عاصم رضا اور انکے اہل خانہ کے اندر کورونا کی علامات موجود نہیں تھیں اس لئے انہوں نے ٹیسٹ کی رپورٹ دکھانے کی درخواست کی لیکن پاکستانی حکام نے رپورٹ دکھانے سے صاف انکار کردیا۔ اسکے بعد عاصم رضا نے کہا کہ اگر کچھ لوگوں کی ٹیسٹ رپورٹس پازیٹیو ہیں تو انہیں چار پانچ روز کے لئے قرنطینہ یاisolation میں رکھ لیا جائے لیکن پاکستانی حکام اس پر بھی تیار نہیں ہوئے اور پازیٹیو پائے گئے لوگوں کو واپس جانے کو کہہ دیا۔ پاکستانی حکام نے یہ بھی خیال نہیں کیا کہ سخت سردی میں یہ لوگ امروہا سے واگہ تک آئے ہیں اور قافلے میں ایک بزرگ اور کمزور خاتون بھی شامل ہے۔۔ ایسا محسوس ہورہا تھا کہ جیسے پاکستانی حکام کے اندر انسانی ہمدردی کا کوئی جزبہ موجود ہی نہیں ہے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ترانہ نوشابہ، کنیز فاطمہ، عبا ،سبط سجاد اور انکی اہلیہ کو پاکستان کی جانب رخصت کرکے قافلے کے بقیہ لوگ اٹاری بارڈر کی جانب چل پڑے۔
اٹاری بارڈر پر پاکستانی حکام کے جھوٹ اور بے ایمانی کا بھانڈہ پھوٹا۔ جب اٹاری بارڈر پر حکام کو معلوم ہوا کہ تین افراد کو پاکستانی حکام نے کورونا پازیٹیو بتایا ہے تو انہوں نے ان سب کے ٹیسٹ کئے۔ لیکن رپورٹ نیگیٹو آئی۔ انہوں نے مکمل اطمیان کی خاطر ایک ایک فرد کے کئی کئی ٹیسٹ کئے لیکن ہر بار رپورٹ نیگیٹو ہی آئی۔ اب یہ تو ممکن نہیں ہیکہ پاکستانی بارڈر پر کورونا ٹیسٹ رپورٹ پازیٹیو ہو اورآدھا کلو میٹر دور ہندستانی بارڈر پر نگیٹیو۔پاکستانی حکام نے جھوٹ کا سہرا لیکر چار افراد کو ویزا ہوتے ہوئے پاکستان میں داخل نہیں ہونے دیا۔
اٹاری پر ہندستانی حکام اور وہاں موجود دیگر اسٹاف سب غیر مسلم تھے لیکن ان سب کا برتاؤ نہایت ہمدردانہ تھا۔ سب لوگ انکی پریشانی پر بہت افسوس اور اظہار ہمدردی کررہے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ پاکستان کی جانب سے آنے والا کوئی شخص اگر کورونا پازیٹیو پایا جاتا ہے تو اسکو واپس نہیں بھیجا جاتا بلکہ بارڈر پر ہی قرنطینہ یا isolation میں رکھا جاتا ہے۔ دونوں ملکوں کے بارڈر حکام کے برتاؤ میں یہ فرق بڑا واضح ہے۔ پاکستانی بارڈر پر تمام عملہ مسلمان ہے لیکن ہندستانی مسلمانوں کے ساتھ انکا رویہ نہایت غیر انسانی اور غیر اسلامی تھا۔
پاکستانی سرحد پر تعمیر باب آزادی پر تین الفاظ جلی حروف میں تحریر ہیں۔ایمان،اتحاد اور تنظیم لیکن پاکستانی حکام کے وجود میں ان تینوں الفاظ کا کوئی اثر نظر نہیں آتا۔ پاکستانی حکام کے ظالمانہ سلوک کا شکارعاصم رضا اپنی اہلیہ ، بیٹےاور پھوپی کے ساتھ ٹرین کے ذریعے امروہا واپس آگئے لیکن راستے بھر انکے ذہن میں پاکسانی اسٹاف کے چہرے علامہ اقبال کے اس مصرعے کے ساتھ گھومتے رہے۔
یہ مسلماں ہیں جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود