‘فارسی زبان و ادب کا ہندستانی زبانوں کے ساتھ تعامل’ کے موضوع پر علی گڑھ مسلم یو نیورسٹی کے آرٹس فیکلٹی لاؤنج میں ایک قومی سیمینار منعقد ہوا۔ سیمنار کا اہتمام اے ایم یو کے شعبہ ہندی، اور انسٹی ٹیوٹ آف پرشیئن ریسرچ کے اشتراک سے ہوا۔سیمنار کی صدارت این سی پی یو ایل کے ڈائریکٹر ڈاکٹر عقیل احمد نے کی جبکہ کلیدی خطبہ ہندی کے فکشن نگار پروفیسر عبدل بسم اللہ نے دیا۔ڈاکٹر عقیل احمد نے کہا کہ زبانیں سرحدوں میں قید نہیں رہتیں اور دنیا پر اپنا اثر چھوڑتی ہیں۔ ہندستان میں مغلوں کی حکومت سیکڑوں برس تک رہی اور مغلوں کی زبان فارسی تھی اسی لئے فارسی زبان اور ایرانی تہذیب کا اثر ہندستان پر بہت زیادہ گہرا ہے۔ ڈاکٹر عقیل نے کہا کہ مغل عہد میں فارسی ہندستان کی سرکاری زبان تھی۔ ہندستان کی زبانوں پر فارسی کا اثر صاف نظر آتا ہے۔ انہوں نےکہا کہ فارسی کے بغیر اردو کا تصور ہی نہیں کیا جا سکتا ۔اگر فارسی کو اردو زبان سے الگ کردیا جائے تو اردو زبان کا وجود برقرار نہیں رہ سکتا۔انہوں نے ہندوستانی زبانوں کی فہرست میں فارسی کو بھی شامل کئے جانے کا مطالبہ کیا۔
اپنے کلیدی خطاب میں پروفیسر عبدل بسم اللہ نے کہا کہ ہندی کے قارئین کے لیے فارسی ادب کتنا دستیاب ہے اس کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے، تبھی ہم ہندی اور فارسی زبانوں کے باہمی تعلق کا صحیح تجزیہ کر سکیں گے۔
قومی سیمینار میں افتتاحی خطاب کرتے ہوئے اعزازی مشیر، انسٹی ٹیوٹ آف پرشیئن ریسرچ پروفیسر آذرمی دخت صفوی نے سیمینار کے موضوع کی معنویت بیان کی۔ انھوں نے کہا کہ جدید ہندوستانی زبانوں اور مشرقی زبانوں کے درمیان باہمی تعاون کو بڑھانے کی ضرورت ہے”۔ انہوں نے قدیم زمانے سے مختلف شعبوں میں ہندوستان اور ایران کے باہمی تعلقات پر بھی روشنی ڈالی۔ انھوں نے ویدوں کے تناظر میں فارسی اور سنسکرت کو جڑواں بہنیں قرار دیا۔ ہندوستان کی علاقائی زبانوں میں فارسی کے ایسے الفاظ آج بھی موجود ہیں جن کا کوئی بدل نہیں ہے۔ کبوتر، فاختہ، کمیز اور پاجامہ کا بدل کیا لاسکتے ہیں، اسی طرح چشمدید اور خلاصہ کا بدل کیا لایا جا سکتا ہے یہ وہ لفظ ہیں جو فارسی سے آئے ہیں اور ہندوستانی زبانوں میں گھُل مل گئے ہیں۔ اسی لئے ہندوستانی زبانوں میں فارسی کے الفاظ کا اثر ہے۔
پروفیسر عارف نذیر، ڈین، فیکلٹی آف آرٹس نے ہندوستانی زبانوں کے ایک دوسرے کے ساتھ تعامل اور دنیا کی زبانوں کے ساتھ ان کے تعلقات پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہا کہ دوسری زبان جاننے سے چیزوں کو مختلف نقطہ نظر سے دیکھنے میں مدد ملتی ہے۔ سیمینار میں بی اے کی طالبہ عرشی نے امیر خسرو کی نظم پیش کی۔